حکیم اللہ محسود، اے ایف پی فائل فوٹو۔۔

یہ دو لوگوں کی کہانی ہے، ایک ہوشیار جبکہ دوسرا بیوقوف، ایک غضبناک تھا دوسرا کمزور، ایک اب مر چکا ہے جبکہ دوسرا ابھی زندہ ہے-

چلیں، ہوشیار، غضبناک اور مردہ حکیم اللہ کی بات کرتے ہیں-

انکی موت بھی اتنی ہی متنازعہ تھی جتنی انکی زندگی، ڈرون؟ اب؟ کیوں---- آئیں ان سب سے پہلے جو کچھ ہوا اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں-

پچھلے ایک سال سے وہ کس طرح پاکستان کو چکر دیتا رہا ہے- ایک لمحے کو وہ امن چاہتا تھا، اگلے لمحے وہ بم دھماکے کر رہا ہوتا، پھر کبھی وہ آئین ختم کرنے کی بات کرتا اور پھر واپس امن کی مبہم سی پیشکش لے کر آجاتا- اور اس پورے عمل کے دوران وہ مکمل انچارج بنا رہا-

کیا یہ کوئی پرندہ ہے؟ ہوئی جہاز ہے؟ نہیں، یہ سپر- طالبان ہے !! حکیم اللہ-

دیکھیں حکیم اللہ نے کیا کیا- اس نے پہلے سے بے انتہا غیر مقبول پی پی پی اور اے این پی کو میدان سے نکال باہر کرکے الیکشن کا نقشہ بدل دیا-

وہ تحریک طالبان کو ایک بار پھر بام عروج پر لے آیا- منفی شہرت یا جسے دوسرے لفظوں میں سچائی بھی کہا جاتا ہے اس نے تحریک طالبان کو کافی نقصان پہنچایا تھا- ایک عام پاکستانی کے دل میں تحریک طالبان کے لئے ہمدردی کے جذبات ختم ہو چکے تھے- کوئی بھی بم دھماکے کا شکار نہیں ہونا چاہتا چاہے اسے مذہب سے کتنا ہی لگاو کیوں نہ ہو-

اور پھر حکیم اللہ نے ایک غیر معمولی لیکن معقول پیشکش کی: ہم آپ کے خلاف اپنی جنگ ختم کر دیں گے، بس توبہ کریں اور مذہب کو اسکی صحیح جگہ دیں، یعنی اصلی خالص مذہب، وہ نہیں جو آپ کا دوغلا آئین کہتا ہے- اب اس پر کوئی کیسے بحث کر سکتا ہے؟

اس نے اپنے بہترین دوست کو بھی ذلیل خوار کروایا- طالبان خان ہی وہ واحد شخص تھا جو بار بار یہی کہتا تھا کہ صرف بات چیت ہی عسکری دہشتگردی کا خاتمہ کر سکتی ہے- لیکن حکیم اللہ کے لئے یہ کافی نہیں تھا-

کوئی بہترین دوست ہو یا نہ ہو بھروسہ کسی پر نہیں کرنا- چناچہ حکیم اللہ نے طالبان خان کی گردن بھی مروڑنا شروع کر دی-

پی ٹی آئی کامیاب رہی، خیبر پختون خواہ کامیاب رہا، اور ٹی ٹی پی کی پراسرار شاخیں منظر عام پر آنے لگیں اور حملوں کی ذمہ داریاں قبول کرنے لگیں- خان پہلے سے بھی زیادہ پرزور ہو کر بات چیت کے حق میں دلیل دینے لگے-

خان کی سو ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی تھی کہ اگر بات چیت سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں تو پھر اسے سبوتاژ کرنے کی کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں-

یہ سب دیکھ کر حکیم اللہ ضرور دل ہی دل میں ہنستا ہوگا- اس نے سوچا ہوگا، یہ پاکستانی آسان  لوگ ہیں، انہیں ایک ٹھوکر مارو یہ امن کی باتیں کرنے لگیں گے، زور دار ٹھوکر مارو یہ امن کے لئے گڑگڑانے لگیں گے-

لیکن سب سے بڑھ کر یہ حکیم اللہ نے جارحیت پسندی کو نیا راستہ دکھایا، سیاسی جارحیت پسندی کا-

نمائشی، قاتل، سیاسی جانور، حکیم اللہ نے ایک جارحیت پسند ماسٹر مائنڈ کی نئی تعریف پیش کی- اس نے صرف خوف و دہشت کی فضا ہی قائم نہیں کی بلکہ اس نے ستایا، خوشامدیں کیں اور فریب بھی دیا-

جہاں اس کے ساتھی جارحیت پسند اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے بم دھماکوں سے آگے اور کچھ نہیں جانتے تھے، حکیم اللہ وہاں سے بہت آگے کی سوچتا تھا- جب آپ لوگوں کی سوچ توڑ مروڑ سکتے ہیں تو بم دھماکوں کی کیا ضرورت؟

لیکن اس مقصد کے لئے حکیم اللہ کو ایک پارٹنر کی ضرورت تھی-

یہاں داخل ہوتے ہیں حکیم اللہ کے سنہ دو ہزار تیرہ کے سیاسی ہمزاد ، طالبان خان-

خان کا مسئلہ یہ نہیں کہ وہ واحد شخص ہیں امن کے حوالے سے سنکی نظریات کے حامل ہیں- خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ واحد شخص ہیں جنہیں آپ نظر انداز نہیں کر سکتے-

اس لئے نہیں کہ خیبر پختون خواہ میں انکی حکومت ہے- نہ اس لئے کیوں کہ نیشنل اسمبلی میں ان کے پاس مٹھی بھر نشستیں ہیں- اور نا ہی اس لئے کہ ان کے پاس ووٹ ہیں- نہیں، آپ خان کو اس لئے نظر انداز نہیں کر سکتے کیوں کہ خان، نواز شریف کے گٹوں میں جا کر بیٹھ گۓ ہیں-

اور یہی بات اہم ہے-

یہ سچ ہے کہ نواز گورنمنٹ کو امن بات چیت بلانے کے اختیار ہے- سچ ہے کہ پی ایم ایل-این کو جارحیت پسندوں کی موجودگی سے کوئی مسئلہ نہیں- سچ ہے پی ایم ایل-این کے لئے پنجاب کی حفاظت اور سلامتی تمام چیزوں سے بڑھ کر ہے- یہ سب سچ ہے تو اس کا مطلب، مسلم لیگ( ن) بات چیت کے خیال کی مخالف نہیں ہے-

لیکن  نواز شریف کبھی بھی بات چیت کا دل سے خیر مقدم کرتے نظر نہیں آۓ- وہ بات چیت کے لئے کہتے تو ہیں لیکن ساتھ ہی آپ کو اس میں ایک ناگواری کا بھی احساس ہوگا- اس کی  دو وجوہات ہو سکتی ہیں- پہلی، میاں صاحب ضرور یہ سوچتے ہوں گے کہ تحریک طالبان غیر منظم اور گنوار ہیں، یہ پھٹیچر نوآموز مجھے کیا بتائیں گے کہ کیا کرنا ہے-

دوسری، کسی زمانے میں میاں صاحب خود ایک شوقین امیر المومنین رہ چکے ہیں- تحریک طالبان انہیں کیا بتاۓ گی کہ اسلام میں کیا ہے، کیا نہیں ہے-

لیکن پھر ادھر عمران خان بھی ہیں، جنہوں نے پنجاب میں میاں صاحب کا سیاسی تخت و تاج چھیننے کی کوشش کی تھی- پورا سال عمران خان نے نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) پر اتنی چوٹیں کیں کہ ایک وقت آیا جب مسلم لیگ (ن) والے چکرا کر رہ گۓ-

الیکشن سے پہلے وہ یہی شکایات کرتے نظر آۓ کہ آخر عمران خان زرداری یا اے این پی کے پیچھے کیوں نہیں جاتے- الیکشن کے بعد، مسلم لیگ(ن) پارلیمنٹ میں غیرمتوقع بھر پور کامیابی حاصل کرنے پر خوش ہونے کی بجاۓ پنجاب میں عمران خان کو شکست دینے پر زیادہ مسرور نظر آۓ-

ظاہر سی بات ہے، الیکشن کے بعد والے عمران خان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- انہوں نے اپنی برانڈ کی مقبولیت سے یہ ثابت کردیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی انتھک محنت سے تیار کیے گۓ ووٹرز کے لئے کافی کشش رکھتے ہیں- چناچہ اگر وہ کسی بات پر چیخ و پکار کرتے ہیں اور مستقل کرتے رہتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کو یہ دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ عوامی راۓ کی سوئی کس سمت کو مڑ رہی ہے- جو سیاسی داؤ پیچ میں کافی آگے کی چیز ہے-

کمال کی بات یہ ہے کہ خان صاحب کچھ اس طرح میاں صاحب کے گٹوں میں بیٹھ گۓ ہیں کہ مسلم لیگ (ن) والے ان کی فتنہ انگیز تقریروں سے باقاعدہ ڈرنے لگے ہیں، حتیٰ  وہ خان صاحب کو ان کے خبطی خیالات پر بھی چیلنج کرنے سے ڈرتے ہیں-

مسلم لیگ (ن) کو چھوڑیں وہ تو دائیں بازو والے موقع پرستوں سے بھری پڑی ہے، ذرا تصور کریں اگر نواز شریف کو خود تحریک انصاف اور اس کے لیڈر کی مخبوط الحواس باتوں کے کسی ایک احمقانہ نقطے کے خلاف بھی قدم اٹھا لیتے-

اپنے روایتی انداز میں ہیوی ویٹ سیاسی اور اچھی اسلامی شہرت کے ساتھ اگر یہ لوگوں فرماتے کہ یہ تحریک طالبان والے کافی بگڑے ہوۓ لوگ ہیں، حالانکہ ہم امن چاہتے ہیں لیکن انکی شرایط پر یہ ممکن نہیں----- تو کیا یہ بیان تحریک طالبان کے حوالے سے خان صاحب کے خیالات کی ہوا نہ نکال کر رکھ دیتا؟

یہ قدم بلکل درست ہوتا- لیکن میاں صاحب خاموش ہیں- کیوں کہ خان صاحب ان کے گٹوں میں بیٹھے ہوۓ ہیں-

حکیم اللہ اور عمران خان:  سنہ دو ہزار تیرہ کے پاکستان کی داستان- ممکن ہے اگلا سال میاں صاحب کا ہو، لیکن اس سے پہلے انہیں اپنا طلسم واپس لانا ہوگا-


ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں