آج برصغیر سمیت پوری دنیا میں اردو کے بے مثل ادیب اور شاعر سید ضمیر جعفری کا یومِ وفات ہے۔ طنز و مزاح میں اکبرؔ الہٰ آبادی کے بعد جن شعرا کو مقبولیت حاصل ہوئی اُن میں سید ضمیر جعفری کا نام نمایاں ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آپ کی تخلیق کچھ الگ اور منفرد ہے اور یہی وجہ ہے کہ طرزِ ادائیگی اور طرزِ احساس کے اعتبار سے بھی وہ دیگر شعرا سے ممتاز رہے۔

آپ نے ادب کی ہر صنف میں نام کمایا اور آپ مزاحیہ شاعری، نثر اور خاکہ نگاری کے ساتھ سنجیدہ غزل میں بھی الگ مقام رکھتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان تمام شعبوں میں آپ کا کام سطحی نوعیت کا نہیں ہے آپ نے جو کچھ لکھا وہ منفرد ہونے کے ساتھ ضمیر کی آواز بھی ہے۔

بیرون ملک ایک مشاعرے میں ضمیر جعفری کو میزبان نے بابائے ظرافت کہا تو آپ نے اس موقع پر ہنستے ہوئے فرمایا کہ ’عمر کا تعلق سن وسال سے نہیں، بڑھاپا تو ارادے سے آتا ہے اور میرا بوڑھا ہونے کا کوئی ارادہ نہیں‘ اور اس موقع پر یہ اشعار کہے:

جوانی سے عجب رشتہ رہا ہے
بڑھاپا آگے آگے جارہا ہے
ربط ہے تازہ، ہر ایک منظر کے ساتھ
میں بڑھاپے کو نہ آنے دوں گا کلینڈر کے ساتھ

ضمیر جعفری کہتے تھے ’ہم شاعر لوگ توپوں کے آدمی نہیں پھولوں کے آدمی ہیں، ہم قہقہوں کے سفیر ہیں‘۔

ایک مرتبہ یومِ اقبال کی تقریب میں آپ نے فرمایا ’حضرت اقبال کا شاہین کب کا اُڑ چکا ہے، اب اپنا کوئی مقامی جانور پیدا کرو‘۔ اور موقع کی مناسبت اور اقبال شناسی کے فقدان کے ضمن میں کہا جو خاصا مشہور ہے کہ:

بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اْس کے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں

ضمیر جعفری کا تعلق مزاح نگاری کی اُس نسل سے ہے جس میں مجید لاہوری، سید محمد جعفری، راجہ مہدی علی خان خان، شوکت تھانوی، نذیر احمد شیخ، مرزا محمود سرحدی، دلاور فگار بھی اہم تھے۔ بلاشبہ یہ شاعری اور بالخصوص مزاح کے عروج کا عہد تھا۔ ان شعرا کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ایک دوسرے کی تعریف میں بخل سے کام نہیں لیتے تھے اور انہیں زبردست خراجِ عقیدت پیش کرتے تھے۔

ضمیر جعفری کے بارے میں کہا یہ جاتا ہے کہ وہ کسی کی حوصلہ افزائی اور تعریف سے بالکل نہیں ہچکچاتے تھے۔ وہ دلاور فگار کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ یہ دور مزاح کے ساتھ رکھ رکھاؤ اور اپنے ہم عصروں کے احترام اور ان کے کام کو سہرانے کی ایک روشن روایت کا دور تھا۔ ضمیر جعفری نے ہمیں بتایا کہ مزاحیہ شاعری محض فقرے بازی، پھبتی، لطیفہ سازی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ کچھ الگ چیز ہے۔ انہوں نےمزاح کے تصور کو تبدیل کیا اور پھکڑپن اور لغویات کے بجائے طنز کی گہرائی لےکر آئے۔ آپ کا مزاح، برجستگی، سادگی، شائستگی اور شگفتگی کا مرقع ہے۔

شیخ نذیر نے سید ضمیر جعفری کا ’حدیث دوست‘ کے عنوان سے کیا خوب منظوم تعارف کیا ہے۔

خاندانی سیّدوں کی آل ہیں میجر ضمیر
آپ اپنے وقت کے ملا نصیر الدین ہیں
شعر خوانی میں ترنم کا عجب انداز ہے
آپ کے طرفہ سْخن پر ہر سخن کا خاتمہ
ان سے جو مخصوص ہے اس طرز فن کا خاتمہ
اور اپنی شاعری کا کوئی مطلب ہو نہ ہو
شاعران شوخ گو اب رہ گئے ہیں صرف دو
نیک ہیں، خوش بخت ہیں خوشحال ہیں میجر ضمیر
شعر شکر آفریں، چٹکلے نمکین ہیں
لے میں کافی نغمگی ہے گونجتی آواز ہے
آپ پڑھ لیں تو سمجھ لو انجمن کا خاتمہ
دل پسند اشعار کی ٹکسال ہیں میجر ضمیر
من ترا حاجی بگویم تو مرا ملاّ بگو

سید ضمیر جعفری کا اصل نام ضمیر حسین شاہ جبکہ ضمیر ان کا تخلص تھا۔ آپ یکم جنوری 1916ء کو ضلع جہلم کے چھوٹے سے گاؤں چک عبدالخالق میں سید حیدر شاہ کے گھر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے نانا سلطان العارفین حضرت پیر سید محمد شاہ پوٹھوہار اور آزاد کشمیر کے مقبول صوفی اور پنجابی کے یگانہ روزگار شاعر تھے، والدہ کا نام سیدہ سردار بیگم تھا اور اہلیہ کا نام جہاں آرا تھا۔ بھائیوں کے نام اکبر اور سید بشیر حسین شاہ تھے۔ یہ ذکر بھی کرتا چلوں کہ لڑکپن میں آپ کی ہونے والی پہلی شادی 2، 4 ماہ ہی چل پائی تھی۔ اس کے بعد گجرات میں اردو کے ممتاز شاعر، سید عابد علی عابد کے عزیزوں میں ان کی دوسری شادی ہوئی تھی لیکن یہ بھی زیادہ عرصے نہیں چل پائی۔ پھر 1945ء میں تیسری شادی ہوئی جس سے 2 بیٹے سید احتشام ضمیر جعفری (لیفٹیننٹ جنرل) اور سید امتنان ضمیر جعفری ہیں۔

امتنان ضمیر متعدد کتب کے مصنف اور سابق کرکٹر ہیں جبکہ وہ امریکا میں مقیم رہے اور دوسرے بیٹے سید احتشام ضمیر جنہوں نے پاک فوج میں متعدد اہم عہدوں پر فرائض انجام دیے، ان کا مئی 2005ء میں انتقال ہوگیا تھا۔ پاک فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد احتشام ضمیر نے روزنامہ جنگ میں ’متاع ضمیر‘ کے عنوان سے کالم بھی لکھے۔ ڈی ڈبلیو کے مطابق انہوں نے آئی ایس آئی میں رہتے ہوئے اپنے بعض کاموں پر شرمندگی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ ’وہ 2002ء کے انتخابات میں پرویز مشرف کے حکم پر بڑے پیمانے پر دھاندلی میں ملوث ہوئے۔ تاکہ حکمران سیاسی جماعت مسلم لیگ (ق) کی کامیابی کو ممکن بنایا جاسکے‘۔ لیکن پھر بعد میں اس خبرکی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ’کورسپانڈنٹ کے ساتھ ہونے والی میری ذاتی گفتگو کو جس سنسنی خیز طریقے سے شائع کیا گیا ہے وہ صحیح نہیں ہے اور سیاق و سباق سے باہر ہے‘۔

بی بی سی اردو سروس سے ایک انٹرویو میں احتشام ضمیر نے کہا تھا کہ ’فوج کا خفیہ ادارہ ’پولیٹیکل مینجمنٹ‘ کرتا ہے اور یہ کرنے کا اسے قانونی اختیار حاصل ہے‘۔

احتشام ضمیر نے اپنے والدین سے متعلق ایک بار لکھا تھا کہ ’ایک بار ہم ماں بیٹے ان کی روز مرہ کی نوک جھونک کو یاد کررہے تھے، والد صاحب کی ڈائریوں میں تانک جھانک کرتے ہوئے جون کے مہینے پر نظر پڑی اور وہیں پڑی رہ گئی۔ انہوں نے اپنی شادی کی سالگرہ کا ذکر کیا تھا جو وہ ہمیشہ جون میں باقاعدگی سے مناتے تھے۔ ڈائری میں خاص طور پر جب والد صاحب نے یہ شعر لکھا تھا کہ:

میری بیوی قبر میں لیٹی ہے جس ہنگام سے
وہ بھی ہے آرام سے اور ہم بھی ہیں آرام سے

اس پر ہماری والدہ 6 ماہ تک والد صاحب سے ناراض رہیں اور بول چال بند رہی۔ والدہ مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ یاد رکھو میاں بیوی میں فرق ہوتا ہے میاں بیوی کے بغیر بے شک رہ سکتا ہے لیکن بیوی، میاں کے بغیر کبھی نہیں رہ سکتی۔ میں نے والد کی ان کے لیے محبت کے بہت سے قصے سنائے تاکہ اس آنے والی سالگرہ پر ان سے گفتگو بند نہ کریں خاص طور سے والد کا قول کہ ’جو خاوند بیگم کا کہنا مانتا ہے، وہ نہ تو کوئی برا کام کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی بڑا کام کرسکتا ہے‘۔

علم وادب کے حوالے سے کافی شہرت رکھنے والے خاندان کے سپوت ضمیر جعفری نے گورنمنٹ کالج کیمبل پور جس کو اب گورنمنٹ کالج اٹک کہا جاتا ہے، سے میٹرک سپلی کے ساتھ کیا اور پھر انٹر کرنے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور چلے گئے۔ 1938ء میں بی اے کی سند حاصل کی۔ شاعری تو آپ اسکول کے زمانے سے ہی کررہے تھے، اوراسکول کی بزم ادب میں بھی فعال ومتحرک رہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کے ایک شعری مقابلے میں اپنی ایک نظم پر جسٹس سر شیخ عبدالقادر کے ہاتھوں پہلا ادبی اعزاز طلائی تمغہ حاصل کیا۔ وسیلہ معاش میں قیام پاکستان سے قبل دفتروں کی نوکری کرتے رہے۔ آپ ’احسان‘ لاہور اور مولانا چراغ حسن حسرت کے فکاہی ہفت روزہ ’شیرازہ‘ لاہور، روزنامہ ’بادشمال‘، راولپنڈی، سہ ماہی اردو پنچ راولپنڈی، سہ ماہی ’ادبیات‘، اسلام آباد ہفت روزہ ’سدا بہار‘ لاہور، کی مجلسِ ادارت سے بھی وابستہ رہے۔

آپ ہفت روزہ ہلال، ماہانہ اردو ڈائجسٹ، ہفت روزہ زندگی، روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ مشرق، روزنامہ خبریں، روزنامہ جسارت، روزنامہ پاکستان میں بھی لکھتے رہے۔

پروفیسر صفورا شاہد جن کا تعلق لاہور سے ہے، انہوں نے ’سید ضمیر جعفری کی سنجیدہ شاعری کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ‘ ایم فِل کے مقالے کی صورت میں لکھا۔ جو 300 سے زائد صفحات پر محیط کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکا ہے۔

سید ضمیر جعفری کی مطبوعہ تصنیفات کی تعداد تقریباً 60 ہے۔ ان کی ڈائریوں کا سلسلہ 6 کتابوں پر مُحیط ہے اور کالموں کے مجموعے اس کے علاوہ ہیں۔ آپ کی شاعری کے سرمایے میں مسدس بدحالی، قریۂ جاں، مافی الضمیر، ولایتی زعفران، ضمیریا، بھنور بادبان، کھلیان، کنرشیر خاں، میرے پیار کی سرزمین، ارمغان نعمت، ارمغان ضمیر، ضمیر ظرافت سرگوشیاں، نعت نذرانہ شامل ہیں۔ نثری کتب میں کتابی چہرے، اڑاتے خاکے، کالے گورے سپاہی، جنگ کے رنگ، ہندوستان میں دو سال، آنریری خسرو، ضمیر حاضر ضمیر غائب، شاہی حج، سفیر لکیر، کنگرو دیس میں، پہچان کا لمحہ، جدائی کا موسم اہم ہیں۔

ضمیر جعفری دوسری عالمی جنگ کے آس پاس برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے اور ان کی تعیناتی جنوب مشرقی کمان میں بہ حیثیت کپتان ہوئی۔ وہ شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ تھے جس میں کرنل فیض احمد فیض، میجر چراغ حسن حسرت، مجید ملک، کیپٹن ن م راشد، میجر آغا بابر، کرنل مسعود احمد اور کرنل حسن عسکری ابن سعید جیسے ممتاز اہلِ قلم شامل تھے۔

ان کے انتقال کے بعد 2002ء میں ایک خصوصی شمارہ ’بیاد ضمیر جعفری‘ کے عنوان سے ان کے احباب نے شائع کیا جس کے مطابق آپ نے 1949ء میں فوج سے استعفی دے دیا تھا جس کے بعد 1949ء میں کرنل مسعود احمد اور کیپٹن انعام قاضی کی شراکت میں راولپنڈی سے روزنامہ ’بادشمال‘ جاری کیا جو ایک برس سے زیادہ جاری نہ رہ سکا۔ 1951ء میں جہلم کے دیہاتی حلقے سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے پنجاب اسمبلی کا انتخاب لڑا لیکن ہار گئے۔

1952ء میں فوج میں دوبارہ واپسی ہوئی اور اس کے بعد میجر بھی بنے۔ آپ نے 1948ء میں جنگ کشمیر اور 1965ء کی جنگ ستمبر میں عسکری خدمت انجام دیں۔ 15 برس تک دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے شعبہ تعلقات عامہ، نیشنل سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر، وزارت بحالیاتِ افغان مہاجرین میں مشیر اور اکادمی ادبیات پاکستان سے وابستہ رہے۔ سید ضمیر جعفری کا شمار اسلام آباد کی پہلی اینٹ رکھنے والوں میں ہوتا ہے۔ آپ کے لکھے کئی نغمے آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ جن میں مسرت نذیر کا 1988ء میں گایا ہوا مشہور زمانہ نغمہ ’میرا لونگ گواچا‘ بھی شامل ہے۔

مندرجہ ذیل اشعار میں انہوں نے کیا کمال کیا ہے کہ آدمی دیر تک سوچتا اور جھومتا ہی رہ جائے۔

ہنس مگر ہنسنے سے پہلے سوچ لے
یہ نہ ہو پھر عمر بھر رونا پڑے
درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت
اے غم ہستی ہمیں دنیا پسند آئی بہت

یہ کس بازار میں بکنے کی خاطر آ گیا ہوں میں
جو ہر قیمت پہ گویا اپنی قیمت پا گیا ہوں میں

ضمیر جعفری نے زندگی اصولوں اور ضمیر کے ساتھ بسر کی۔ آپ نے کشمیر میں بھارتی حکومت کے مظالم اور قبضے کے باعث بطور احتجاج بھارت جاکر ادبی ایوارڈ مع خطیر رقم لینے سے منع کردیا تھا۔

ضمیر جعفری کا لکھا ملک کے چاروں صوبوں کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ ذیل میں دی گئی نظم بھی کراچی کے ٹرانسپورٹ کے نظام کا حال بیان کرتی ہے جو نصاب میں بھی شامل رہی ہے۔

کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
نہیں ہو رہا ہے مگر ہو رہا ہے
جو دامن تھا، دامن بدر ہو رہا ہے
کمر بند گردن کے سر ہو رہا ہے
سفینہ جو زیر و زبر ہو رہا ہے
اِدھر کا مسافر اُدھر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

ضمیر جعفری انور مسعود کا بہت احترام کرتے تھے اور کہتے تھے، مزاحیہ شاعری کے چراغ کو روشن کرنے میں انور مسعود بہت اہم ہیں اور ایک صدی ہمارے ساتھ کے شعرا کی رہی اور اب ایک صدی انور مسعود کی ہے۔

میں نے ضمیر جعفری کے حوالے سے خوش کُن اور مزاح سے لبریز، مختلف زبانوں پر مہارت رکھنے والے، بنَین لَین جاندے ہو بنَین لے کے آندے ہو، کے خالق انور مسعود سے رابطہ کیا تو آپ نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کہ ’آرمی نے بہت بڑے بڑے مزاح نگار پیدا کیے، نثر میں شفیق الرحمٰن، کرنل محمد خان ہیں، لیکن مزاحیہ شاعری میں سب سے بڑا نام ضمیر جعفری صاحب کا نام ہے۔ اُن کے یہاں عجیب طرح کا جو پنجاب کا میوزک ہے وہ سنائی دیتا ہے۔ ان کے مضامین بھی بہت کمال کے اور اچھے تھے‘۔

ان کا دروازہ تھا مجھ سے بھی سوا مشتاق دید
میں نے باہر کھولنا چاہا تو وہ اندر کھلا

پھر دیکھیے،

پن کھلا ٹائی کھلی بکلس کھلا کالر کھلا
کھلتے کھلتے ڈیڑھ گھنٹے میں کہیں افسر کھلا
آٹھ دس کی آنکھ پھوٹی آٹھ دس کا سر کھلا
لو خطیب شہر کی تقریر کا جوہر کھلا

’اُن کے ساتھ ملک اور بیرون ملک سفر کیا۔ ان سے بہت کچھ سیکھا اور بنیادی بات یہ ہے کہ انہیں انسان کی عزت اور عظمت بہت ملحوظ رہتی تھی‘۔

آخر میں انور مسعود صاحب نے موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اور کہا ’آپ کا عامر ’ع‘ سے یا ’آ‘ سے؟ میں نے ہنستے ہوئے کہا ’ع‘ سے۔ انہوں نے کہا ’پھر ٹھیک ہے‘۔ میں نے دہرایا ’ٹھیک ہے ناں؟‘ تو آپ نے برجستہ ہنستے ہوئے کہا ’ویری ٹھیک‘۔

عطاالحق قاسمی نے’آئی لو یو سید ضمیر جعفری’ کے عنوان میں ایک واقعہ راولا کوٹ میں ایک تقریب کے پس منظر میں لکھا تھا کہ ’کشمیر اور پاکستان سے عشق کرنے والے اس شاعر کی عمر بڑے بڑے پہاڑ سر کرتے اور مشکلات کی سختی چٹکلوں سے دور کرتے گزری۔ میں نے شاعروں میں اگر کوئی سچا صوفی دیکھا ہے تو وہ سید ضمیر جعفری ہی تھے‘۔

محقق، ماہرِ لسانیات، نقاد، معلم اور مدیر ڈاکٹر فرمان فتح پوری جو جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سربراہ اور اردو لغت بورڈ کے مدیر اعلیٰ بھی رہے، انہوں نے ضمیر جعفری کی شاعری کے حوالے سے لکھا تھا کہ ’ضمیر جعفری اپنی شاعری میں لفاظی یا لفظوں کی بازی گری سے ظرافت کو جنم نہیں دیتے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی واقعے یا صورتحال کے کمزور پہلو کا ندرتِ خیال کی مدد سے ایسا خاکہ کھینچا جائے کہ وہ قاری یا سامع کے حق میں خوشگوار بن جائے۔ انہیں اپنی اس کوشش میں اکثر دفعہ کامیابی ہوئی ہے البتہ کہیں کہیں انہوں نے الفاظ کی مدد سے بھی مزاح کا پہلو پیدا کیا ہے مثلاً ان اشعار میں:

گرد نے ملتان تک اس طرح گردانا مجھے
میری بیوی نے بڑی مشکل سے پہچانا مجھے

اور

ایسی قسمت کہاں ضمیر اپنی
آکے پیچھے سے ’تا‘ کرے کوئی

ان شعروں میں گرد اور گردانا کی صوتی ہم آہنگی اور ’تا‘ کے لفظ کے اندر چھپی ہوئی معصومیت و شرارت مضحک بن گئی ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے بحیثیت مجموعی ضمیر جعفری کی شاعری الفاظ کی شعبدہ گری سے نہیں، خیالات کی جادوگری سے لطف و انبساط کا سامان فراہم کرتی ہے۔ مثلاً پہلی غزل کے اگلے دو اشعار پر نظر ڈالیے،

فلسفے کا ادراک بخشا ہے تو اے مولائے کُل
اپنے گھر والوں پہ کچھ آسان فرمانا مجھے
مد و جزر زندگانی کی بدولت آ گیا
ہر قدم پر دو قدم پیچھے سرک جانا مجھے

یا مزاحیہ غزلوں کے اشعار:

وہ سب کو تھوڑا تھوڑا شربتِ دیدار دیتے ہیں
مگر مصروف ہیں، اتوار کے اتوار دیتے ہیں

اور

شوق سے لختِ جگر نورِ نظر پیدا کرو
ظالمو! تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو

ضمیر جعفری کے یہاں خیال افروز ظرافت اور ظرافت آمیز خیال کی کامیاب صورتیں ان کی مختصر مزاحیہ غزلوں یا فردیات سے زیادہ، ان کی نظموں میں نظر آتی ہیں۔ اس نوع کی نظموں میں پرانی موٹر، عورتوں کی اسمبلی، سفر ہو رہا ہے، شوق کی بند، کل شب تنہائی میں، عید کا میلہ اور ایرانی بہو کا خیر مقدم خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔

سید ضمیر جعفری کے طنز کو ملاحظہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ طنز میں بھی شگفتگی کا عنصر غالب ہے۔

نظر کی عیب جوئی دل کی ویرانی نہیں جاتی
یہ دو صدیوں کی عادت ہے بہ آسانی نہیں جاتی
جہاں تک کثرت اولاد نے پہنچا دیا اس کو
وہاں تک بندہ پرور نسل انسانی نہیں جاتی

سید ضمیر جعفری ڈائری لکھنے کا کام بھی مستقل مزاجی کے ساتھ کیا کرتے تھے اور اس میں بھی اُن کی شگفتہ نگاری کے کیا کہنے تھے۔ ڈائری کے پس منظر کے ضمن آپ لکھتے ہیں کہ ’میں 1943ء سے تقریبا روزانہ ڈائری لکھ رہا ہوں، مجھے معلوم نہیں میرے دماغ میں یہ کیڑا کیوں پیدا ہوا اور میں حیران ہوں کہ مجھ جیسا ’چست‘ 50، 55 برس سے اس کی پرورش کرتا رہا‘۔ آپ کی ڈائری کے کچھ نمونے پیش خدمت ہیں جو خود ایک تاریخ ہیں. ملاحظہ کریں۔

نئے سال کے پس منظر میں آپ نے لکھا کہ ’ایک برس اوجھل تو ہوا۔ مگر ایک افق طلوع بھی ہوا۔ زندگی بہرحال ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ سال نو کو دنیا بھر کے انسانوں کے لیے خیرو برکت کا موجب بنائے۔ خدا کرے کہ خود ہمارے ملک کے دلدر بھی دور ہوسکیں چلو کچھ کم ہی ہوجائیں۔ کل صدر مملکت کا انتخاب ہورہا ہے۔ ہمیں تو اس میں بھی روشنی کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ جنرل ایوب خان نے اس جنگ کے لیے ’بنیادی جمہوریت‘ کے محدود اور مضبوط ’مورچے‘ بنالیے ہیں۔

’محترمہ فاطمہ جناح کی جمہوریت کی ’لالٹین‘ آمریت کی زبردست آندھیوں کے سامنے ہے۔ تحریک پاکستان کے ہر اول دستوں کے قائدین میں سے صرف خواجہ ناظم الدین اپنے چند رفقا سمیت قائداعظم کی بہن کے ساتھ رہ گئے ہیں۔ ان میں سے بھی خواجہ صاحب کو موت نے مہلت نہ دی۔ غنیمت ہے کہ پنجاب میں ممتاز محمد خان دولتانہ نے رسمِ وفا نبھائی تو ورنہ بازی یہاں بھی الٹ چکی ہے۔ افسوس اپنی جگہ مگر حیرت بھی نہیں ہونی چاہیے۔ لوگ ہمیشہ دولت اور طاقت کی طرف جاتے ہیں۔ چڑھتے سورج کی پرستش ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے اور جنرل ایوب خان کا سورج تو بہت چڑھا ہوا ہے۔ ملک میں کشیدگی کا یہ حال ہے کہ جیسے بارود کے کسی ڈھیر میں آگ لگ رہی ہو‘۔

اسی طرح وہ لکھتے ہیں کہ ’کراچی بظاہر نارمل ہوگیا مگر بھیتر بھیتر آگ ابھی سلگ رہی ہے۔ گورنر نے ایک تحقیقاتی کمیشن بٹھا رکھا ہے جو اب اٹھتے اٹھتے ہی اُٹھے گا۔ کمیشن جو چاہے کہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ملک درمند ہے۔ روزنامہ ڈان کے ایک اداریے کے مطابق تو کراچی کے بعض علاقوں میں خون خرابے کی وہی قیامت نظر آئی جو 1947ء کے فسادات میں مشرقی پنجاب میں برپا ہوئی تھی۔ اللہ اکبر! مسلمان ہی مسلمان کو قتل کرنے لگے۔ بھائی کے ہاتھوں بھائی کا خون بہنے لگا۔ یہ تصور کس قدر دل خراش ہے۔ ہمارے سر بار ندامت سے کیونکر اٹھ سکتے ہیں‘۔

کٹھن ہونے کو ہے جو شوق کا ہر مرحلہ صاحب
ذرا سوچیں کہ لاحق کیا ہے ہم کو عارضہ صاحب

اسی طرح اپنی غزلوں کا ایک مجموعہ مرتب کرنے کے پس منظر میں لکھا کہ ’انتخاب میں اشعار کو گاجر مولی کی طرح کاٹتا چلا گیا۔ ابھی یہ انتخاب کرنل محمد خان کے ہاتھوں سے بھی گزرے گا۔ جو ’تیغ و کفن‘ کے ساتھ لیس بیٹھے ہیں۔ ’تیغ‘ اپنی کرنیلی کے لیے اور کفن ’میری‘، ’میجری‘ کے لیے۔ شعور و نظر کا سفر بھی عجیب ہے۔ وہی اشعار جن پر مشاعروں میں چھتیں اڑتی تھیں، اب اپنی نظر میں جچ نہیں رہے۔ یوں مسعود (ضمیر جعفری کے دوست کرنل مسعود احمد) کا کہنا ہے کہ جن اشعار کو تم حذف کررہے ہو، یہ دراصل تمہارے ان ہم عمر قارئین کے لیے تھے جن کو تم اب بہت پیچھے چھوڑ آئے۔ مگر وہ تمہارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ زندگی اور عورت کی طرح مجھے مسعود کی بھی پوری بات کبھی سمجھ میں نہیں آئی۔ اگرچہ میں اس کی دانائی کا بھی بہت قائل ہوں۔’جشن فطرت‘ کے لیے جنرل امراؤ خان نے اپنے پیغام کے ساتھ 100 روپے کا عطیہ بھیجا ہے۔ پیغام اتنا عمدہ ہے کہ ہر ایک لفظ 100، 100 روپے کا‘۔

انگریزی زبان کے مشہور شاعر اور نقاد ٹی ایس ایلیٹ کی موت پر لکھا کہ ’ایلیٹ مرگیا۔ عظیم شاعر، عظیم نقاد۔ ایک عہد اس کے ساتھ ختم ہوگیا مگر ایک نیا عہد وہ دے بھی گیا‘۔

سید ضمیر جعفری ڈائری لکھنے کا کام بھی مستقل مزاجی کے ساتھ کیا کرتے تھے
سید ضمیر جعفری ڈائری لکھنے کا کام بھی مستقل مزاجی کے ساتھ کیا کرتے تھے

پاکستان میں ٹیلی وژن کی آمد کے موقع پر لکھا کہ ’ملک میں ٹیلی وژن قائم ہوگیا۔ یہ سرکاری ادارہ ہے۔ ’میڈیا‘ کو تو ہماری سرکار مٹھی ہی میں رکھے گی۔ اسلم اظہر ڈائریکٹر مقرر ہوئے ہیں۔ ان کے بلاوے پر آج دن کو لاہور پہنچا۔ گلبرگ میں اے ڈی اظہر صاحب ہی کے ’برگساں‘ میں ٹھہرا اور شام کو ٹیلی وژن کے مشاعرے میں شرکت کی۔ اے ڈی اظہار صدر مشاعرہ تھے۔ شعرا میں احسان دانش، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی، قتیل شفائی، منیر نیازی اور کلیم عثمانی شامل تھے۔ شعرا کو ’واسکٹیں‘ اسلم اظہر نے اپنے ’ملبوس خانے‘ میں سے دیں۔ ’ٹیلی وژن‘ پر میرا یہ پہلا مشاعرہ ہے۔ دل اس خوشی سے ’گھٹک‘ رہا ہے‘۔

1965ء کے سال کے آخری دن پر ڈائری کے آخری صفحے پر لکھا کہ ’کل نئے سال کا سورج طلوع ہوگا۔ آج شام 1965ء کا سورج ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ جانے والا سال ہمارے ملک کے لیے ایک مہیب آزمائش کا سال تھا۔ ہمیں اس برس میں اپنی تاریخ کی پہلی اتنی بھرپور اور شدید جنگ لڑنا پڑی جس میں آزادی تک داؤ پر لگ گئی۔ یہ جنگ اگرچہ 17 تک دن جاری رہی مگر اس بےحد خونریز جنگ کے اثرات 17 برس تک دونوں ملکوں پر سایہ کناں رہیں گے۔ ابھی ہم اس سانحے کے اس قدر قریب ہیں کہ دونوں ملک اپنے ’گھاؤ‘ کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ مگر پاکستان کو اس قیمت پر اپنا تشخص مل گیا‘۔

آپ کے اعزازات میں ہمایوں گولڈ میڈل بدست شیخ سر عبدالقادر 1936ء، تمغہ قائداعظم 1967ء اور صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی 1985ء شامل ہیں ۔

ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب ریٹائرڈ سید حسن رضا جعفری کے مطابق آخری دنوں میں آپ جب پاکستان آئے تو امریکا جانے سے قبل آپ کے اعزاز میں اسلام آباد میں ان سے محبت کرنے والے اور عقیدت رکھنے والوں نے ایک الوداعی محفل کا اہتمام کیا جس میں جعفری صاحب نے الوداعی نظم پڑھی اور اتنے درد کے ساتھ پڑھی کہ خود کے آنسو بھی روا رہے اور محبت کرنے والے کو بھی مغموم کردیا۔ اس موقع پر وطن سے محبت کا اظہار کرتے کہا کہ:

چُپکے چُپکے اس نگر میں گھومنے آؤں گا میں
گُل تو گُل ہیں، پتھروں کو چومنے آؤں گا میں

1999ء کے آغاز سے ہی ضمیر جعفری بیمار رہنے لگے تھے جس کے بعد 12 مئی 1999ء کو نیویارک میں وفات پاگئے اور کھنیارہ شریف، بچہ مندرہ راولپنڈی کے قریب سید محمد شاہ بخاری کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں