مرحوم صدر جنرل پرویز مشرف کے ڈکٹیٹر ہونے میں کوئی دو رائے نہیں۔ میرے نزدیک بظاہر جمہوری حکومتوں میں بھی ڈکٹیٹر شپ موجود ہوتی ہے۔ ایک عام شہری کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتا کہ ایوانِ اقتدار میں کام کیسے ہوتا ہے؟ اس کے نزدیک تو باعزت روزگار، عزتِ نفس اور امن وامان کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔

ہماری روایات میں فوت ہونے والے شخص کے بارے میں منفی بات بالعموم نہیں کی جاتی اور پھر اقتدار کی جنگ میں بھائی بھائی کو قتل کرنے سے بھی انکار نہیں کیا کرتا تھا، ہر کوئی بلا شرکتِ غیرے اقتدار کی مکمل قوت کو استعمال کرنا چاہتا ہے خواہ طریقہ کوئی بھی ہو۔ تاریخ میں سیاسی شخصیات پر تنقید ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف کو آج سپرد خاک کیا جائے گا، اللہ ان کی مغفرت کرے اور جن لوگوں کو ان سے تکلیف ہوئی اللہ ان کے ظرف کو بھی بڑا کرے۔

پرویز مشرف کے بارے میں میری معلومات بہت محدود ہیں مگر یہ میرے علم میں ہے کہ پاک-چین تعلقات میں جو سی پیک کا معاملہ ہے اس کو 2005ء میں پرویز مشرف اور جنرل احسان الحق کی مشترکہ سوچ نے پروان چڑھایا تھا۔ 2005ء میں امریکی حکومت پاکستان کو ایک سو ایف 16 طیارے دینا چاہتی تھی اور ہماری فضائیہ اس پر آمادہ بھی تھی مگر مذکورہ بالا دو شخصیات نے فیصلہ کیا کہ کچھ ایف 16 خرید لیں اور ہمارے جو جہاز امریکا نے روک رکھے ہیں ان کو بھی واپس لیا جائے لیکن ساتھ ہی جے ایف 17 اور جے 10 پر چین کے ساتھ بات کر کے اپنے تزویراتی تعلقات اور معیشت و علاقائی ترقی کی بات کو آگے بڑھایا جائے۔

یوں اس وقت کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل احسان کے دورہ چین میں ہمارے سفیر سلمان بشیر کے ساتھ مل کر چینی وزارت خارجہ کو یہ منظر دکھایا گیا کہ اگر چین اپنی معیشت کو ترقی دینا چاہتا ہے تو اس کو چاہیے کہ کاشغر سے حویلیاں تک ریل کی پٹڑی بچھائی جائے اور گوادر کا راستہ اختیار کرکے تیل پر اٹھنے والے اخراجات کو بچایا جائے۔ اس سے پاکستانی معیشت بھی بہتر ہوگی اور دوسرا یہ کہ پاکستان میں بجلی کی قلت کو دور کرکے صنعتی یونٹس یہاں لگائے جائیں۔

اس دورے میں جب یہ منظر چینی حکام کو دکھایا گیا تو انہوں نے اپنا منصوبہ بندی کا ایجنڈا تبدیل کیا اور 30 کروڑ ڈالر شاہراہ قراقرم کی صورتحال کو بہتر کرنے پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد صدر مشرف کے دورہ چین کے دوران سرکاری طور پر ان منصوبوں پر بات شروع ہوگئی اور اس کا اعلان کردیا گیا۔ شیخ رشید نے پاکستان کی طرف سے ریلوے لائن کے منصوبے کے ایم او یو پر دستخط کیے۔

پرویز مشرف اقتدار سے الگ ہونے کے کچھ دن بعد چین اور سعودی عرب گئے۔ جب وہ واپس آئے تو کچھ عرصے بعد انہوں نے اپنے دوستوں کی میٹنگ بلائی جس میں خورشید قصوری، ایس ایم ظفر، محمد علی درانی، میں اور دیگر لوگ بھی شامل تھے جن کے نام اس وقت مجھے یاد نہیں۔ اس ملاقات میں پرویز مشرف نے پوچھا کہ میں اب کیا کروں؟ یہ وہ وقت تھا جب افتخار چوہدری کی بحالی کا فیصلہ ہوچکا تھا لیکن انہوں نے ابھی عہدہ نہیں سنبھالا تھا۔ اس ملاقات کے اختتام پر ایس ایم ظفر نے رائے دی کہ افتخار چوہدری آپ کو چھوٹی عدالتوں میں خراب کردیں گے۔

صدر مشرف چین کے نائب وزیر اعظم کے ہمرا گوادر بندرگاہ کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر— تصویر: اے پی
صدر مشرف چین کے نائب وزیر اعظم کے ہمرا گوادر بندرگاہ کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر— تصویر: اے پی

میری ذاتی رائے اور پرویز مشرف کی رائے بھی یہی تھی کہ انہیں پاکستان میں رہنا چاہیے۔ میں نے جب اس ملاقات کا ذکر اپنے گھر میں کیا تو میری بیٹی نے کہا آخر ہم اس بات پر کیوں مصر ہیں کہ انہیں ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے۔ اس نے پرویز مشرف سے بات کرنے کی بھی ضد کی۔ جب میں نے اسے فون ملا کر دیا تو اس نے پرویز مشرف کو یہی کہا کہ انکل آپ اس ملک سے چلے جائیں ورنہ یہاں کی عدالتیں آپ کو تنگ کریں گی۔ اس پر پرویز مشرف نے پوچھا کہ تمہارے والد کی کیا رائے ہے، اس نے جواب دیا کہ ان کی رائے اس کے برعکس ہے۔ پرویز مشرف نے جواب دیا کہ میرا بھی یہی خیال ہے کہ مجھے ملک میں رہنا چاہیے۔

اس ملاقات کے بعد میں امریکا چلا گیا۔ 2009ء میں میرا لندن جانا ہوا جہاں پرویز مشرف بھی موجود تھے۔ مجھے میرے بیٹے نے بتایا کہ مشرف صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ جب میں ان سے ملنے گیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم میرے ساتھ امریکا چلو۔ میں نے ان سے کہا کہ میں ابھی امریکا سے آیا ہوں اگر آپ مجھے پہلے کہہ دیتے تو میں وہیں رک جاتا۔ انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ مجھے تم سے کچھ مشورہ کرنا ہے۔ بہرحال ہم ایک نجی دورے پر امریکا گئے۔

اس دوران میں نے ان سے پوچھا کہ جب آپ نے اشفاق پرویز کیانی کو آرمی چیف تعینات کیا تھا تو آپ بہت خوش اور مطمئن تھے لیکن اب آپ کا کیا خیال ہے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’میں جانتا ہوں کہ تم نے اس رائے سے اختلاف کیا تھا اور اب میرا بھی یہی خیال ہے کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جنرل شجاع پاشا اور جنرل کیانی کو میں نے جن عہدوں پر رکھوایا، میرے خیال سے میرا یہ فیصلہ غلط تھا اور مجھے لگتا ہے کہ اس سے ملک کو نقصان ہوگا‘۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کے ایک بریگیڈیئر نیاز سے یہ کہا کہ وہ پرویز مشرف کو یہ پیغام پہنچادیں کہ وہ ملک سے چلے جائیں اور جب تک میں عہدے پر ہوں ملک واپس نہ آئیں۔ بعد میں پرویز مشرف نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ یہ پیغام جنرل کیانی نے براہ راست بھی ان تک پہنچایا۔ پرویز مشرف اسی وجہ سے پاکستان سے گئے ورنہ ان کا خیال یہ تھا ان کا جینا مرنا پاکستان میں ہی ہونا ہے۔ لیکن چونکہ آرمی چیف نے انہیں یہ پیغام پہنچایا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ فوج کے سربراہ کے سامنے کھڑے ہونا درست نہیں ہے۔

پاکستانی سیاست میں سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کا بالواسطہ طور پر منتخب ہونا بھی پرویز مشرف ہی کی مرہون منت ہے کیونکہ انہوں نے ایک حکم اور آئینی ترمیم کے ذریعے سیاست کے نچلی سطح سے لے کر قومی دہارے تک خواتین کو شامل کیا تھا۔ اصولی طور پر 1973ء کے دستور میں خواتین ارکان کے بالواسطہ انتخاب کے لیے 10 سال تک گنجائش رکھی گئی تھی اور 1988ء میں محترمہ بےنظیر بھٹو کے دور میں خواتین کا یہ رول ختم ہوگیا تھا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک مقبول خاتون سابق رکن قومی اسمبلی نے مجھ سے اس بات کا اظہار کیا کہ میں پرویز مشرف سے مل کر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ ان کی وجہ سے مجھ سمیت سفید پوش خواتین کارکن قومی اسمبلی کی رکن بن گئی ہیں۔ میں نے محترمہ کو سمجھایا کہ آپ کی جماعت آپ کی اس ملاقات کو پسند نہیں کرے گی اور پھر ایک روز فون پر میں نے ان خاتون کی صدر مشرف سے بات کروا دی۔ بظاہر مخالف خاتون دوران گفتگو رو رہی تھیں۔

پرویز مشرف جنرل کیانی اور جنرل شجاع پاشا کے حوالے سے اپنے فیصلے کو غلط سمجھتے تھے
پرویز مشرف جنرل کیانی اور جنرل شجاع پاشا کے حوالے سے اپنے فیصلے کو غلط سمجھتے تھے

بھارتی سیاستدان یہ بات شدومد کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ پاک فوج پاک-ہند تعلقات میں رکاوٹ ہے مگر پرویز مشرف فوجی جنرل ہوتے ہوئے بھی سول لباس میں صدرِ پاکستان کے طور پر آگرہ گئے اور معاہدے کے لیے نہ صرف بات چیت مکمل کی بلکہ معاہدہ پر دستخط کے لیے انتظار کرتے رہے تا آنکہ ویزہ کا وقت ختم ہورہا تھا اور وہ دنیا کو بھارت کا مکارانہ چہرہ دکھا کر واپس آگئے۔ پرویز مشرف کی رگ رگ میں بھارت دشمنی موجود تھی۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگ کے وہ غازی تھے۔ بھارتی میڈیا اور دنیا بھر میں ہر جگہ مسلمانوں کے بارے بھارت کے منفی رویے پر سخت ترین بات مشرف ہی کا کام تھا۔

9 ستمبر کے واقعے نے پوری دنیا کی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا، دنیا بھر کا پاکستان پر دباؤ تھا، ہمارے تمام راستے بند تھے، ایسے مشکل وقت میں امریکا کے بارے میں ان کی سیاست اور ہمارے ساتھ سفارتی و وفاقی تعلقات پر جس طرح امریکا کی خامیوں، احسان فراموشی اور منہ پلٹ لینے کا ذکر مشرف نے کیا اور افغان معاملے کو دنیا کے سامنے رکھا یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ پاکستان تنہائی کا شکار واپس دنیا بھرمیں اہم ہوگیا، گو دہشت گردی عام ہوئی مگر مشرف بھی اس کا 2 بار ذاتی طور پر شکار ہوئے۔ کشمیرکے مسئلے کا حل کوئی آسان نہیں مگر مشرف نے کشمیری قیادت کو اعتماد میں لے کر اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا تھا۔

ڈکٹیٹر مشرف نے پاکستانی معیشت کو خوب سنبھال رکھا تھا ان کے دورِ حکومت میں ڈالر 60 روپے کا فروخت ہوتا تھا۔ ہر فوجی دفاعِ وطن پر دھیان دیتا تھا، یہ کام پرویز مشرف نے بھی اچھی طرح کردیا تھا، اگر اس شخص میں کوئی صلاحیت نہ ہوتی تو میاں نواز شریف اس کو جنرل علی قلی پر فوقیت دے کر آرمی چیف نہ بناتے۔

اے کاش پرویز مشرف جب مطلق العنان حکمران تھے تو پاکستان کے صوبوں کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم کردیتے تو سیاست کا رنگ روپ مختلف ہو جاتا، اجارہ داری اور بلیک میلنگ بھی ختم ہوجاتی جبکہ سینیٹ میں بھی بہتری ہوجاتی۔ اسی طرح اگر پرویز مشرف مصلحت کاشکار نہ ہوتے اور کالا باغ ڈیم کو کسی بھی صورت تعمیر کروادیتے تو پاکستان آج ڈیفالٹ کے قریب نہ ہوتا۔ بجلی سستی ہوتی، برآمدات بڑھ جاتی، صنعتی انقلاب آسکتا تھا جبکہ سندھ میں آج بھی جو 3 کروڑ کے قریب انسان گھروں کی بجائے سڑکوں پر زندگی گزار رہے ہیں وہ بھی سیلاب سے متاثر نہ ہوتے، نہ زمین بنجر اور خراب ہوتی، سستی بجلی کی کمی ہوتی اور نہ ہی زمین کے نیچے پانی کی سطح بڑھتی۔

صدر مشرف کا بطور مطلق العنان حکمران ایک ’قومی جرم‘ یہ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستان میں نجی ٹی وی چینلوں کا اجرا کروایا۔ زبان کو بند کرنے کی روایت قائم کرنے والوں کو یہ پسند نہیں تھا کہ سیکڑوں چینل اپنی اپنی زبان، سوچ اور خیال کا اظہار اپنی مرضی کے ساتھ کرنا شروع کردیں۔ اس لیے جنرل مشرف کے اس قدم کو بھی غلط قرار دیا گیا۔ حد تو یہ تھی کہ اخبارات کے مالکان کو بھی ٹی وی نشریات کی اجازت دے کر اتنا منہ زور کردیا گیا کہ اب کوئی اس آواز کو کبھی دبا نہیں سکے گا۔ مجھے یاد ہے کہ ڈان کا معاملہ کھٹائی میں ڈالا گیا تھا مگر انہوں نے اس کو بھی ذاتی دلچسپی لےکر حل کروایا تھا۔ یعنی آمر کے سامنے زبان بندی نہیں بلکہ زبان درازی کی اجازت قانوناً دی گئی۔

میرے نزدیک پرویز مشرف اگر سیاسی مصلحت کی بنیاد پر این آر او نہ دیتے اور ان کے رفقائے کار جس انداز میں سیاسی رہنماؤں سے مذاکرات کررہے تھے وہ سیاسی لوگ ہی کرتے تو پاکستان کی سیاست میں مثبت تبدیلیاں وقوع پذیر ہوسکتی تھیں۔ بہرحال وہ ایک انسان تھے اور ان کو بھی سازش کا شکار بنایا گیا، کسی اور نے نہیں ان کے قریب ترین افراد نے کسی اور سے بدلہ لینے کے لیے پرویز مشرف کا کندھا استعمال کیا اور ان کو بھی اپنا شکار بنایا۔ اللہ مرحوم کی منزلیں آسان فرمائے، غلطی بھی انسان ہی کرتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر 7 فروری 2023ء کو شائع ہوئی جس میں برگیڈیئر نیاز کو سہواً کرنل نیازی لکھا گیا، قارئین تصحیح فرمالیں۔

تبصرے (0) بند ہیں