معدنیات کی دوڑ سمندر کی تہہ کو ’جنگلی مغرب‘ میں تبدیل کرسکتی ہے، عالمی رہنماؤں کا انتباہ
عالمی رہنماؤں نے سمندر کی تہہ پر حکمرانی کے لیے عالمی قوانین بنانے کا مطالبہ کیا ہے اور گہرے سمندر کی معدنیات کے استحصال کی دوڑ کے خلاف خبردار کیا ہے، جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ایک غیر اعلانیہ تنقید کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق فرانس میں اقوام متحدہ کی سمندری کانفرنس کے آغاز پر بین الاقوامی پانیوں میں گہرے سمندر کی کان کنی کو تیز کرنے کے لیے ٹرمپ کی یکطرفہ کوششوں پر گہری تشویش ظاہر کی گئی۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ میرے خیال میں یہ دیوانگی ہے کہ ہم ایک ایسی استحصالی معاشی سرگرمی شروع کریں جو گہرے سمندر کی تہہ کو نقصان پہنچائے، حیاتیاتی تنوع کو برباد کرے اور ناقابلِ واپسی کاربن ذخائر کو خارج کرے، جب کہ ہمیں اس کے بارے میں مکمل علم ہی نہیں ہے۔
انہوں نے سمندر کی تہہ میں کان کنی پر پابندی کو ’بین الاقوامی ضرورت‘ قرار دیا۔
غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد ڈیپ سی کنزرویشن کولیشن کے مطابق پیر کے روز ایسے ممالک کی تعداد 36 ہوگئی ہے جو سمندر کی تہہ میں کان کنی کی مخالفت کر رہے ہیں۔
اگرچہ ٹرمپ، نِیس میں منعقدہ اس اجلاس میں شریک نہیں تھے جہاں تقریباً 60 سربراہانِ مملکت و حکومت موجود تھے، لیکن جب عالمی رہنما اُس کثیرالجہتی بین الاقوامی نظام کا دفاع کر رہے تھے جسے ٹرمپ نے مسترد کیا، تو اُن کی غیر موجودگی کے باوجود اُن کا اثر نمایاں طور پر محسوس کیا گیا۔
تشویش کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے بین الاقوامی سمندری تہہ اتھارٹی (آئی ایس اے) کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کمپنیوں کو براہِ راست اجازت نامے جاری کیے جو امریکی دائرہ اختیار سے باہر کے پانیوں سے نِکل اور دیگر دھاتیں نکالنا چاہتی ہیں۔
برازیل کے صدر لوئز ایناسیو لولا ڈا سلوا نے سمندری استحصال کی اس دوڑ کے خاتمے کے لیے سمندری تہہ اتھارٹی سے ’واضح اقدام‘ کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اب سمندر پر یکطرفہ اقدامات کے خطرے کو منڈلاتا دیکھ رہے ہیں، ہم یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ جو کچھ عالمی تجارت کے ساتھ ہوا، وہی سمندر کے ساتھ بھی ہو۔
فرانسیسی صدر نے مزید کہا کہ گہرے سمندر، گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا برائے فروخت نہیں ہیں، جو بظاہر ٹرمپ کے توسیع پسندانہ نظریات پر براہِ راست تنقید تھی۔
آئی ایس اے، جو قومی حدود سے باہر سمندر کی تہہ پر اختیار رکھتی ہے، جولائی میں ایک عالمی کان کنی ضابطے پر غور کے لیے اجلاس منعقد کرے گی تاکہ گہرے سمندر کی کان کنی کو منظم کیا جاسکے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ان مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے محتاط رویہ اپنانے پر زور دیا، کیونکہ دنیا کے ممالک اب ان نئے پانیوں میں داخل ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گہرا سمندر کسی ’جنگلی مغرب‘ میں تبدیل نہیں ہو سکتا، جس پر شرکا نے بھی تالیاں بجائیں۔
انہوں نے عالمی رہنماؤں سے اُس معاہدے کی توثیق کا مطالبہ بھی کیا جو بین الاقوامی پانیوں میں محفوظ سمندری علاقے قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
انتونیو گوتریس نے خبردار کیا کہ انسانی سرگرمیاں سمندری ماحولیاتی نظام کو تباہ کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ غیر قانونی ماہی گیری، پلاسٹک کی آلودگی اور بڑھتا ہوا سمندری درجہ حرارت نہایت نازک ماحولیاتی نظاموں اور اُن پر انحصار کرنے والے انسانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سمندر ایک مشترکہ وسیلہ ہے، مگر ہم اسے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے اس تناظر میں مچھلی کے گرتے ذخائر، بڑھتے ہوئے سمندری پانی اور بڑھتی ہوئی تیزابیت کی بھی مثالیں دیں۔
امید کی لہر
جزائر پر مشتمل اقوام نے بھی گہرے سمندر کی کان کنی کے خلاف آواز بلند کی، جس کے بارے میں سائنسدان خبردار کرچکے ہیں کہ یہ اب تک نہ چھوئے گئے ماحولیاتی نظام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
گرین پیس کی نمائندہ میگن رینڈلز نے کہا کہ یہاں نِیس میں ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ گہرے سمندر کی کان کنی کا خطرہ اور حالیہ دنوں میں اس صنعت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ کئی ممالک کے لیے ناقابلِ قبول ہوچکا ہے۔
ایمانوئل میکرون نے کہا کہ بین الاقوامی پانیوں میں سمندری حیات کے تحفظ کے لیے ایک عالمی معاہدے کو اب اتنی حمایت حاصل ہوچکی ہے کہ وہ قانون بننے کے قریب ہے اور یہ ایک مکمل معاہدہ ہے۔