فائل فوٹو --.

سن اُنیّسو نوّے کا سال پاکستان کی تاریخ کا وہ اہم موڑ ہے جہاں سے ایک کے بجائے کئی رستے نکلتے ہیں۔

اصغر خان کیس سیاست میں چالاکی سے پیسے کو استعمال کر کے کھیلے گئے کھیل کی حقیقت بیان کرتا ہے۔ یہ اس جھوٹ کا پردہ چاک کرتا ہے جس نے نوّے کی دہائی میں پاکستان کی سیاسی ریل گاڑی کو پٹڑی سے اتارا۔

لیکن اُنیّسو نوّے ہی وہ سال ہے جب یہاں اصلاحات کا آغاز ہوا۔ ہچکچاہٹ کا شکار اور سست رد عمل کے حامل اس ملک کو آگے چل کر عالمی سرمائے کے بہاؤ میں شامل ہونا تھا۔

ان برسوں میں ایسی نہایت اہم تبدیلیاں واقع ہوئیں، جن کے اثرات اب تک ہم پر نظر آتے ہیں۔ ان دنوں میں حکومتی آمدنی کا بڑا حصہ غیر ملکی تجارت پر عائد محصولات سے حاصل ہوتا تھا۔

اس کے ساتھ ہی آزاد تجارت، جو اس وقت دنیا بھر میں نیا معیار تھا، وہ بھی تبدیل ہو کر رہ گیا تھا۔

اُنیّسو اٹھاسی میں حکومت کی کُل آمدنی کا بیالس فیصد عالمی تجارت پر عائد محصولات سے حاصل کیا جارہا تھا۔

تو ایسے میں، سن اُنیّسو اٹھاسی سے لے کر سن اُنیّسو ترانوے کے وہ درمیانی سال نہایت اہم تھے جب اسٹرکچرل اصلاحات کے شروع کیے گئے عمل پر کام جاری تھا۔

اس دوران تجارت کے شعبے میں عائد محصولات کی شرح کو کم کیا گیا۔ یہ شرح سن اُنیّسو اٹھاسی میں دو سو پچیس فیصد تھی جسے سن اُنیّسو ترانوے میں کم کرکے نوّے فیصد پر لایا گیا۔

اس وقت کے تناظر میں محصولات کی شرح مزید کم ہو کر تیس سے پینتیس فیصد تک پر آنی تھی۔ واضح رہے کہ اس میں آٹو موبائیل کا شعبہ شامل نہیں تھا۔

ان برسوں کے دوران تیز رفتاری سے محصولات کی شرح میں کمی کا لازمی اثر حکومت کی آمدنی پر پڑا جس میں تیزی سے کمی دیکھی جارہی تھی۔

سن ساٹھ کی دہائی میں جب پاکستان دنیا کے ایسے ممالک کے کلب میں شامل تھا جو درآمدات کو اپنی صنعتی حکمتِ عملی کا متبادل سمجھتے تھے، تب یہاں درآمد پر عائد محصولات کی شرح بہت زیادہ اوپر تھی۔

یہ وہ وقت تھا جب ہم مینوفیکچرنگ کے شعبے میں کچھ ایسا کرنے کی تلاش میں تھے، جو خود کرسکتے تھے۔

ایسے میں غیر ملکی تجارت پر عائد بھاری محصولات کی شرح اسی حکمتِ عملی کا حصہ تھی تاکہ ری انویسٹمنٹ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہے۔

محبوب الحق کے الفاظ میں: 'ایسے سرمائے کو سزا دی جاتی تھی جو سرمایہ کاری کے بہاؤ سے نکلنا چاہتا تھا۔'

لیکن یہ صورتِ حال وزیرِ اعظم ممد خان جونیجو کے دور میں تیار کیے گئے چھٹے پنج سالہ ترقیاتی منصوبے میں بدل گئی۔ ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا تھا کہ جب حکومت نے معاشی ترقی کے لیے برآمدات پر مبنی حکمتِ عملی تیار کی ہو۔

آخر سن اُنیّسو اٹھاسی میں آئی ایم ایف کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ پروگرام پر دستخط کے لیے چھٹے پنج سالہ منصوبے کا رخ بدل گیا۔

یہ ضرورت مند ممالک کے لیے عالمی سرمائے کے بہاؤ میں شمولیت کے لیے ایک سہولت تھی، جس میں پاکستان بھی شامل ہوگیا تھا۔

اس بار محصولات پالیسی کی نظریں 'استعمال' پر تھیں۔ محصولات کا بھاری بوجھ اُن پر ڈال دیا گیا تھا جو صارف تھا۔ جو جتنا استعمال کرتا، اس پالیسی میں اس کا اتنا ہی کردار رہتا۔

سن اُنیّسو نواسی میں گھریلو صنعتی پیداوار پر عائد جنرل سیلز ٹیکس کو صرف ایک سال کے دوران پندرہ سے بڑھا کر تیس فیصد کردیا گیا۔ ساتھ ہی اسٹینڈرڈ کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ کو ختم کردیا گیا۔ اگرچہ اس میں سے بعض کو بعد میں بحال کردیا گیا۔

اآنیّسو اٹھاسی میں آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے نتیجے میں اس وقت حکومتی آمدنی میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا جب جامع جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ کی پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی تھی۔

اس ایڈجسٹمنٹ کا سب سے بڑا بوجھ بینطیر بھٹو صاحبہ کی پہلی حکومت پر پڑا۔

اُنیّسو ترانوے میں جاری کی گئی عالمی بنک کی ایک رپورٹ کا کہنا ہے کہ:

'حوصلہ افزا رجحان ابتدائی دو برسوں میں سامنے آیا۔۔۔ اس پروگرام سےمالی خسارہ کم ہوا جو اُنیّسو نواسی میں جی ڈی پی کا ساڑھے چھ فیصد تھا مگر بعد کے برسوں میں یہ استحکام برقرار نہ رہ سکا اور بجٹ کا مالی خسارہ ایک بار پھر بڑھ کر جی ڈی پی کا آٹھ اعشاریہ سات فیصد تک جا پہنچا۔

اُنیسو  اکیّانوے اور بیانوے کے مالی سالوں کے دوران یہ خسارہ بالتریب سات اعشاریہ پانچ فیصد تک رہا۔

حکومتی آمدنی کا بڑا حصہ دفاع اور قرضوں کی ادائیگی پر اٹھ جاتا تھا، اور ایسا اب بھی ہورہا ہے۔

سن اُنیّسو بیانوے کے مالی سال میں جی ڈی پی کا مجموعی پینتالیس فیصد اس مد میں صرف ہوا تھا۔ اُنیّسو اٹھاسی میں جب ایڈجسٹمنٹ پروگرام شروع ہوا تھا تب اخراجات کی یہ شرح سینتالیس فیصد تھی۔

ابتدا میں نظر آنے والی اس بہتری کا سہرا حکومت کی کریڈٹ پالیسی، نجکاری، ایکس چینج ریٹ میں دی گئی آزادی اور غیر ملکی کرنسی کے پاکستان میں بنک ڈپازٹ کی اجازت کے سر جاتا ہے۔

ان برسوں میں حکومت کے ترقیاتی اور معاشی نمو کے اقدامات اور حکمت عملیوں کے علاوہ بھی ایک اور اہم عنصر اس میں کارفرما ہے۔ وہ ہے سیاسی پس منظر جو معاشی ترقی کے پیچھے موجود عناصر کے حوالے سے اہم سیاق و سباق پیش کرتا ہے۔

ماسوائے بجٹ مالیاتی خسارہ کے، معاشی اصلاحات کے لیے کیے گئے زیادہ تر اقدامات کامیاب رہے۔ اُنیّسو اکیانوے اور بانوے کے دو سالوں کے دوران پیداواری شرح مستحکم رہی لیکن ان دو سالوں کے بعد اس میں عدم استحکام دیکھنے میں آیا۔

