انڈونیشیا: فٹبال میچ کے دوران بھگدڑ، واقعے میں ملوث اہلکار کو 18 ماہ قید کی سزا

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2023
انڈونیشیا کے صدر نے تفتیش کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ اسٹیڈیم کو منہدم کرکے دوبارہ تعمیر کرنے کا اعادہ کیا تھا — فائل فوٹو: رائٹرز
انڈونیشیا کے صدر نے تفتیش کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ اسٹیڈیم کو منہدم کرکے دوبارہ تعمیر کرنے کا اعادہ کیا تھا — فائل فوٹو: رائٹرز

انڈونیشیا کی عدالت نے ملنگ شہر میں فٹبال میچ کے دوران بھگدڑ مچنے کے واقعے کے ذمہ داران میں سے ایک پولیس افسر کو لاپرواہی پر 18 ماہ کے لیے جیل بھیج دیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق گزشتہ برس مشرقی جاوا صوبے میں ملنگ شہر میں واقع کنجوروہان اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے فٹبال میچ میں ہارنے والی میزبان ٹیم کے حامیوں نے اپنی مایوسی کا اظہار کرنے کے لیے اسٹیڈیم میں دھاوا بول دیا تھا جس پر پولیس نے فائرنگ اور آنسو گیس کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں 40 بچوں سمیت 135 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

عدالت نے اس معاملے پر سماعت کرتے ہوئے ایسٹ جاوا پولیس کے موبائل برگیڈ یونٹ کے کمانڈر ہسدرماوان کو 18 ماہ قید کی سزا سنادی۔

دارالحکومت کے مشرقی جاوا کی مقامی عدالت کے جج نے ذمہ دار پولیس افسر کو سزا سناتے ہوئے کہا کہ ’عدالت ہسدرماوان کو ڈیڑھ سال (18 ماہ) قید کی سزا سناتی ہے‘۔

عدالت نے کہا کہ مدعا علیہ ایسی صورتحال کی پیش گوئی کرنے میں ناکام رہا جو کہ درحقیقت آسانی سے سمجھی جاسکتی تھی اور کھلاڑیوں کے حامیوں کی طرف سے ہونے والے پرتشدد عمل کو آنسو گیس سے جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

پراسیکیوٹر نے عدالت سے تین سال سزا کی استدعا کی ہوئی تھی لیکن عدالت نے 18 ماہ کی سزا سنائی۔

اس سے قبل سزا یافتہ پولیس افسر نے گراؤنڈ میں کھلاڑیوں کے حامیوں پر فائرنگ کرنے کے لیے اپنے ساتھی اہلکاروں کو حکم دینے کے حوالے سے انکار کیا تھا۔

تاہم آج عدالت نے ان کو سزا سنادی ہے جن کے بعد اب اپیل دائر کرنے کے لیے ایک ہفتہ ہے۔

اسی دوران متعلقہ پولیس کے ایک افسر بامبنگ صدیق اچمادی جن پر اپنے ماتحت اہلکاروں کو آنسو گیس فائر کرنے کا حکم دینے کا الزام تھا ان کو عدالت نے قصوروار نہیں پایا۔

مقامی عدالت کے جج نے کہا کہ دوسرے پولیس افسر پر الزام ثابت نہیں ہوا اس لیے وہ آزاد ہیں۔

علاوہ ازیں عدالت ملانگ پولیس افسران کی لاپرواہی پر بھی فیصلہ جاری کرے گی۔

گزشتہ ہفتے عدالت نے میچ آرگنائزنگ کمیٹی کے سربراہ عبد الحارث اور سیکیورٹی اہلکار سوکو ستریسنو کو بالترتیب 18 ماہ اور ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔

انڈونیشیا کی پریمیئر لیگ چلانے والی کمپنی کے سابق ڈائریکٹر کو بھی مشتبہ کے طور پر نامزد کیا گیا جن سے معاملہ کی تفتیش جاری ہے۔

گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے بدترین واقعے نے انڈونیشیا کے حکام کو مقامی کھیل کے مختلف پہلوؤں میں مشکلات سے دوچار کیا جو کہ برسوں سے متزلزل انفرااسٹرکچر، بدانتظامی اور تشدد کی وجہ سے ناکام ہے۔

انڈونیشیا کے صدر نے تفتیش کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ اسٹیڈیم کو منہدم کرکے دوبارہ تعمیر کرنے کا اعادہ کیا تھا۔

واقعے کی تحقیقات کرنے والی ایک ٹاسک فورس نے انڈونیشیا کی فٹ بال ایسوسی ایشن کے سربراہ اور اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے تمام اراکین سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا ہے تاہم انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں