فرطِ جذبات سے مغلوب محمد مرسی کے حامی جبکہ عقب میں مرسی کی تصویر نمایاں ہے۔ رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو --.

ناممکن ہے کہ ہم محمد مرسی سے متاثر نہ ہوں جو پہلے تو تیزی سے صلح کار بنے اور داد و تحسین حاصل کی اور پھر فرعون بننے کی کوشش میں اپنی جگ ہنسائی کا سامان کیا.

ایک ہفتہ پہلے مصر کے صدر پر اقوام عالم کی جانب سے تحسین و آفریں کے ڈونگرے برسائے جاتے رہے تھے جس میں اسرائیل اور امریکہ کی قیادت بھی برابر کی شریک تھی، وجہ یہ تھی کہ انہوں نے غزہ میں عارضی صلح کرانے میں کلیدی کردارادا کیا تھا-

لیکن ایک دن بعد ہی اندرون ملک انہوں نے اس درجہ کی ضرب لگائی کہ بہت سوں نے یہی سمجھا کہ وہ اقتدارکوغصب کرنا چاہتے ہیں- خاص طور پر ان کی یہ کوشش کہ جو بھی قانون وہ جاری کریں عدلیہ اس پر نظرنہ  ڈالے اور اسلام پسند قانون ساز اسمبلی کوقانونی چارہ جوئی سے استثنیٰ حاصل رہے-

یہ بات غیرواضح ہے کہ ان دونوں واقعات کا بیک وقت رونما ہونا محض اتفاقی تھا، عین ممکن ہے کہ اس فرمان کو جاری کرنے میں التوا کی وجہ غزہ کی خون ریزی تھی، اور ایک مرتبہ جب یہ خطرہ ٹل گیا تو مرسی نے فورا اپنے فرمان پر عمل کرنے کی ٹھان لی- گو کہ اس وقت بھی یہ بات واضح تھی کہ ان کے بہت سے مخالفین یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ اندرون ملک کوئی نئی راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جبکہ بیرون ملک سے تحسین آمیز بیانات کا سلسلہ جاری تھا -

مرسی اور ان کی حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ اقدامات عارضی نوعیت کے ہیں اور جب آئین سازی کا کام مکمل ہو جائیگا تو ریفرینڈم کے ذریعہ اس کی توثیق ہو جائیگی اور پھر دو ماہ کے اندر اندر پارلیمانی انتخابات منعقد ہونگے تو ان اقدامات کا قانونی جواز خود بخود ختم ہو جائیگا- اور اس تناظر میں کہ عدلیہ کے بہت سے ججوں کا تعلق پرانی حکومت سے ہے تو ان کے وجود کو بلا پس و پیش تسلیم نہیں کیا جا سکتا-

تاہم اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ بہت سے مصریوں کے لئے انکا یہ قدم باعث تشویش تھا کیونکہ یہ اقتدار کی اس مرکزیت کے مماثل تھا جس کے خلاف انہوں نے تقریبا دو سال پہلے بغاوت کی تھی- علاوہ ازیں، یہ مرسی کی غیر دانشمندی ہوگی اگر وہ اس حقیقت سے آنکھیں چرائیں کہ انھیں اقتدار کی کرسی کم اکثریت سے ملی تھی-

پچھلے پیر انھوں نے ناراض عدلیہ کے نمائندوں سے مذاکرات کئے- جج صاحبان مرسی کی یقیں دہانیوں سے مطمئن ہوئے ہوں یا نہیں، جمہوری مصر کے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک عوام کے رد عمل پر ہے-

اور اس کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ معاشی صورت حال میں نمایاں بہتری رونما ہو، لیکن فی الحال اس کے امکانات نظر نہیں آتے- مرسی کے فرمان کے جاری ہونے کے بعد مصر کا اسٹاک مارکٹ جس تیزی سے نیچے گر گیا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ لوگوں کے یقین واعتماد میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے- بیروزگاری کی شرح بدستور بلند ہے- دریں اثناء، قانون ساز اسمبلی کو ان لوگوں کے واک آوٹ کا سامنا ہے جو اسکے اسلام پسند رجحانات کی بنا پر مایوسی کا شکار ہیں-

مشرق وسطیٰ کے سیاسی خدوخال متعین کرنے میں مصر کے مستقبل کا جو کردار ہوگا اسکی اہمیت کو گھٹایا نہیں جا سکتا- بہرحال، اگرچہ اس کے امکانات غیر یقینی نظر آتے ہیں تاہم، اس سلسلے میں غیر محتاط رویہ اختیار کرنا قبل از وقت ہوگا-

غزہ کا تقابلی جائزہ لینا مشکل ہے- مصر کی جانب سے جنگ بندی کی کوششوں کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس دونوں ہی فتح کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کے برعکس دونوں ہی ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں کہ حالیہ جھڑپیں فرق مخالف کی جانب سے شروع کی گئیں-

ڈیوڈ بمقابلہ گولائتھ کی نوعیت کی اس جھڑپ کے بارے میں کبھی کوئی شبہ نہیں رہا اور سلطنت روما کی طرز کی اس جدید ریاست نے یہ یقیں دہانی کراتے ہوئے کبھی کوئی خلش محسوس نہیں کی کہ اس کی تمام تر وفاداریاں گولائتھ کے ساتھ ہیں-

لیکن یہ امر قابل غور ہے کہ تشدد ختم کرنے کی بین الا قوامی کوششیں چار سال قبل کے مقابلے میں جیسا کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے موقع پر ہوا تھا، زیادہ سرعت کے ساتھ کی گئیں- اس وقت بش اور بلیئر کی حکومتوں نے اس وقت تک صلح کی بات نہیں کی تھی جب تک کہ اسرائیل نے "اپنے مقاصد" حاصل نہ کر لئے، اس وقت ایک ہزار چار سو فلسطینی لقمۂ اجل بنے تھے، اور منتخب صدر بارک اوباما نے بھی چپ سادھے رکھی جس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیلی-فلسطینی جھگڑے کی جانب ان کا رویہ بعید از قیاس ہے-

اس بار ہلیری کلنٹن کو فورا مصر اور اسرائیل بھیجا گیا اور اوباما نے بنجمن نیتن یاہو کو آمادہ کیا کہ وہ مرسی کی تجویز قبول کرلیں-

اسرائیلی اورامریکی قیادت کے مابین اشاروں کنایوں میں دوستی کا اظہار کوئی خاص اہمیت کا حامل نہیں کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ ذاتی سطح پر نیتن یاہو اور اوباما ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے-

اوباما اور کلنٹن شازو نادر ہی کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ کوئی بھی قوم اس بات کو برداشت نہیں کر سکتی کہ اس پر میزائلز پھینکے جائیں جس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ کوئی بھی ملک ان حالات میں جوابی کارروائی کرنے میں پس و پیش نہیں کریگا- نہ تو فلسطینی کوئی قوم ہیں اور نہ ہی غزہ کی پٹی کوئی ملک یا کم از کم اسکا کوئی حصّہ۔ بد قسمتی سے یوں لگتا ہے کہ حالت بدستور ایسے ہی رہینگے۔ کلنٹن  وہ واحد شخصیت تھیں جو فلسطینی اتھارٹی کے قائد محمود عباس کو قابل توجہ سمجھتسمجھتی تھیں اور وہ بھی اس لئے کہ محمود عباس اقوام متحدہ کی ذیلی رکنیت کے مطالبے سے دستبردار ہو جائیں-

عباس کی ساکھ میں خاصی کمی ہوئی ہے اور جو کچھ بھی باقی ہے وہ بھی اس صورت میں جاتی رہیگی اگر وہ کلنٹن کے مشورے پر عمل کریں- اس کا مطلب یہ نہیں کہ اقوام متحدہ کے ووٹ سے عملا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے البتہ انہیں وقتی طور پر موقع ملیگا کہ وہ امن معاہدے میں اپنا حصہ بھی طلب کریں، جو ابھی تک نہ تو اسرائیل اور نہ ہی امریکا کی جانب سے ملتا محسوس ہورہا ہے گرچہ انہوں نے ان کی خواہشات کو بجا لانے کی پوری پوری کوشش کی ہے.

ان حالات میں، یہ امر حیران کن نہیں کہ مقبوضہ ویسٹ بینک میں رہنے والے بہت سے فلسطینی الفتح کے مقابلے میں حماس سے زیادہ متاثر ہیں- کیونکہ، بہرحال انکا مشاہدہ یہی ہے کہ جنگجویانہ رویہ کے نتیجے میں مذاکرات ہو سکتے ہیں اور مراعات حاصل کی جاسکتی ہیں- اس کے برعکس امریکی، اسرائیلی مطالبات کے سامنے سر جھکانے کا مطلب ہے مزید ذلت۔ حالیہ برسوں میں، جبکہ دو-ریاستی حل کے امکانات گھٹتے جا رہے ہیں (جسکی وجہ مقبوضہ علاقے میں اسرائیل کی پھیلتی ہوئی بستیاں ہیں جبکہ اس غیر قانونی کارروائی پر بین الا قوامی سطح پر باز پرس نہیں ہوتی) ایک ریاستی حل کا مطا لبہ زور پکڑتا جارہاہے۔

نہ تو یہ ممکن ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے- حالات کو جوں کا توں برقرار رکھنے کی باتیں خواہ کتنی ہی نامعقول کیوں نہ محسوس ہوں، لیکن یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ حالات جلد ہی بدل جائینگے-

دریں اثنا مصر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ غزہ میں صلح کی شرایط پر عمل درآمد کی نگرانی کرے- چیف انسپکٹر مرسی یہ سفارتی رول ادا کر پائینگے یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ خود اپنے ملک میں آمرانہ رویہ اختیار کئے بغیر اپنے اختیارات برقرار رکھنے میں کامیاب ہونگے یا نہیں -

تبصرے (0) بند ہیں