فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

وہ لوگ اس سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ کم از کم ٹی ٹی پی کے تعلق سے اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے- ملالہ نے کھلے عام پوری قوت کےساتھ ان کا مقابلہ کیا ہے- لیکن عام لوگ جو بظاہر نارمل دکھائی دیتے ہیں کیوں اس سے نفرت کرتے ہیں؟

ایک وجہ تو شرمندگی ہو سکتی ہے- ملالہ دنیا کی مشہور ترین لڑکی ہے جو ابھی صرف سولہ سال کی ہے- اس کی بہادری اور سوچ سے لاکھوں لوگوں کو جذبہ ملا ہے- لیکن ابھی تک تو ہم صرف اس کی بہادری اور سوچ کو ہی دیکھ پائے ہیں کیونکہ پاکستان ایک ایسی جگہ بن چکا ہے جہاں کسی لڑکی پر اس لئے گولی چلائی جاتی ہے کہ وہ کہتی ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ملنا چاہئے-

یہ سب کچھ کافی مضحکہ خیز ہے اور یہ بات اس سے نفرت کرنے والے بھی جانتے ہیں اور باقی ساری دنیا بھی جو ملالے سے محبت کرتی ہے اچھی طرح جانتی ہے-

لیکن شرمندگی کو ہی اس کی وجہ نہیں کہا جاسکتا- ورنہ ٹی ٹی پی کے خلاف غصہ کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ اگر ملالۓ کے ساتھ ذلت آمیز سلوک اس لئے کیا جا رہا ہے کہ اسے نا دانستہ طور پراس بھیانک دہشت گردی کا شکار ہونا پڑا جس نے اس سرزمین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو پھر مجرموں کے لئے بھی ویسی ہی حقارت کا اظہار کیوں نہیں ہوتا؟

نہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں پشیمانی یا شرمندگی سے زیادہ غصہ ہے- ایک کم عمر لڑکی کے خلاف غصہ، جسے اس لئے گولی ماری گئی کہ اس نے لڑکیوں کے لئے تعلیم حاصل کرنے کا حق مانگا؟

یقیناْ کیا اب ایک عام پاکستانی کی یہی حیثیت نہیں رہ گئی ہے؟ سیدھا سادہ آسان --اور بعض لوگوں کے نزدیک مناسب-- جواب یہی ہے کہ ہاں، واقعی ہم ایسے ہی ہو گئے ہیں!

ایک وجہ تو یہ ہے کہ آسان جواب کے نتائج اتنے ہولناک ہیں کہ انھیں تسلیم کرنا مشکل ہے اور دوسرے یہ کہ آسان جوابات سے پیچیدہ سماجی سوجھ بوجھ  کی وضاحت ہونا قدرے مشکل ہے، آئیے ہم اس کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کریں-

آخرعام لوگ جو بظاہر نارمل نظرآتے ہیں اتنی زیادہ تعداد میں ملالہ کے خلاف کیوں ہیں؟

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایک عام پاکستانی ریاست سے بیحد غیر مطمئن ہے- اسے پاکستان سے محبت ہے، اسے پاکستان کی سرزمین سے محبت ہے، اسے تصور پاکستان پر پورا بھروسہ ہے، لیکن جب ریاست-سماج کی مساوات کے تعلق سے انتہائی بنیادی سوالات اٹھتے ہیں تو ---- آپ کی ریاست آپ کی ضروریات کس حد تک بہتر طور پر پورا کرتی ہے---- وہ اس سے بالکل مطمئن نہیں ہے-

اور اسے ہونا بھی نہیں چاہئیے- پاکستان ایک زوال پزیر ریاست ہے- ریاست کی یہ اہلیت کہ وہ عوام کی زندگیوں پر مثبت طور پر اثر انداز ہو یا پھر ایسا ماحول پیدا کرے جس میں وہ اپنی ترجیحات کے مطابق زندگی بسرکرسکیں، عرصہ ہوا ختم ہو چکی ہے-

ایک منٹ کے لئے طالبان کوبھول جائیے- ریاست سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرے گی لیکن  اس میں وہ سب سے زیادہ ناکام ثابت ہوچکی ہے-

پاس پڑوس اورگھروں کا بنیادی تحفظ؟ اس کا بوجھ شہریوں پر ڈال دیا گیا ہے، دیہاتوں اورشہروں دونوں ہی جگہ، اونچی اونچی دیواریں، مضبوط گیٹ اور اگر استعداد ہو تو ذاتی گارڈز-

تعلیم اورصحت؟ اس کو نجی شعبہ کے حوالہ کردیا گیا ہے، خواہ شہر ہوں یا دیہات، فیس لینے والے اسکول، اسکول کے بعد ٹیوشن، پرایئویٹ کلینک، مہنگی دوائیں-

انصاف؟ کہاں کا انصاف-

پانی؟ آپ کس برانڈ کا پانی پسند کرینگے؟

سیروتفریح یا کھیل؟ اپنی قریب ترین مال کا رخ کیجئے۔

پارک؟ سب سے پہلے تو زمین پر قبضہ کرنے والوں کی طرف دیکھئے-

پبلک ٹرانسپورٹ؟ پہیوں کے نیچے یا ریل کی پٹڑی؟ صفائی؟ خدا کا واسطہ۔ بجلی؟

بات صرف یہیں پر ختم ہوتی تو پھر بھی ٹھیک تھا- لیکن ایک عام پاکستانی کو اپنی ہر ضرورت کے لئے بازار کا رخ کرنا پڑتا ہے حالانکہ وہ ریاست کی ذمہ داری ہے، اسے تو ایک ایسی ریاست سے بھی خود کو بچانا ہے جواس کی اپنی زندگی کے درپے ہے-

اگر معاملہ چھوٹی عدالتوں یا پولیس سے ہو تو سیدھے سیدھے پیسے دینے پڑتے ہیں اور اگر کاروبار یا صنعتوں کا معاملہ ہو جو ماحول کو آلودہ کرتے ہیں تو بھی بالواسطہ پیسے دے کرہی کام ہوتا ہے-

پاکستان میں پاکستانی ہونا بھی ایک تکلیف دہ حقیقت ہے- اور تکلیف دہ اس لئے کہ ریاست زوال پذیر ہے-

ایک زوال پذیرریاست سے نہ تو کوئی محبت کرتا ہے نہ ہی اس کا وفادار ہوسکتا ہے۔ اگر اس کے قوانین وضوابط ایسا نظام قائم کرنے میں ناکام ہوجائیں جو بامعنی اور فائدہ مند ہو تو ایسی صورت میں ایک عام شہری کیوں اس نظام کا دفاع کرنا چاہے گا اگر وہ نظام خطرہ میں ہو؟

تجربہ کرتے کرتے چھیاسٹھ برس گزر گئے، ریاست --اس کا ڈھانچہ، نظام، اور قواعد و ضوابط-- ابھی تک زیر بحث ہیں کیونکہ ریاست اپنے عوام کو یقین دلانے میں ناکام ہو گئی ہے کہ صرف موجودہ ڈھانچہ، نظام اور قوانین ہی پاکستان کے لئے قابل عمل ہیں-

ہم سب ابھی تک ڈرائنگ بورڈ کے اطراف کھڑے ہیں اور اس ماڈل سے غیر مطمئن ہیں جو اس پر بنایا گیا ہے- اور اگر آپ ابھی تک ڈرائنگ بورڈ کے مرحلے پر ہی ہیں تو ہمیشہ یہ ڈر لگا رہے گا کہ کوئی ہاتھ میں چاک لئے بورڈ تک پہنچ جائے گا اور ایک ایسا ماڈل بنائے گا جو بالکل مختلف ہوگا-

اور یہاں طالبان داخل ہوتے ہیں-

کیا آپ کواس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ مذاکرات کا حامی بریگیڈ آخر اتنا خاموش کیوں ہے کہ طالبان کے ساتھ آخر کیا بات کرے؟ مثلاّ، یہ کہ ہماری کس پیشکش کے عوض وہ اپنے تشدد سے باز آئنگے؟

جواب خاصا واضح ہے: اسلام کے تعلق سے چند باتیں- بعض قوانین میں ردوبدل، عدالتی ضوابط میں چند ترامیم، ریاستی امور میں مذہب کا نمایاں عمل  دخل ---- اس میں آخر حرج ہی کیا ہے؟

مسئلہ یہی ہے کہ ریاست اپنی ایک شناخت بنانے میں ناکام ہو گئی ہے کیونکہ ابھی تک حقیقت سے دور رہی ہے- مذاکرات کئے جائیں، پھردوبارہ مذاکرات کئے جائیں، اس گومگو کی کیفیت نے، بار بار کی تبدیلیوں نے ایک متبادل راستہ کے امکا نات کھول دیئے ہیں، کسی اور نظام کا نظریہ-

ہو سکتا ہے لوگ طالبان کے تشدد سے نفرت کرتے ہوں، لیکن چند ہی لوگ ہونگے جو اصولی طور پر ریاست کے بارے میں طالبان کے بنیادی نظریہ سے اختلاف کرتے ہوں: مذہب کا اثر زیادہ ہوگا تو امن، سلامتی اور شائد خوشحالی بھی ملے گی-

لیکن ان سب باتوں کا ملالہ سے کیا تعلق؟ ایک نوجوان لڑکی سے جو ایک خوبصورت دل اور دماغ کی مالک ہے نفرت کس لئے؟

اس لئے کہ وہ پرانے ماڈل کی، ایک ایسی ریاست کی بات کرتی ہے جس کی جڑیں آفاقی اور جدید اصولوں میں پیوست ہیں جو بلا لحاظ مذہب سب کے ساتھ مساوی سلوک کرتی ہو- لیکن آجکل ہماری سرزمین میں ایک نئے نظریہ کی گونج سنائی دے رہی ہے-

طالبان کبھی بھی پاکستانی ریاست کے لئے نہ تو کوئی بڑا خطرہ رہے ہیں نہ ہو سکتے ہیں جیسا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا، لیکن اب یہ خیال ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے- اب اصل خطرہ طالبان کے مشن اور عوام کے درمیان موجود اس مشن پر مشترکہ یقین سے ہے-

بہتر ہو یا بدتر کوئی بھی ریاست اپنی پوری پوری آبادی کو نئے شہریوں سے نہیں بدل سکتی- لیکن ایک ریاست کم ازکم نظریاتی طور پراتنا تو کر سکتی ہے کہ اس آئیڈیالوجی کو پھیلانے والوں کا خاتمہ کرے جن کی وجہ سے اتنے زیادہ لوگ ایک کم عمر لڑکی سے نفرت کرنے لگے ہیں اور جس پر گولی اس لئے چلائی گئی کہ وہ لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کی بات کرتی تھی-

لیکن کیا ایک گرتی ہوئی ریاست ایسا کر سکتی ہے؟ طالبان زندہ باد! ملالہ مردہ باد!


 ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Toofan Oct 31, 2013 04:22pm
Yeh sub jaante hain ke Malala se log kyon nafrat karte hain. Jalan aur khauf. Awaam ko jalan ho rahi hai ke woh Malala jaisa bahadur ban nahin sakte apne aap ko dilkhosh karne ke lye Malala ko aisa waisa bolte hain. Awaam ko khauf bhee hai ke agar Malala ke raste par chal kar kuch kaha ya kiya, to apne maut ka warrant sign kiya, to ek baar phir, apne aap ko tasalee delane ke lye Malala ko drama baz wa ghaira bolte hain. Magar haqeeqat to yeh hai ke agar awaam main Malala jaisa himmat hota to TTP ki haath per kab se tooth chuke hote aur hum ko aaj bad amni ka saamna nahin karna parhta. Allah hum ko saheeh rasta aur Malala ko taufeeq ata farmaaye.
hafsasiddiqui Nov 01, 2013 01:42pm
jo amrica ka yar hai wo pakistan ka ghaddar hai