فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

آپ کسی ایک حکومت کے معاشی ٹریک ریکارڈ اور اس کی کارکردگی کا موازنہ دوسری حکومت کے ریکارڈ سے کس طرح کرینگے؟

مثلا اگر آپ اس بات کا تعین کرنا چاہیں کہ آیا موجودہ حکومت کی معاشی ترقی کا ریکارڈ سابقہ حکومت سے بہتر رہا ہے یا نہیں تو پھر آپ کا طریقہء کا ر کیا ہوگا؟

اسکا ایک آسان طریقہ تو یہ ہے کہ آپ کسی ایک معاشی اشاریے کا انتخاب کرلیں، مثا ل کے طور پر جیسے ترقی کی شرح اور یہ دلیل پیش کریں کہ جس کی شرح ترقی اعلیٰ ترین ہوگی وہ مقابلہ جیت جائیگا- میں نے دیکھا ہے کہ اس قسم کے مقابلے کیلئے لوگ اور چیزوں کے علاوہ سٹاک مارکیٹ، شرح ترقی، ریونیو کی وصولیابی، مالیاتی خسارہ یا زر خارجہ کے ذخائر کو اشاریوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں-

لیکن ایسے لوگ جو باقاعدگی سے ان اشاریوں کو استعمال کرتے ہیں وہ آپ کو بتائینگے کہ اس قسم کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں- پاکستان جیسے ملک کی معیشت جس کی ترقی کا بھاری انحصار غیر ملکی ذرائع آمدنی پر ہے تو جب بھی اس میں نمایاں کمی واقع ہوگی ترقی کی رفتار بھی سست ہو جائیگی- لیکن اگر ملک کسی جغرافیائی-استراتیجی (جیو اسٹریٹیجی) صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں آجائے تو پھر اسکی معیشت بھی ازسرنو پھلنے پھولنے لگے گی-

دوسرے یہ کہ، ملکی پالیسیوں کی بنیاد پر ترقی کی شرح کو بڑھنے میں چند سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے- پاکستان جیسے ملک میں جہاں کوئی بھی حکومت چند سال سے زیادہ اقتدار میں نہیں رہی اس لئے بمشکل ہی کہا جاسکتا ہے کہ شرح ترقی میں اضافے کی وجہ حکومت کی پالیسیاں تھیں-

چنانچہ مشرف کے دور حکومت میں جو لگ بھگ ایک دہائی تک جاری رہا اپنے اقتدار کے چند ابتدائی برسوں میں یعنی 1999 سے لیکر 2002 تک ترقی کی رفتار انتہائی کم تھی- اور یہ سب کچھ ان اقدامات کے باوجود ہوا جو مالیاتی شعبہ کو سدھارنے کیلئے خاصی مستعدی سے کیےگئے تھے نیز چند ایسی پالیسیوں کو بھی اپنایا گیا تھا جس کی وجہ سے کم از کم ابتدائی دنوں میں گزشتہ دہائی کی کمزوریوں پر قابو پانے میں مدد ملی تھی- لیکن شرح ترقی میں اضافہ اسی وقت ہوا جبکہ بیرون ملک سے آنے والی آمدنی میں اضافہ ہوا جو 2002 کے بعد سے شروع ہوا-

زرخارجہ میں جو غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا اس کی بہت سی شکلیں تھیں مثلا براہ راست امداد، آئی ایم ایف کی طرف سے دی جانے والی مراعات، انتہائی سازگار شرایط پرقرضوں کی ادائیگی کا نیا جدول اورمنڈیوں تک بڑھتی ہوئی رسائی- بلاشبہ، ترقی کی یہ تیزرفتاری صرف اس وقت تک جاری رہی جب تک امریکہ یہ محسوس کرتا رہا کہ یہ بڑی حد تک دہشت گردی کی جنگ میں اس کی ضروریات کے عین مطابق ہے- جیسے ہی اس غیر معمولی ترقی کے سوتے خشک ہوئے ترقی کی رفتار میں بھی تیزی سے کمی واقع ہوئی-

چنانچہ، کیا ہم صاف صاف طور پریہ کہہ سکتے ہیں کہ مشرف کے دور حکومت کی بہتر کارکردگی ملکی پالیسیوں کا نتیجہ تھی یا یہ معیشت کو بہتر طورپر چلانے کا نتیجہ تھی؟ بالکل نہیں- یہ پانی کا ایسا بلبلہ تھا جو کچھ ہی عرصہ میں پھٹ پڑا، یعنی اس وقت تک جب تک زرخارجہ ملتا رہا- یہ اشرافیہ کیلئے عیاشی کے دن تھے جنہوں نے اس فیاضانہ بخشش سے خوب خوب فائدہ اٹھایا-

تو کیا یہ بات منصفانہ ہوگی کہ ہم مشرف دور حکومت کی بھاری معاشی ترقی کی کہانی کا مقابلہ ان سے پہلے کی جمہوری حکومت سے کریں؟ قطعی نہیں، تاوقتیکہ یہ مقابلہ صرف 2002 تک محدود رہے یعنی معاشی بونینزا سے پہلے اور ایسی صورت میں فوجی حکومت کی کارکردگی سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں بہتر دکھائی نہیں دیتی-

دوسرا مسئلہ جو ترقی کی رفتار کا مقابلہ کرتے وقت پیش آتا ہے وہ ہے اسکی بنیاد جو ملک میں بنائی جانے والی پالیسیوں کا نتیجہ ہو- کسی بھی پالیسی کا نتیجہ فی الفور برآمد نہیں ہوتا- اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں حکومتوں کی زندگی چند سال تک محدود رہی ہے یہ کہنا مشکل ہے کہ بیج کس نے بوئے اورفصل کس نے کاٹی-

مثال کے طور پر نوازشریف کی حکومت نے اپنے دوسرے دورحکومت میں توانائی کی نجی پالیسی کے ثمرات سے فایدہ اٹھایا اور اسے فراوانی سے بجلی کی قوت ملتی رہی- لیکن اسی طرح بینظیر کا دوسرا دور حکومت بھی توانائی کی نجی پالیسی کے ثمرات سے فیضیاب ہوا- جوکہ حقیقتا 1988 میں بنائی گئی تھی-

اسی طرح زرخارجہ کے ذخائرکا معاملہ بھی ہے- یہ ذخائر بھی ہمارے قومی خزانے میں آندھی کی طرح آتے اور جاتے رہے اور یہ استعارہ اتنا غلط بھی نہیں! کیونکہ 1996 میں یہ ذخائر انتہا درجے تک گھٹ گئے تھے اورنوازشریف حکومت کے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے نتیجے میں ان میں بہتری آئی حالانکہ دونوں حکومتیں ایک دوسرے سے سخت نالاں تھیں اور بدلہ کا کوئی موقع نہیں جانے دینا چاہتی تھیں-

لیکن جیسے ہی مدد پہنچی، ساتھ ہی پابندیوں کی تلوار بھی لٹکائی گئی- مئی 1998 کے بعد سے حکومت کی کوئی معاشی پالیسی نہیں تھی بلکہ روز روز کی بنیاد پر بحران سے نمٹا جا رہا تھا-

نوازشریف کی حکومت نے ان پابندیوں کو خود دعوت نہیں دی تھی اور نہ ہی اس نے عدم تحفظ کے ایسے شدید حالات پیدا کئے تھے کہ معیشت کیلئے پابندیوں کا بوجھ برداشت کرنا اس درجہ مشکل ہوگیا تھا- اسکے سامنے اور کوئی چارہ نہ تھا ما سوا اسکے کہ وہ اس تباہ کن صورتحال کا مقابلہ کرتی- اور جب یہ حکومت اپنی درمیانی مدّت میں تھی تو اس بحران کی گہرائی سے کارگل کا سانحہ وارد ہوا اور ان کی حکومت کے گرد پھندا اور کس دیا گیا-

ان حالات میں ترقی کا متاثر ہونا ناگزیر تھا- معیشت کی چھڑی خواہ کتنی ہی طلسماتی کیوں نہ ہو اس صورت حال کو تبدیل کرنا مشکل تھا-

پاکستانی معیشت کا بھا ری انحصار زرخارجہ کے ذخائر پر ہے اور اسے پابندیوں کی وجہ سے انتہائی دشوارکن حالات سے گزرنا پڑا- مشرف اس نتیجے پر پہنچے تھے، کیونکہ سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کیلئے جو پالیسیاں بنائی گئی تھیں اور مالیاتی توازن میں تھوڑے بہت ردوبدل سے ترقی کی رفتار میں اضافہ رک چکا تھا اور سرمایہ کاروں نے فریب میں آنے سے انکار کر دیا تھا-

ترقی میں اضافہ اسی وقت ہوا جبکہ ہمارے دوستوں نے ایک بار پھر ہمیں فیاضی دکھائی- جس قسم کی اور جس معیار کی ترقی ہوئی اسکا ذکر پھر کبھی اگلے کالم میں کیا جائیگا- لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ترقی کے اس بونینزا کی مثالیں صرف فوجی دورحکومت میں ہی نظرآتی ہیں، جسکی وجہ سے ان کے اقتدار کو سنبھالا ملتا ہے اور اس غلط بیانی کو قوت ملتی ہے جسے یہ حکومتیں قبول عام دینا چاہتی ہیں کہ ان کی کارکردگی سویلین حکومتوں کے مقابلے میں بہتر تھی-

حقیقت تو یہ ہے کہ جب معاشی کارکردگی کا سوال اتا ہے تو سبھی حکومتوں کا حال کم و بیش ایک جیسا رہا ہے- ان سب کی نظریں بیرونی عناصر کی پشت پناہی پر ہوتی ہیں اور جب یہ عناصر ان کے ہاتھ لگ جائیں تو ان کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور وہ کسی سپاہی کی چال چلتے ہوئے غیر ملکی امداد کے ثمرات کو آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں- لیکن اگر یہ غیر ملکی عناصر ان کے ہاتھ نہ لگیں تو پھر وہ اکٹھے ہوکر بسورتے رہتے ہیں تاوقتیکہ ان کیلئے ایک بار پھر آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا ضروری نہ ہو جائے-

جہاں تک معاشی حکمت عملی کا تعلق ہے تو ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی معیشت کی خطرناک بیماریوں کی کوئی دوا تلاش نہ کر سکے- یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی درپیش بحران کے سامنے بیٹھی بسورتی رہیگی اور ایک بار پھر آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹائیگی کیونکہ ہم نے اپنے لئے یہی راستہ طے کر رکھا ہے-


کراچی میں مقیم مضمون نگار صحافی ہیں اور معیشت و تجارت کے معاملات پر لکھتے ہیں۔

ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں