20 نومولودوں کی اموات: پاکپتن کے ڈی ایچ کیو ہسپتال کے ملازمین کیخلاف 3 مقدمات درج
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر پاکپتن پولیس نے ڈی ایچ کیو ہسپتال کے بچوں کے وارڈ میں 16 سے 22 جون کے دوران 20 نومولود بچوں کی اموات پر 3 مقدمات درج کر لیے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق 2 مقدمات ہسپتال کے عملے اور لیبارٹری ٹیکنیشنز کے خلاف مجرمانہ غفلت پر درج کیے گئے جبکہ ایک مقدمہ اسپتال کی پارکنگ کے ٹھیکیدار اور عملے کے خلاف زائد فیس لینے اور مریضوں کو دھمکانے کے الزامات پر درج کیا گیا۔
تمام 9 ملزمان کو مقامی ڈیوٹی مجسٹریٹ گلزار کی عدالت میں پیش کیا گیا، جنہوں نے انہیں 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔
ڈی پی او پاکپتن جاوید اقبال چدھڑ کے مطابق تمام ملزمان کو ہتھکڑی لگا کر سٹی تھانے کے لاک اپ منتقل کیا گیا جبکہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور سی ای او ہیلتھ کو پولیس کی تحویل میں سرکاری گاڑیوں میں لے جایا گیا۔
سٹی ایس ایچ او ہاشم کے مطابق ایف آئی آرز متاثرہ بچوں کے لواحقین کی تحریری شکایات پر صبح کے وقت درج کی گئیں۔
پہلا ایف آئی آر نمبر 738/25 پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 322 اور 201 کے تحت درج کی گئی ہے، مدعی علی حیدر نے مؤقف اختیار کیا کہ اس کی نومولود بیٹی منہاج فاطمہ کا ہسپتال میں آکسیجن اور بروقت علاج نہ ہونے کے باعث انتقال ہوا، مدعی نے الزام لگایا کہ سی ای او سے شکایت کے باوجود کوئی کارروائی نہ ہوئی اور بچوں کی ہلاکتوں کا ریکارڈ جان بوجھ کر مٹا دیا گیا۔
ایف آئی آر میں مزید 15 متاثرہ والدین کا ذکر ہے جنہوں نے غفلت اور آکسیجن کی کمی کو اموات کی وجہ قرار دیا۔
دوسری ایف آئی آر نمبر 739/25 محمد وسیم کی شکایت پر درج کی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ بعض لیب ٹیکنیشنز اور نجی لیبارٹریز کے افراد ہسپتال کی آکسیجن چوری کر کے نجی مراکز میں فروخت کر رہے تھے جن میں ان کے مالی مفادات شامل تھے، وسیم نے دعویٰ کیا کہ اس نے 19 جون کو اس چوری کو بے نقاب کیا تو اُسے سنگین دھمکیاں دی گئیں۔
تیسرا مقدمہ ایف آئی آر نمبر 737/25 محمد اشرف کی شکایت پر درج ہوا، جس میں الزام لگایا گیا کہ جب اس نے پارکنگ فیس میں اضافے پر اعتراض کیا تو اسے مسلح افراد نے یرغمال بنا لیا اور بعد ازاں رہا کیا گیا۔
ڈی پی او کے مطابق تمام ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا اور پولیس کو 2 دن کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا ہے جبکہ مزید تفتیش جاری ہے۔