وفاقی وزارت خزانہ نے ملک کے مالی خدشات پر مبنی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پرائمری بیلنس کے اہداف حاصل کرنے اور عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کا آنے والا جائزہ مکمل کرنے کے لیے درست سمت پر گامزن ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر وزارت خزانہ نے رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے بیان میں کہا کہ خزانہ ڈویژن کو توقع تھی کہ قومی اہمیت کے معاشی مسئلے پر ذمہ دارانہ رپورٹنگ ہوگی اور محدود معلومات نہیں دی جائیں گے۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ مذکورہ خبر میں بیرونی معاونت میں کمی اور زیادہ پالیسی ریٹ کے باعث سود کی ادائیگی کے اخراجات میں اضافہ کا حوالہ مالیاتی اعداد و شمار کے محدود معلومات کی عکاسی ہو رہی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ رپورٹ میں پاکستان کی بیرونی مالیاتی ضروریات اور مالی سال 2024 میں سودکی ادائیگی کے حوالے سے غلط اندازے پیش کیے گئیے ہیں۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ پاکستان نے معاہدے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ رواں مالی سال کے بجٹ کے تمام اعدادوشمار شیئر کئے تھے اور وزارت خزانہ اسٹینڈبائی معاہدہ کے تحت مختلف اقدامات پر آئی ایم ایف کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ حکومت رواں مالی سال کے دوران مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے اور یقینی بنایا جا رہا ہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ پر سختی سے عمل کیا جائے اور تمام اخراجات بجٹ کے مطابق رہیں۔
وفاقی وزارت خزانہ نے کہا کہ اس حوالے سے وزارت خزانہ تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کے سے بھی اہداف کی تکمیل کے لیے مصروف عمل ہے۔
مزید بتایا گیا کہ مالیاتی استحکام یقینی بنانے کے لیے وزارت خزانہ مالیاتی پوزیشن کا اکثر جائزہ لیتی ہے۔
وفاقی وزارت خزانہ کا ککنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ آنے والے جائزہ کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرنے اور پرائمری بیلنس کے اہداف حاصل کرنے کے لیے بدستور درست سمت میں گامزن ہیں۔
قبل ازیں ٹریبیون کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک کے بیرونی مالی منصوبے میں تقریبا 4.5 ارب ڈالر ک خلا پیدا ہوگیا ہے اور قرض اخراجات کی وجہ سے بجٹ میں مزید خسارے کا خدشہ ہے۔
مزید کہا گیا تھا کہ دو مبینہ ترقیاتی منصوبے آنے والے جائزے میں انتہائی تشویش ناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ 20 ارب ڈالر کے بجٹ تخمینے کے باوجود 4.4 ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی وصولی کے حوالے سے خدشات ہیں۔
یاد رہے کہ رواں برس جون میں آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالر ک معاہدہ طے پایا تھا اور سخت اصلاحات پروگرام پر اتفاق کیا گیا تھا اور اب اگلا جائزہ ستمبر کے آخر میں ہوگا۔
تبصرے (0) بند ہیں