ماسوائے اُنیّسو بیانوے کے، پورے اصلاحاتی عمل کے دوران زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ عام طور قومی خزانے میں زرِ مبادلہ صرف تین ہفتوں کے درآمدی بلوں کی ادائیگی جتنا ہی رہتا تھا۔

لہٰذا ایسے میں یہ صورتِ حال خود ایک سوال کو جنم دیتی ہے۔

سوال اٹھتا ہے کہ خود کو گلوبلائزڈ معیشت سے منسلک کرنے کے لیے تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود، اصلاحات کا عمل حکومتی خزانے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں استحکام لانے میں کیوں ناکام ہوا۔

کیوں؟ اس کا ایک آسان جواب یہ ہوسکتا ہے کہ اصلاحاتی عمل میں کمی بیشی، سیاسی پشت پناہی میں کمی کو ظاہر کرتی ہے۔

اگرچہ پاکستان کی سیاسی حکومتیں ترقی کے لیے ضروری معاشی اصلاحات اور خود کو گلوبلائزیشن سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اقدامات کرتی رہی ہیں مگر پس پردہ طاقت ورعناصر کی پالیسیوں کے باعث ملک کی تنہائی میں مزید اضافہ ہوتا رہا ہے۔

تناؤ کی اس کیفیت میں، سول حکومتیں کھلے پن اور عالمی دنیا سے ہم آہنگ اقدامات کے لیے کام کرتی رہی ہیں تو دوسری طرف فوجی قیادت کی خواہش رہی کہ  کسی بھی قیمت پر ایسی عالمی حمایت حاصل کی جاسکے جس کی بنا پر خطّے میں طاقت ور بن کر ابھرا جاسکے۔

اس وقت جب پہلی بار بڑے پیمانے پر معاشی اصلاحات کا نفاذ کیا جارہا تھا، تب ہمیں عالمی معاشی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس صورتِ حال نے عسکریت پسندی کو پلیٹ فارم مہیا کیا اور پھر اُنیّسو نوّے کی دہائی میں ہی ہم ہندوستان کے ساتھ بھرپور جنگ کے قریب تک پہنچ گئے تھے۔

جناب نواز شریف خود یہ کہہ چکے ہیں کہ جنرل مرزا اسلم بیگ اور اسد درأانی نے ان سے بات کی تھی کہ ہیروئین کی اسمگلنگ کے ذریعے اُن خفیہ آپریشنوں کے لیے رقم کا بندوبست ہوسکتا ہے، جو وہ کرنا چاہتے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب اس طرح کی گندی سرگرمیوں کے لیے انہیں غیر ملکی سرمایہ مہیا نہیں تھا۔ وہ جنونی اس طرح کی تجارت سے  رقم حاصل کرکے اپنے مذموم مقاصد پر مبنی کارروائیاں کرنا چاہتے تھے۔

یہ وہ تاریخ ہے جس کا تقاضا ہے کہ اس سے لوگوں کو آگاہ جائے۔ نام نہاد جمہوریت کے حوالے سے جن لوگوں کے نام سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لیے ہیں، وہ تاریخ کے مجرم ہے۔

اسی طرح نام نہاد معیشت بھی ہے، جس کی قیمت ملک نے اُس وقت اپنی بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کی صورت ادا کی، جب اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ خود کو بدلتی معاشی دنیا سے ہم آہنگ کرکے کھلے پن پر مبنی پالیسیوں کو اختیار کیا جاتا۔

یہ سچ اب تک ان کہی کہانی ہے اور ہم ماضی کے ان اقدامات کی قیمت آنے والی کئی نسلوں تک چکاتے رہیں۔


کراچی میں مقیم مضمون نگار صحافی ہیں اور معیشت و تجارت کے معاملات پر لکھتے ہیں۔

انگریزی سے ترجمہ: مختارآزاد

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں