پاکستان بزنس کونسل کا مشاورت کے بغیر نئی صنعتی پالیسی کی منظوری پر حیرت کا اظہار

شائع July 6, 2025
—فائل فوٹو: ڈان
—فائل فوٹو: ڈان

پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) نے وفاقی حکومت کی جانب سے ملک کے اہم صنعتی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر نئی صنعتی پالیسی کی منظوری پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ پالیسی ملک کے بحران زدہ صنعتی شعبے کو بحال کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے، جمعہ کے روز وزیر اعظم کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی برائے صنعتی پالیسی کے اجلاس میں اسے حتمی شکل دی گئی، یہ فیصلہ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت طویل صنعتی جمود سے نمٹنے کے لیے اصلاحات کی فوری ضرورت محسوس کر رہی ہے۔

ہفتہ کے روز وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار، ہارون اختر خان، کو بھیجے گئے ایک مراسلے میں پی بی سی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) احسن ملک نے کہا کہ اگرچہ حکومت نے کونسل کی دیرینہ سفارش کو تسلیم کرتے ہوئے ایسی صنعتی پالیسی تیار کی ہے، جو سرمایہ کاری کو ان شعبوں کی طرف راغب کرے، جہاں پاکستان کو تقابلی برتری حاصل ہے یا حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن اس پالیسی کی تیاری میں کونسل کو شامل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے یاد دلایا کہ معاون خصوصی کے حالیہ دورہ پی بی سی کے دفتر کے دوران دونوں فریقین نے ایسی پالیسی کی ضرورت پر تفصیل سے بات کی تھی، اور کونسل نے اس کی تشکیل میں تعاون کی پیشکش بھی کی تھی، تاہم انہوں نے کہا کہ کونسل کو تاحال منظور شدہ پالیسی نہیں دکھائی گئی اور انہوں نے درخواست کی کہ اسے پی بی سی کے ساتھ شیئر کیا جائے۔

نفاذی کمیٹیوں میں شمولیت کا مطالبہ

اخباری خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے، احسن ملک نے کہا کہ نئی صنعتی پالیسی میں بظاہر بیمار صنعتوں کی بحالی اور چھوٹے و درمیانے درجے کے اداروں (ایس ایم ایز) کو قرضوں کی فراہمی پر خاص توجہ دی گئی ہے، اگرچہ یہ اقدامات مفید ہو سکتے ہیں، لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ یہ معاونت ان شعبوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونی چاہیے جنہیں نئی پالیسی میں تقابلی برتری کا حامل قرار دیا گیا ہے۔

پی بی سی نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی مختلف وزارتوں کی پالیسیاں آپس میں ہم آہنگ ہوں تاکہ پائیدار کاروباری ترقی اور زیادہ ٹیکس محصولات کو یقینی بنایا جا سکے، اس تناظر میں، احسن ملک نے مالیاتی پالیسی کو ٹیکس وصولی سے الگ کرنے کے اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترقی دوست پالیسی سازی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب میں اضافہ ایسی مالیاتی پالیسیوں کا نتیجہ ہونا چاہیے جو ترقی کا سبب بنیں، نہ کہ صرف ان طبقات پر مزید بوجھ ڈال کر جو پہلے ہی ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔

پی بی سی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے احسن ملک نے کہا کہ کونسل میں شامل تقریباً 100 مقامی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک کی برآمدات کا 40 فیصد فراہم کرتی ہیں، اور لاکھوں افراد کو ویلیو چینز کے ذریعے روزگار فراہم کرتی ہیں، ان میں سے بیشتر کمپنیاں صنعتی شعبے سے وابستہ ہیں اور کونسل نے ’میک ان پاکستان‘ اقدام کے تحت صنعتی ترقی اور برآمدات کے فروغ کے لیے جامع تحقیق بھی کی ہے۔

انہوں نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ وزارت صنعت و پیداوار کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے قائم کی گئی بیشتر ذیلی کمیٹیوں میں پی بی سی کو شامل نہیں کیا گیا، انہوں نے کہا کہ ہم اس بات پر حیران ہیں کہ اعلان کردہ بیشتر ذیلی کمیٹیوں سے پی بی سی کو باہر رکھا گیا ہے، اور نشاندہی کی کہ ان میں سے کئی ادارے بنیادی طور پر تاجروں پر مشتمل ہیں۔

احسن ملک نے معاون خصوصی سے درخواست کی کہ وہ ان کمیٹیوں کی تشکیل پر نظرثانی کریں تاکہ صنعتی شعبے، خاص طور پر پالیسی تحقیق اور صنعتی ترقی میں سرگرم اداروں، کو مناسب نمائندگی دی جا سکے۔

کارٹون

کارٹون : 6 جولائی 2025
کارٹون : 5 جولائی 2025