ایس او ایز کی ایل این جی کی درآمد، ذخیرہ اندوزی اور ترسیل میں اجارہ داری ہے، مسابقتی کمیشن

شائع October 5, 2025
سی سی پی نے تجویز دی کہ سوئی کمپنیوں کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کارروائی کو الگ کیا جائے۔
—فائل فوٹو: رائٹرز
سی سی پی نے تجویز دی کہ سوئی کمپنیوں کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کارروائی کو الگ کیا جائے۔ —فائل فوٹو: رائٹرز

پاکستان کے مسابقتی کمیشن (سی سی پی) کی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمد، ذخیرہ اندوزی اور ترسیل میں اجارہ داری ہے، جب کہ سخت لائسنسنگ اور ٹیرف قوانین نجی شعبے کی شمولیت کو محدود کر رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس مطالعے کا عنوان ’پاکستان میں ایل این جی سیکٹر میں مسابقت کی حالت‘ ہے، جس نے ملک کے ایل این جی بازار میں ساختی، ریگولیٹری اور طرزِعمل سے متعلق رکاوٹوں کا جائزہ لیا۔

یہ تحقیق وزارتِ خزانہ کی ہدایت پر سی سی پی کے ریسرچ ڈپارٹمنٹ نے تیار کی ہے۔

رپورٹ میں پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او)، پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل)، سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) جیسے سرکاری اداروں کے بازار کی حرکیات، رسائی اور کارکردگی پر اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

سی سی پی کی تحقیق کے مطابق ایل این جی مارکیٹ کو کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں انفرااسٹرکچر تک محدود رسائی اور تھرڈ پارٹی ایکسس (ٹی پی اے) کے قواعد کے سست نفاذ شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوری 2024 تک گردشی قرضہ 20 کھرب 86 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، جو زیادہ تر ٹیرف ایڈجسٹمنٹس میں تاخیر اور ری گیسفائیڈ ایل این جی (آر ایل این جی) کی منتقلی کے باعث ہے۔

رپورٹ میں اصلاحات کے لیے کئی اسٹریٹجک سفارشات پیش کی گئی ہیں، جو بین الاقوامی بہترین طریقوں اور ورلڈ بینک کے مارکیٹس اینڈ کمپٹیشن پالیسی اسسمنٹ ٹول کِٹ (ایم سی پی اے ٹی) کے مطابق ہیں۔

ان سفارشات میں ایل این جی کی درآمدات کی منظوری کے لیے مرکزی کوآرڈینیشن کمیٹی (سی سی سی) کے تحت ’ون اسٹاپ شاپ‘ کا قیام، ایل این جی ٹرمینلز اور پائپ لائنز کے لیے ٹی پی اے قواعد کے نفاذ میں تیزی لانا شامل ہیں۔

سی سی پی نے یہ بھی تجویز دی کہ سوئی کمپنیوں کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کارروائیوں کو الگ (ان بنڈل) کیا جائے تاکہ برابر مواقع فراہم کیے جا سکیں، ساتھ ہی طلب کی بہتر پیش گوئی اور غیر حساب شدہ گیس (یو ایف جی) کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے 3 سالہ ہدفی منصوبے بنائے جائیں۔

رپورٹ کی رونمائی کے موقع پر سی سی پی کے چیئرمین ڈاکٹر کبیر احمد صدیق نے کہا کہ یہ تحقیق پالیسی مباحثے کو فروغ دینے اور ایسی اصلاحات کی حمایت کرنے کے لیے کی گئی ہے، جو کھلی رسائی، نجی شعبے کی شمولیت اور پائیدار توانائی کے تحفظ کو یقینی بنائیں، پاکستان کے ایل این جی شعبے میں کارکردگی اور جدت کو فروغ دینے کی کنجی مسابقت ہے۔

اسٹڈی میں جاپان سمیت دیگر ممالک کے تجربات سے بھی سبق حاصل کیا گیا ہے، جس میں بتدریج لبرلائزیشن، انفرااسٹرکچر کی ملکیت کو علیحدہ کرنا (ان بنڈلنگ) اور منصفانہ رسائی کی یقین دہانی کو ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 8 نومبر 2025
کارٹون : 7 نومبر 2025