لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) سے راہیں جدا کرنے والے تمام لوگ ایک ہی اسکرپٹ پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک پارٹی چھوڑنے والوں میں سے اکثر لوگ پارٹی اور حکومت میں سینیئر عہدوں پر بھی فائز تھے۔ لیکن صرف چند دنوں کی قید نے ہی ان کے عزم کو متزلزل کردیا۔

اس طرح ایک سلسلہ شروع ہوگیا اور پی ٹی آئی کی دوسری اور تیسری سطح کی قیادت پارٹی کو الوداع کہنے لگی۔ کچھ لوگوں نے تو سیکیورٹی ایجنسیوں اور مقدمات کے دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیے تو کچھ نے اس عتاب کے نازل ہونے سے پہلے خود ہی پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔

ہم اس وقت اسی طاقت کی جانب سے ایک سیاسی جماعت کو ٹوٹتا دیکھ رہے ہیں جس طاقت نے کبھی اس جماعت کو سہارا دیا تھا۔ ان دونوں کے درمیان کشیدگی تو کچھ وقت سے جاری تھی لیکن 9 مئی کو پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے ایک اہم عمارت پر حملے کے بعد یہ کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ اس کے بعد تو ریاست نے جس شدت کے ساتھ جواب دیا ویسی شدت ماضی قریب میں کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ نتیجے کے طور پر جماعت کو اس کے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔

طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مقابلے کی کیا قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے اس کا عمران خان نے انتہائی غلط اندازہ لگایا تھا۔ شاید ابھی ان کا کھیل تو ختم نہ ہو لیکن سابق وزیر اعظم کے لیے کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ دوبارہ حاصل کرنا بہت مشکل ہوگا۔

پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ دراصل سیاسی انجینیئرنگ کا ایک نیا دور ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جو طاقتور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ باقاعدگی سے کھیلتی آرہی ہے۔

لیکن جس طرح ملک کی مضبوط ترین سیاسی قوت سمجھے جانی والی جماعت بکھری ہے وہ انداز حیران کن ہے۔ جماعت چھوڑ کے جانے والوں کے انداز سے تمام شکوک دور ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام لوگ ایک ہی بات کرتے ہیں، وہ 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ وفاداری کا اعلان کرتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان لوگوں کا ضمیر اس واقعے کے کچھ دن بعد جاگا۔ ان لوگوں میں ’حب الوطنی‘ کے جذبات جگانے کے لیے کچھ روز کی گرفتاری یا پھر ’نادیدہ قوتوں‘ کی جانب رات گئے ملاقاتوں کی ضرورت پیش آئی۔

یہ لوگ اپنے لیے اب نئے مواقع تلاش کررہے ہیں لیکن یہ ان ہزاروں نوجوان مرد و خواتین کو بھول چکے ہیں جو انقلاب کے جذباتی نعروں کی رو میں بہہ گئے۔

ان میں سے کئی جیلوں میں بند ہیں اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ بلاشبہ پارٹی کی قیادت میں اب بھی کچھ لوگ ہیں جو ڈٹے ہوئے ہیں۔ لیکن شاید اب فیصلہ ہوچکا ہے اور جس کام کا آغاز ہوا ہے اسے انجام تک پہنچایا جائے گا۔

اس وقت ہم جو کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں وہ دراصل سیاسی انجینیئرنگ کے پرانے کھیل کا نشر مکرر ہے۔ اس کھیل کا ہدایت کار تو ایک ہی ہے بس اداکار تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس کھیل کے پچھلے ایکٹ کا مرکزی کردار نئے ایکٹ کا ولن ہے اور ماضی کے ولن اب مرکزی کردار بن چکے ہیں۔

تقریباً ہر سیاسی جماعت کسی نہ کسی دور میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کھیلے جانے والے اس گھناؤنے کھیل کا شکار ہوئی ہے۔ سیاسی انجینیئرنگ دراصل طاقت پر اپنا کنٹرول رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔

یہ ملک براہ راست فوجی اقتدار کے کئی ادوار سے گزرچکا ہے، درمیان میں ایسی جمہوری حکومتیں بھی آئیں جو بڑے بھیّا کے ماتحت کام کرتی تھیں۔ ملک میں ہونے والے سول ملٹری تصادم کا نتیجے اکثر حکومت کی تبدیلی کی صورت میں نکلا۔ میوزیکل چیئر کا یہ کھیل جاری رہا جس کے نتیجے میں جمہوری ادارے مضبوط نہ ہوسکے۔

یہ ہماری 75 سالہ سیاسی تاریخ کی کہانی ہے۔ یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ ملک میں طاقت کا بنیادی ڈھانچہ کبھی تبدیل نہیں ہوا۔ سیاسی انجینیئرنگ اپنے دیرینہ مفادات کے تحفظ کا بھی ایک طریقہ ہے۔

سیاسی جماعتیں جو زیادہ تر ہماری اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہیں، اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بہ خوشی اسٹیبلشمنٹ کی اتحادی بن جاتی ہیں۔ عمران خان کے عروج کے پیچھے بھی سیاسی انجینیئرنگ تھی اور اب اپنے سابق سرپرستوں کے ساتھ ان کا تصادم ہی اقتدار میں ان کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

ہائبرڈ طرز حکومت، جس سے پی ٹی آئی بھی مستفید ہوئی ہے، اس نے جمہوری عمل کو بہت حد تک کمزور کیا ہے جس کے نتیجے میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ عمران خان کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کو نشانہ بنانے سے سیاسی ماحول خراب ہوا، یہاں تک کہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد بھی محاذ آرائی کی ان کی پالیسیوں نے جمہوری عمل میں رکاوٹیں ڈالیں۔

عمران خان کی انا کسی سیاسی مذاکرات کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پارلیمنٹ میں رہنے کے بجائے انہوں نے تصادم کا راستہ اختیار کیا اور پی ڈی ایم حکومت کو عوامی قوت کی ذریعے گرانے کی کوشش کی۔ 9 مئی کو جو کچھ ہوا اوہ ان کے زہر آلود بیانیے کا نتیجہ تھا۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) جو کہ ماضی میں سیاسی انجینیئرنگ کی شکار رہی ہے وہ اقتدار کے نئے کھیل میں اسی سیاسی انجینیئرنگ کی آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ اب تو پی ٹی آئی پر پابندی لگانے یا عمران خان کو نااہل کرنے کی بھی باتیں کی جارہی ہیں۔ ہمارے سیاسی عمل کے لیے اس سے زیادہ نقصاندہ کچھ نہیں ہوگا۔

کسی اور سیاسی جماعت سے زیادہ مسلم لیگ (ن) کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس قسم کے اقدامات کبھی کام نہیں آتے۔ پابندیاں کبھی کسی مقبول لیڈر کو سیاسی میدان سے باہر رکھنے میں کامیاب نہیں ہوتیں چاہے اسے انتخابی سیاست میں بھی حصہ لینے نہ دیا جائے۔ نواز شریف کو تاحیات نااہل کیا گیا لیکن پھر بھی وہ ایک طاقتور لیڈر ہیں جو ایک طرح سے لندن میں خود ساختہ جلا وطنی میں بیٹھ کر حکومت چلا رہے ہیں۔

پارٹی کی سینیئر قیادت کے پارٹی چھوڑ جانے کے باوجود بھی یہی لگتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں فرق نہیں پڑا ہے۔ انہیں سیاسی میدان سے باہر نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی جماعت پر پابندی لگانے کا کوئی بھی قدم جمہوری عمل کو مزید کمزور کرے گا۔

یقیناً 9 مئی کے پر تشدد واقعات کے منصوبہ سازوں کو انصاف کے کٹہرےمیں لایا جانا چاہیے اور عمران خان کو بھی چاہیے کہ خود پر لگے مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کریں۔ لیکن 9 مئی کے واقعات کو انتخابات کے التوا کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ کوئی بھی غیر آئینی قدم بوناپارٹزم کو ہی مضبوط کرے گا۔

موجودہ دباؤ اور پارٹی کے سینیئر لیڈروں کے پارٹی چھوڑ جانے کے درمیان عمران خان کی سخت گیر پوزیشن میں نرمی کے کچھ اشارے ملے ہیں۔ ایک حالیہ بیان میں انہوں نے موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لیے تمام فریقین کے درمیان بات چیت پر زور دیا۔ یہ حکمران اتحاد کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت نہ کرنے کے ان کے فیصلے سے بالکل مختلف بیان تھا۔

عمران خان کی جماعت اب ٹوٹتی جارہی ہے اور ان کے سر پر بھی نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے، ایسے میں عمران خان کو دستیاب مواقع کم ہوتے جارہے ہیں۔ خود ان کی سیاسی بقا کا دارو مدار بھی جمہوری عمل کے تسلسل میں ہے۔

بدقسمتی سے ان کی مفاہمت کی پیش کش کو حکمران اتحاد نے مسترد کر دیا ہے۔ بات چیت کا راستہ روکنا ایک سنگین غلطی ہے۔ سیاسی انجینیئرنگ کے ذریعے پی ٹی آئی کو ختم کرنے پر خوشی منانا، حکمران اتحاد کے بھی گلے پڑ سکتا ہے۔ یہ تاریخ کا سبق ہے جو انہیں یاد رکھنا چاہیے۔


یہ مضمون 31 مئی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں