رویت ہلال بل قومی اسمبلی سے منظور، نجی کمیٹیوں کے چاند دیکھنے پر پابندی کی تجویز

اپ ڈیٹ 01 جون 2023
اس بل کو قانون میں ڈھالنے کے لیے سینیٹ سے منظور کروانا ہوگا—فائل فوٹو/ رائٹرز
اس بل کو قانون میں ڈھالنے کے لیے سینیٹ سے منظور کروانا ہوگا—فائل فوٹو/ رائٹرز

قومی اسمبلی نے ’پاکستان رویت ہلال بل 2022‘ منظور کر لیا جس میں نجی رویت ہلال کمیٹیوں کے قیام اور سرکاری اعلان سے قبل نئے چاند کے اعلان پر پابندی کی تجویز دی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بل وزیر مملکت برائے قانون و انصاف شہادت اعوان نے وزیر مذہبی امور طلحہ محمود کی غیر موجودگی میں پیش کیا جوکہ 2021 سے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں زیر التوا تھا، اب اس بل کو قانون میں ڈھالنے کے لیے سینیٹ سے منظور کروانا ہوگا۔

بل میں کہا گیا کہ چاند دیکھنے کے لیے وفاقی، صوبائی اور ضلعی کمیٹیوں کے علاوہ کسی بھی نام سے کوئی بھی کمیٹی یا ادارہ پورے پاکستان یا ملک کے کسی بھی حصے میں چاند نہیں دیکھے گا۔

واضح رہے کہ ملک میں ہر سال مذہبی تہواروں سے قبل چاند دیکھنے کا تنازع کھڑا ہوجاتا ہے، ماضی میں ملک کے مختلف حصوں میں 3 عیدیں تک منائی جاتی رہی ہیں کیونکہ چاند دیکھنے کے عمل کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں تھا، اس حوالے سے موجودہ سیٹ اپ 1974 میں قومی اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد کے مطابق وزارت مذہبی امور کے تحت کام کر رہا ہے۔

تاہم نئے بل کے تحت چاند نظر آنے کا اعلان وفاقی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرپرسن یا چیئرپرسن کی جانب سے مجاز کمیٹی کا کوئی رکن ہی کر سکتا ہے، بل کی شقوں کی خلاف ورزی کرنے والوں یا نجی رویت ہلال کمیٹیوں کے قیام پر 5 لاکھ روپے تک جرمانے کی تجویز دی گئی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ رویت ہلال کمیٹی کے باضابطہ اعلان سے قبل چاند نظر آنے کی خبر نشر کرنے والے ٹی وی چینل پر 10 لاکھ روپے تک جرمانہ یا پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے ان کے لائسنس معطل کرنے یا یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔

اسی طرح چاند کی رویت سے متعلق جھوٹی شہادت دینے والے شخص یا افراد کو 3 سال تک قید یا 50 ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

اس نئے بل کے تحت وفاقی سطح پر ہر صوبے، اسلام آباد، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر میں علما اور متعلقہ افسران پر مشتمل رویت ہلال کمیٹیاں ہوں گی، اس طرح کی کمیٹیاں ضلعی سطح پر بھی قائم کی جائیں گی۔

وفاقی کمیٹی میں چیئرپرسن، ہر صوبے سے 2، 2 علمائے کرام اور اسلام آباد، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر سے ایک ایک عالم شامل ہوں گے جبکہ کمیٹی کے تکنیکی ارکان میں محکمہ موسمیات، اسپارکو اور وزارت مذہبی امور کا ایک ایک افسر شامل ہوگا۔

کمیٹی کے چیئرپرسن کا تقرر باری باری صوبوں اور اسلام آباد سے کیا جائے گا، وفاقی، صوبائی اور ضلعی کمیٹیوں سمیت اسلام آباد کمیٹی کی مدت 3 برس ہوگی، وفاقی کمیٹی کا اجلاس باری باری صوبائی ہیڈ کوارٹرز اور اسلام آباد میں ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں