’پہلی ڈلیوری آپریشن سے تھی یا نارمل؟‘ ہم نے پوچھا۔

’نہ آپریشن، نہ نارمل۔۔۔‘ مریضہ نے تنک کر جواب دیا۔

’کیا مطلب؟‘

’اوزاری ڈلیوری تھی میری اور اس کے بعد سے یہ سب تکلیفیں شروع ہوئیں‘۔ آخر اس قدر مہلک اوزار ڈاکٹر کیوں استعمال کرتے ہیں؟

مہلک اوزار بامعنی مہلک ہتھیار۔۔۔ ہم نے سوچا۔

کیا واقعی؟

سوچا یہ سوال آپ سب سے پوچھا جائے کہ اگر گھنٹوں درد زہ کے بعد بھی بچہ پیدا نہ ہو تو کیا کریں؟

یہ عام سا سوال ہے جس کا جواب دینے کے لیے ڈاکٹر ہونا ضروری نہیں۔ کامن سینس اور جنرل نالج سے مدد لیجیے۔۔۔ جی اگر بچے دانی کا منہ کھل چکا ہو، ماں زور لگا لگا کر بے حال ہو اور بچہ پھر بھی باہر نہ نکلے تو کیا کیا جائے؟

سوچیے کیا ہوتا ہوگا پرانے زمانوں میں؟ اور آج کے ان علاقوں میں جہاں زمانہ نہیں بدلا۔ جواب آسان ہے۔۔۔ موت!

تاریخ کو عام عورت کی زندگی اور موت سے تو کوئی دلچسپی نہیں رہی کہ ان کا ذکر محفوظ رکھا جاتا اور ہمیں علم ہوتا کہ قرون اولیٰ کی عورت نے اپنی عمر زندگی اور موت کی رسہ کشی میں کیسے گزاری؟

لیکن وہ عورتیں جو بادشاہوں کے حرم کی زینت تھیں، ان کے تذکرے سے ہم صورت حال کا کسی نہ کسی حد تک اندازہ لگا سکتے ہیں۔

محبت اور موت کی دو مشہور داستانیں

ایک شہزادی تھی، حسین، کم عمر، ماں باپ کی مرکز نگاہ، نازونعم میں، خوشیوں کے ہنڈولے میں جھولتی ہوئی۔ زچگی کی سائنس میں انقلاب اسی کی وجہ سے برپا ہوا۔

انگلینڈ کی شہزادی شارلٹ، بادشاہ جارج چہارم کی اکلوتی لاڈلی بیٹی، بیلجیئم کے ہونے والے بادشاہ کی بیوی، جس نے 21 سال کی عمر میں بچہ جنم دیتے ہوئے زندگی کی بازی ہار دی۔

شہزادی کی موت کے بعد زچگی کی سائنس میں انقلاب برپا ہوا
شہزادی کی موت کے بعد زچگی کی سائنس میں انقلاب برپا ہوا

شہزادی شارلٹ نے 50 گھنٹے درد زہ میں گزارے کہ بچے کی پوزیشن ٹھیک نہیں تھی (نارمل درد زہ 12 گھنٹے ہے)۔ مردہ بچے کو جنم دینے کے بعد بادشاہت اور بے انتہا دولت بھی شہزادی کی موت کا راستہ نہ روک سکے۔ پورا ملک غم کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ دو ہفتے سرکاری سوگ منایا گیا۔ لوگ ڈاکٹر کو الزام دے رہے تھے لیکن بادشاہ نے ڈاکٹر کو بری الزمہ قرار دیا۔

لیکن ڈاکٹر کرافٹ پر اس حادثے کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے شہزادی کے مرنے کے 3 ماہ بعد خود کشی کرلی۔ دنیائے طب میں یہ واقعہ ٹرپل ٹریجڈی (ماں، بچہ، اور ڈاکٹر ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

   ڈاکٹر سر رچرڈ کرافٹ— تصویر: وکی پیڈیا
ڈاکٹر سر رچرڈ کرافٹ— تصویر: وکی پیڈیا

دوسری کہانی کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے ہے۔ اس میں بھی ایک بادشاہ ہے لیکن ساتھ میں شہزادی کی بجائے ملکہ۔۔۔محبوب بیوی! بادشاہ کے 14 بچوں کی ماں (ازدواجی زندگی 19 سال)۔ ممتاز محل (1631ء-1593ء) 14ویں بچے کی پیدائش میں 30 گھنٹے کا درد زہ برداشت کرنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گئیں۔

شاہ جہاں نے جوگ لے لیا ایک سال بعد جب وہ سامنے آیا تو کمر خمیدہ تھی اور بال سفید! اپنی محبت امر کرنے کا خیال آیا اور تاج محل مجسم ہوا اور وہ خوبصورت عمارت آج بھی اس دیوانگی پر مسکراتی ہے۔

ممتاز محل نے ز چگی کے نتیجے میں موت کو گلے لگایا اور تاج محل وجود میں آیا لیکن محبت کی اس یادگار کا ممتاز محل یا اس کے 14 بچوں کو کیا فائدہ؟ وہ تو سدھار گئیں اگلے جہاں!

شہزادی شارلٹ کے مرنے کے بعد دنیا اس مخمصے میں تھی کہ زچگی کی اس مشکل کو کیسے حل کیا جائے؟

بچہ پیٹ میں ہو اور زچگی کا درد اسے باہر دھکیلنے میں ناکام رہے، کیا کیا جائے؟

ایک حل یہ سامنے آیا کہ اوزار ڈال کر بچے کو باہر کی طرف کھینچا جائے۔ ویجائنا کا حجم تو سب کے علم میں ہی ہے، اس میں بچے کے ساتھ اوزار بھی؟ بات تھی تو مشکل لیکن اس کے علاوہ کچھ اور ممکن بھی نہیں تھا۔

بچہ پیٹ میں ہو اور زچگی کا درد اسے باہر دھکیلنے میں ناکام رہے، کیا کیا جائے؟
بچہ پیٹ میں ہو اور زچگی کا درد اسے باہر دھکیلنے میں ناکام رہے، کیا کیا جائے؟

17ویں صدی میں انگلینڈ کی چیمبرلین فیملی ایسے اوزار بنا چکی تھی جن کی مدد سے بچے کو کھینچنا ممکن تھا لیکن ان اوزاروں کو اگلے کئی برسوں تک ایک راز کی طرح برتا گیا۔ چیمبرلین فیملی اپنی ایجاد کو دوسروں کے ہاتھ میں دینا نہیں چاہتی تھی۔ چیمبرلین افراد پردوں سے ڈھکی ہوئی بگھی میں ایک ڈبہ اٹھا کر زچہ کے گھر پہنچتے۔ زچہ کی آنکھوں پر کالی پٹی چڑھا دی جاتی اور کمرے سے باقی افراد کو باہر نکال دیا جاتا۔ یہ راز انواع و اقسام کے اسٹیل سے بنے ہوئے چمچ (فورسیپس) تھے جنہیں بچے کے سر کے ارد گرد لگا کر کھینچا جاتا۔

چیمبرلین فیملی کے ایجاد کردہ فورسیپس—تصویر: وکی پیڈیا
چیمبرلین فیملی کے ایجاد کردہ فورسیپس—تصویر: وکی پیڈیا

اس زمانے میں زچگی کی سائنس دو نظریات پر مبنی تھی، intervention اور Non- intervention۔

زیادہ تر ڈاکٹر دوسرے نظریے پر یقین رکھتے ہوئے زچگی کے عمل میں اوزار لگانا پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن چیمبرلین فیملی کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ زچگی میں موت کے پنجوں سے عورت کو رہائی دلوانے کے لیے اوزاروں کا استعمال کرنا لازمی ہے۔

دکھ اور غم میں ڈوبے ہوئے بادشاہ نے ان تمام عورتوں کا سوچا جو زچگی کے مراحل پار کرتے ہوئے موت کی سرحد کو ہاتھ لگانے والی تھیں۔ لاڈلی بیٹی تو واپس آنہیں سکتی تھی لیکن اور بہت سے والدین کی شہزادیاں ان کے دلوں کو ٹھنڈا رکھ سکتی تھیں، سو ایک حکم کے ذریعے فورسیپس ڈلیوری کو عام بنایا گیا۔

ایک نئے دور کا آغاز

1950ء میں سویڈن کے رہنے والے ڈاکٹر میلم اسٹورم نے ایک اور تجربہ کیا۔ چونکہ فورسیپس سے ویجائنا میں بہت گہرے زخم آتے تھے تو سوچا گیا کہ کوئی ایسی چیز جو ویجائنا کو نہ چھوئے، بہتر ہوگی۔

اس کوشش میں ویکیوم کپ ایجاد ہوا۔ اسٹیل کا بنا ہوا کپ ویجائنا میں موجود بچے کے سر پر رکھ کر ویکیوم پریشر مشین سے لگادیا جاتا۔ کپ بچے کے سر سے چپک جانے کے بعد اسے ایک زنجیر کی مدد سے کھینچا جاتا۔ کھینچا تانی تو اس میں بھی تھی لیکن فورسیپس کے مقابلے میں نقصان کم پہنچتا تھا۔

لیکن اسٹیل کا بنا ہوا کپ اور ساتھ میں ویکیوم پریشر مشین۔۔۔ کبھی کبھار بچے کے سر کو نقصان پہنچتا اور دماغ میں بلیڈنگ بھی شروع ہو جاتی۔

نیوزی لینڈ کے پروفیسر ایلڈو ویکا نے اس کا حل پلاسٹک کپ میں نکالا۔ پلاسٹک کپ کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا پریشر پمپ تھا، بائیں ہاتھ سے کپ بچے کے سر پر لگا کر اسے اپنی جگہ پر قائم رکھتے ہوئے دائیں ہاتھ سے پریشر پمپ کو دبا کر پریشر بنایا جاتا اور پھر بچے کو کھینچا جاتا۔

کیوی ویکیوم کپ— تصویر: فیس بک
کیوی ویکیوم کپ— تصویر: فیس بک

اس ویکیوم کپ کی ایجاد نے زچگی میں اوزار لگانے کو بہت آسان اور بہتر کردیا۔ چونکہ پروفیسر ایلڈو ویکا کا تعلق نیوزی لینڈ سے تھا سو انہوں نے اس پلاسٹک سے بنے ہوئے انسٹرومنٹ کا نام کیوی رکھا۔ یہ وہی کیوی ہے جو کبھی ہمارے ہاں بوٹ پالش کی ڈبیا پر پایا جاتا تھا۔ شاید آج بھی پایا جاتا ہو۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کیوی صرف بوٹ پالش کی ڈبیا پر ہی مل سکتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں کیوی ویکیوم کپ کا کوئی وجود نہیں اور جب موجود نہیں تو ڈاکٹر ز سیکھیں گے کیا؟

ہم پروفیسر ایلڈو ویکا سے کہاں ملے؟ ان کے ہاتھ سے کیوی لگانا کیسے سیکھا؟ یہ داستان اگلی بار !

تبصرے (0) بند ہیں