ٹی وی اینکر اور صحافی ماریہ میمن بھی بہت سی دیگر ٹی وی شخصیات کی طرح اپنے ٹی وی چینل کے علاوہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی سرگرم نظر آتی ہیں۔ تاہم دیگر صحافیوں کے برعکس جو محض سیاست پر وی لاگز بناتے ہیں، ماریہ میمن اپنے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم کو ایک الگ سمت میں لے جارہی ہیں۔

ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں ہمیں مختلف موضوعات نظر آتے ہیں جیسے ایک خصوصی بچے کی والدہ کے ساتھ انٹرویو، ایک عورت جس نے بچے پیدا نہ کرنے کا انتخاب کیا، کوئی ایسا شخص جس نے چھوٹی عمر میں اپنے والد کو کھودیا اور وہ مشکلات کا مقابلہ کرنے، اور بڑے ہونے کی بات کرتا ہے۔ اس کے علاوہ خدیجہ صدیقی جیسی نامور شخصیت بھی ماریہ میمن کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا حصہ ہیں جو قانونی مشورے فراہم کرتی ہیں۔ اسی طرح اس پلیٹ فارم پر تعلیمی نظام کے بارے میں بات کرنے کے لیے بھی ایک ماہر ہیں۔

لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ماریہ میمن اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر مختصر ریلز سے نمایاں ہو رہی ہیں۔ زیادہ تر مشہور صحافیوں کے برعکس، جن کے اکاؤنٹس ان کے ٹیلی ویژن کے کام کی تصاویر یا کلپس کے لیے استعمال ہوتے ہیں، ماریہ میمن اپنے سوشل میڈیا کو اپنی زندگی کے بارے میں بات کرنے اور نوجوان خواتین کی رہنمائی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

ماریہ میمن انسٹاگرام پر ریلز بنا کر نمایاں ہورہی ہیں
ماریہ میمن انسٹاگرام پر ریلز بنا کر نمایاں ہورہی ہیں

’آج کے رنگ‘ کے عنوان سے وہ روزانہ اپنے ملبوسات کی ریل بنا کر اپلوڈ کرتی ہیں۔ انہوں نے ایک ویڈیو میں وضاحت کی کہ ماضی میں انہوں نے شوخ رنگوں سے پرہیز کیا اور ہلکے رنگوں کا انتخاب کیا لیکن اب وہ اس کے برعکس رویہ اختیار کرنے کے لیے نوجوان خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہیں۔ ان کی ریلز پر آنے والے ردعمل سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کے مواد کو کافی سراہا جارہا ہے۔ وہ سیاسی تبصرے اور مشورے بھی دیتی ہیں جیسے اس وقت ملک کو چلانے والے لوگ کس طرح نوجوانوں کو مایوس کررہے ہیں اور پھر وہ نوجوانوں سے ملنے والے کچھ ردعمل کو اپنی ویڈیوز میں نمایاں کرتی ہیں۔

خواتین کے عالمی دن پر انہوں نے مختصر ویڈیوز اپ لوڈ کیں جن میں سیاست دان، اداکار اور دیگر شخصیات سے یہ پوچھا گیا کہ فرض کریں کہ انہیں ماضی میں جاکر کہ جب وہ 20 سال کی ہوں، خود کو کوئی مشورہ دینا ہو تو وہ کیا مشورہ دیں گی۔ یہ غیر رسمی ریلز، جو ان کی ذاتی زندگی کی تفصیلات کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں (جیسے ان کے خاوند یہ بتا رہے ہیں کہ انہوں نے ایئر فرایئر میں آملیٹ کیسے بنایا)، اس بات کی بہترین مثالیں ہیں کہ کس طرح ذاتی اور سیاسی موضوعات سے اچھا مواد تخیلق کیا جاسکتا ہے۔

یوں نیوز ویب سائٹس پر متنوع مواد کی کمی کے بارے میں بھی حیرت ہوتی ہے جو روایتی چیزوں سے نکلنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔

بدلتی دنیا کا اثر میڈیا پر بھی پڑا ہے اور میڈیا ایک ڈیجیٹل مستقبل کے حوالے سے یا تو محتاط ہے یا پھر اس کے خلاف۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تبدیلی نہیں آئی۔ تبدیلی آئی ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اس حوالے سے شعور کا فقدان ہے۔ لوگوں کو شعور بھی ہے۔ لیکن اس تمام عمل کی رفتار انتہائی سُست ہے۔

زیادہ تر روایتی میڈیا اداروں جیسے جنگ، ڈان اور بزنس ریکارڈر، کی ویب سائٹس ڈیجیٹل ٹیموں کے ذریعے چلائی جاتی ہیں، زیادہ تر نیوز چینلز بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ویب سائٹس کے ساتھ اب برانڈڈ یوٹیوب چینلز بھی شامل ہوچکے ہیں اور اس کے بعد مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹوئٹر، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر اکاؤنٹس بھی بن چکے ہیں۔

ڈیجیٹل میڈیا کا مستقبل روشن نظر آرہا ہے
ڈیجیٹل میڈیا کا مستقبل روشن نظر آرہا ہے

سوال یہ ہے کہ ان پلیٹ فارمز کو استعمال کیسے کیا جاتا ہے؟ عام تصور یہی ہے کہ انہیں صرف مین اسٹریم یا فلیگ شپ پروجیکٹ (اخبار یا ٹی وی) کے تیار کردہ مواد کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ معروف میڈیا گروپس کی نیوز ویب سائٹس کو دیکھ کر یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے۔ ان کے ڈیجیٹل مواد کا بڑا حصہ فلیگ شپ چینل یا اخبار کے مواد سے ملتا جلتا دکھائی دیتا ہے جو یا تو تحریر یا ویڈیو مواد کی شکل میں آتا ہے۔ درحقیقت یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اخبارات کی طرح ویب سائٹس پر الفاظ کا استعمال بہت ہوتا ہے۔

سینیئر صحافی ماہِم مہر (جو اس وقت آج ڈاٹ ٹی وی کی ایڈیٹر کے طور پر کام کررہی ہیں) ماضی میں پرنٹ میڈیا میں سینیئر ایڈیٹوریل عہدوں پر کام کرچکی ہیں اور ڈیجیٹل نیوز رومز بھی چلا چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’زیادہ تر ادارے بغیر کسی حکمت عملی کے اپنے مواد کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ٹھونس دیتے ہیں‘۔

وہ کہتی ہیں کہ پہلے ویب سائٹس پر اخبارات کا مواد ڈالا جاتا تھا اور اب اس کی جگہ ٹی وی کے مواد نے لے لی ہے۔ اگرچہ یہ رجحان اب تبدیل ہورہا ہے اور زیادہ تر نیوز ادارے اب اپنی ویب سائٹس کے لیے خصوصی مواد تیار کر رہے ہیں لیکن اس میں اب بھی بڑے وژن یا حکمت عملی کا فقدان ہے۔

جیو ڈیجیٹل کی ثنا جمیل نے بھی ان کے خیالات سے اتفاق کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ڈیجیٹل کیا ہے، یہ سمجھنا روزانہ کی جدوجہد ہے۔ ماہم مہر اور ثنا جمیل دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ نیوز رومز اور میڈیا مالکان کے درمیان اس بارے میں بات چیت ہورہی ہے کہ کیا مواد پیش کیا جائے، مختلف پلیٹ فارمز کو کیسے استعمال کیا جائے اور ان سے پیسے کیسے کمائے جائیں۔

لہذا، ایسا لگتا ہے کہ یہ احساس موجود ہے کہ جہاں مختلف پلیٹ فارمز کو پرانے مواد کی تشہیر کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے (جسے ماہم نے ’ٹھونسنا‘ کہا)، وہاں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ان تمام پلیٹ فارمز کے لیے خصوصی مواد تخلیق کیا جائے۔

پہلے سے موجود اور روایتی مواد کی اشاعت کے حوالے سے ماہِم مہر نے کچھ خبر رساں اداروں کے طریقہ کار کا ذکر کیا۔ یہ طریقہ خصوصی مواد کے لیے متعدد یوٹیوب چینلز بنانا تھا، مثال کے طور پر کھیلوں سے متعلق مواد کو دیگر خبروں سے الگ کرکے مخصوص یوٹیوب چینل پر اپلوڈ کرنا۔ یوں ناظرین کو بہتر طریقے سے مواد فراہم کیا جاسکتا ہے کیونکہ بعض اوقات ایک ہی چینل پر تمام طرح کا مواد ڈال دینے کی وجہ سے مطلوبہ مواد ہوم پیج پر بہت نیچے چلا جاتا ہے اور اس تک رسائی مشکل ہوجاتی ہے۔ ان پلیٹ فارمز کے لیے خصوصی مواد بنانا زیادہ چیلنجنگ دکھائی دیتا ہے اور صحافی اور میڈیا مالکان اس بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں کہ کس پلیٹ فارم پر کیا پیش کرنا ہے اور کیسے پیش کرنا ہے پھر چاہے وہ ویب سائٹ ہو، یوٹیوب، ٹوئٹر، ٹک ٹاک یا اب واٹس ایپ کا مواد ہو۔

ڈیجیٹل میڈیا کیا ہے، یہ سمجھنا روز کی جدوجہد ہے
ڈیجیٹل میڈیا کیا ہے، یہ سمجھنا روز کی جدوجہد ہے

یہ معاملہ صرف مواد کی تخلیق کا نہیں ہے۔ ڈان ڈاٹ کام کے سربراہ جہانزیب حق کا خیال ہے کہ 5 سالوں میں ٹی وی اور پرنٹ کے بجائے ڈیجیٹل ہی مقبول پلیٹ فارم ہوگا۔ ان کے مطابق وسائل ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ نئے تجربات اور اختراعات کے لیے وسائل موجود نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ایک بار جب وسائل ڈیجیٹل کی طرف منتقل ہوجائیں گے تب جدت بھی آئے گی اور کام کرنے کا انداز بھی بہتر ہوگا۔ جہانزیب حق نے واشنگٹن پوسٹ کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ کا حوالہ دیا جس میں دنیا بھر کے واقعات پر تبصرہ کرنے کے لیے اداکاروں اور اسمارٹ اسکرپٹس کا استعمال کیا جاتا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کی مثال اس تناظر میں اچھی ہے کیونکہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا نے خبروں اور ان کو پیش کرنے کے انداز کو کس قدر تبدیل کردیا ہے۔ اس حوالے سے روایتی تصورات اب بالکل تبدیل ہوچکے ہیں۔ ایک صحافی جس کی ٹوئٹر فالوونگ زیادہ ہوتی ہے وہ اپنے آپ میں ایک برانڈ ہوتا ہے اور وہ انفرادی طور پر اس اجارہ داری کو ختم کرسکتا ہے جو برسوں سے چینلز یا اخبارات بریکنگ نیوز پر کرتے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ واقعات پر تجزیہ بھی فراہم کر سکتا ہے یا پھر ماریہ میمن کی طرح ایک مختلف سمت بھی اختیار کرسکتا ہیں۔

یوٹیوب کو ایسے ہی انفرادی صحافی استعمال کرتے ہیں جو خود برانڈ بن رہے ہیں۔ ماہِم مہر کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک اور انسٹاگرام اور پھر واٹس ایپ صحافیوں کے لیے اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں نئی سطحیں یا نئی الجھنیں پیدا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکنان اور حامی بڑے پیمانے پر ٹک ٹاک اور واٹس ایپ کا استعمال کرتے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز کے استعمال اور مواد میں تنوع نے نیوز گروپس کے لیے چیلنجز کو مزید بڑھا دیا ہے۔

تاہم، مواد کے علاوہ مالیاتی حوالوں سے بھی کئی چیلنجز ہیں۔ ہر کوئی اس بات سے متفق ہے کہ اب پاکستان میں خبر رساں اداروں کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز زیادہ منافع بخش ہیں۔ وہ اپنے مواد کو مختلف پلیٹ فارمز پر ڈال کر کما رہے ہیں اور ابھی تو یہ محض آغاز ہے۔ میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے بانی اور ڈائریکٹر اسد بیگ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے اشتہارات ڈیجیٹل کی طرف آرہے ہیں تو صحافتی اداروں کی انتظامیہ اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو پھیلانے کی ضرورت محسوس کررہی ہیں۔

پاکستان میں خبر رساں اداروں کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم منافع بخش ہیں
پاکستان میں خبر رساں اداروں کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم منافع بخش ہیں

اسد بیگ میڈیا مالکان کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور انہوں نے میڈیا کے مالیاتی پہلوؤں پر ایک رپورٹ بھی تیار کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ڈیجیٹل مواد کی تخلیق کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اپنی حالیہ رپورٹ میں وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کے ڈیجیٹل اشتہارات کے 80 فیصد سے زائد اخراجات سوشل میڈیا کے بڑے اداروں کو جارہے ہیں اور یہی عنصر میڈیا مالکان کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور مواد کی تخلیق کے بارے میں سوچ بچار کرنے پر مجبور کررہا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ میڈیا مالکان جدت اور مواد کی تخلیق میں سرمایہ کاری کرنے کا سوچ تو رہے ہیں لیکن وہ موجودہ عدم استحکام کی وجہ سے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

جہاں تک ڈیجیٹل دنیا کا تعلق ہے تو پاکستان میں اس حوالے سے پالیسی سازی وقتی اور غیر معقول ہے۔ میڈیا مالکان کو اس میں اچانک تبدیلی کا خدشہ ہے، جیسے پلیٹ فارمز پر پابندی یا نئے ضوابط کا لاگو ہونا۔ پالیسی سازی کے خوف کی وجہ سے وہ مستقبل کے لیے ان منصوبوں میں حصہ لینے سے ہچکچا رہے ہیں۔

اگر پاکستان میں میڈیا انڈسٹری کو جمود اور غیر متعلق بننے سے بچانا ہے اور اسے ترقی دینی ہے تو ریاست کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ میڈیا مالکان کے ساتھ ساتھ ریاست کو بھی ڈیجیٹل میڈیا کی اس لہر کے فوائد سمیٹنے ہوں گے۔


یہ مضمون 26 مئی 2023ء کو ڈان اروا میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں