supreme-court-new-670x350
اسلام آباد میں واقع سپریم کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظر۔—فائل فوٹو

ایفیڈرین کیس میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے چھوٹے بیٹے کا ممکنہ کردار سامنے آنے کے بعد اس کیس کو ملنے والی سیاسی شہ سرخیوں کے نتیجے میں ایک انتہائی اہم مسئلہ نظر انداز ہو رہا ہے۔

ایفیڈرین ایک ایسا کیمیکل ہے جو مرکزی اعصابی نظام کو متحرک کرتا ہے اور اس کا استعمال عموما سردی،نزلہ ، زکام جیسی بیماریوں کے علاج کے طور پر ہوتا ہے۔

تاہم دوا ساز صنعت میں استعمال ہونے والے دوسرے کیمیکلز کی طرح اس کا بھی غلط استعمال ممکن ہے۔

ایفیڈرین کیمیکل جب کثیر مقدار میں لیا جائے تو اس کے اثرات نشہ آور ہوتے ہیں۔ اس کیمیکل کو عرف عام میں غریب کا نشہ بھی کہتے ہیں۔

ایفیڈرین کیمیکل کی نقل و حمل کی نگرانی بین الااقوامی نارکوٹکس کنٹرول بورڈ کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس بورڈ نے سن 11-2010 کیلئے پاکستان کا کوٹہ بائیس ہزار کلوگرام مقرر کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں چلنے والے اس کیس کے ذریعے کئی سوالات کے جواب تلاش کئے جار ہے ہیں جن  میں ان ذمہ داروں کا تعین ہے جنہوں نے بغیر کسی ٹھوس وجہ کے2010 میں مقررہ حد سے زیادہ یعنی اکتیس ہزار کلو گرام کا کوٹہ مقرر کیا۔

اس کے علاوہ دو مخصوص دواساز اداروں کو دوسری کمپنیوں کے مقابلے میں کیمیکل کی بھاری مقدار برامد کیلئے بہت زیادہ حد مقرر کرنا، ایفی ڈرین کی مقا می مارکیٹوں کو غیر قانونی ترسیل اورمبینہ طور پر اس کی سرحد پاررسد شامل ہیں۔

بروز منگل انسداد منشیات فورس (اے این ایف ) کے ریجنل ڈائریکٹر بریگیڈئر فہیم احمد خان نے عدالت عظمی کے بنچ کو سماعت کے دوران مطلع کیا کہ پچھلے سال ایران سے 6400 کلو گرام، عراق سے750

جبکہ کراچی سے 200 کلو گرام ایفیڈرین ضبط کی گئی۔

جس پر چیف جسٹس افتخا محمد چوہدری نے ڈرگ کے پاکستان سے ممکنہ طور پر سرحد پار اسمکلنگ پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے معاملے کو پاکستان کی عزت کا مسئلہ قرار دیا ۔

۔ہمارے خیال میں معاملہ چیف جسٹس کی تشویش سے کہیں زیادہ گمبھیر ہے۔

اے این ایف کے مطابق ٓائی این سی بی کی ایک ٹیم معاملے کی جانچ کرنے کیلئے جولائی میں پاکستان آئے گی۔

پاکستان کیلئے اب ضروری ہو چکا ہے کہ وہ اپنے معمالات کو ٹھیک کرے۔ سب سے پہلے اس اسکینڈل میں ملوث عناصر کو بغیر کسی دباو کے قانون کے کٹھرے میں کھڑا کیا جائے۔

اس سے بھی اہم یہ ہے کہ ہم ڈرگس سے متعلقہ قوانین کو مزید سخت کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایسے کنٹرولڈ کیمیکل اسمگل نہ ہوں۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد مرکزی ڈرگ اتھارٹی کو تحلیل کر دیا گیا تھا۔

اس سال فروری میں پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں دل کے امراض سے متعلق خراب ادویات  کے استعمال سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد سپریم کورٹ نے مرکزی اتھارٹی کے قیام کی ہدایات جاری کی تھی جس کے بعد ڈرگ ریگولیٹری ایجنسی آرڈینینس 2012 پاس ہوا ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سسٹم اپنے کام کرنے کی رفتار کو بڑھائے تاکہ ملک میں اس قسم کے مزید واقعات کی روک تھام ہو سکے۔ڈان اداریہ

تبصرے (0) بند ہیں