صدر آصف علی زرداری ۔ رائٹرز تصویر
صدر آصف علی زرداری ۔ رائٹرز تصویر

جنہوں نے یہ سارا مضحکہ خیز کھیل رچایا، کیا وہ واقعی اسے اسلام آباد میں یوں بے نقاب کرنا چاہتے تھے؟ اسے سمجھنا چاہیے۔

اسلام آباد میں رچائے جانے والے اس تھیٹر کے پیچھے پوشیدہ مذموم مقاصد کی حقیقت سمجھنا ہے تو شطرنج کی بساط دیکھیں، پورے کھیل میں پیادہ صرف ایک مہرہ ہی رہتا ہے۔ پیادہ، شطرنج کا سب سب سے زیادہ پیچیدہ مہرہ ہوتا ہے۔

بساط پر دوسرے مہروں کو اپنی چال میں بڑھنے کے لیے حدود کی پابندیوں کا سامنا ہوتا ہے مگر پیادہ میں یہ خاصیت ہے کہ وہ رکاوٹوں سے آزاد رہتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ بساط پر پیادہ کے مہروں کی تعداد دوسرے مہروں کی نسبت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

وہ بڑے مہروں کے مقابلے میں زیادہ اہم چال چل جاتا ہے۔ وہ بادشاہ کو بچاتا ہے اور مخالف مہروں کا راستا روکنے کے لیے ان کے سامنے رکاوٹ بن سکتا ہے۔

جب پیادہ اپنی چالیں چلتا ہوا بساط کے اختتام تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ ملکہ میں بدل جاتا ہے۔ ملکہ جو بساط کا مضبوط ترین مہرہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد کھیل لگ بھگ ختم ہوجاتا ہے تاہم پھر بھی بعض مخالف مہرے اپنی بحالی کی جستجو میں سرگرداں رہتے ہیں۔

گذشتہ کئی دہائیوں سے لے کر آج تک، سویلین سیاستدان پاکستان کی سیاسی شطرنج پر کم و بیش پیادے کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کا کام ہی یہی ہے کہ وہ بادشاہوں کی غلط حکمت عملیوں کے نتیجے میں پیدا شدہ حالات کا فائدہ اٹھا کر کچھ حاصل کرنے کی جستجو میں لگے رہیں۔

ہیرا پھیری کی قابلیت سے وہ شطرنج کے دوسروں مہروں کو ان کی حد تک محدود کردیتے ہیں۔ یہ اپنے وجود سے اپنے بادشاہ کی حامی فوج کا تحفظ کرتے ہیں اور مخالف قوت کا راستا روکتے ہیں۔

جب سے پاکستان کی سیاسی شطرنج پر یہ کھیل کھیلا جارہا ہے، اب پہلی بار پاکستانی بساط کے پیادے آگے بڑھنے اور اپنا سفر مکمل کرتے ہوئے بساط کے اختتامی خانوں تک پہنچے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اب اگر صدر زرداری فنش لائن عبور کرتے ہوئے بورڈ کے اختتامی سِرے تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ نہ صرف طاقت ور ترین مہرے میں بدل جائیں گے بلکہ اپنی چالوں میں توسیع سے، وہ دوسرے مہروں کی ہیرا پھیری والی چالیں بھی روکنے کے لیے زیادہ گنجائش حاصل کرپائیں گے۔

لیکن ان کا یہ سفر اتنا آسان نہیں ہوگا: حقیقت می ایک پیادے کا سفر آسان نہیں ہوتا ہے۔ اسے بہت لمبا راستا طے کرنا پڑتا ہے، آگے بڑھتے ہوئے ساتھی مہروں کی چالوں پر نظر رکھ کر، خود کو ان سے بچاتے ہوئے آگے بڑھنا پڑتا ہے۔

پیادہ یہ دیکھتا ہوا آگے بڑھتا ہے کہ اس سفر میں اس کے کتنی ساتھی اپنی جانیں نچھاور کرچکے ہوتے ہیں۔۔۔ بینظیر بھٹو، سلمان تاثیر، شہباز بھٹی۔

اسے شدید مشکل لمحوں میں اپنے بادشاہ کو بھی بچانا ہوتا ہے۔۔۔ سوات، ایبٹ آباد ممبئی۔ اسے مخالف مہروں کا راستا روک کر باشادہ کی مدد پر آمادہ ہونا پڑتا ہے۔۔۔ نواز شریف بادشاہ کی مرضی پر آمادہ نہ ہوئے اور مہرے توڑ دیے گئے۔

اور اب آج، جب وہ دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ کھیل میں ایسے مہرہ تھے کہ جن کے چلے جانے پر کوئی دوسرا ان کی جگہ لینے کو تیار ہوتا ہے۔

ایسے میں باشاہ سے رجوع ہوتا ہے کہ وہ اس مرحلے پر مہرے تقسیم کرنا چاہتے ہیں؟

تو اگر ایسے میں کوئی مہرہ اپنی چال چلتا ہوا آگے بڑھنے میں ناکام رہے تو وہ پِٹ جاتا ہے اور یوں اس کا کھیل ختم لیکن اگر وہ منزل پر پہنچننے میں کامیاب ہوجائے تو اس کی قوت بڑھ جاستی ہے اور اس کی طاقت اسے مزید کھل کر کھیلنے کا موقع بخشتی ہے۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ کھیل کیسے کھیلا جاتا ہے، لمحوں اور چالوں پر نظریں رکھنا اور غور کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ پاکستان میں ایسا پہلے عام طور پر نہیں ہوا لیکن اگلے چند مہینوں میں دو بڑے اختیارات ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے والے ہیں۔

سب سے پہلے تو عبوری نگراں حکومت کو اقتدار منتقل ہونے والا ہے، اس کے بعد، انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو نگراں انتظامیہ کے ہاتھوں اقتدار منتقل کیا جائے گا۔ خیال تو یہی ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

منتقلی کے ان دونوں واقعات میں نہایت اہم مضمرات پنہاں ہیں۔ اگر موجودہ حالات و واقعات پر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہیں پر کوئی ہےجو ان کی راہ روکنے کے لیے اپنے بازوؤں کے مَسل مضبوط بنارہا ہے۔ اگرچہ یہ بھی ہے کہ کسی نے اسے تسلیم کرنے سے انکار بھی کردیا ہے۔

لیکن اس وقت دیکھیں تو سب کی گہری نظریں اس پر جمی ہیں کہ وہ کون ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے تو کھل کر کہہ دیا تھا کہ طاہرالقادری کے پیچھے بوٹوں والے ہیں۔

اگر انتخابات ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک حکومت بنتی ہے تو اس کے بعد کا مرحلہ تین اہم شخصیات کی ریٹائرمنٹ کا ہے جو کہ اس سال کے اختتام تک ہونی ہیں۔

چیف جسٹس، چیف آف آرمی اسٹاف اور صدرِ مملکت، تینوں کو اپنی متعین مدت کی تکمیل پر سن دو ہزارتیرہ کے اختتام تک ریٹائر ہوجانا ہے۔

ان تینوں میں سے صرف صدرِ مملکت ہیں جو نئی اسمبلیوں سے خود کو اگلی مدت کے لیے بھی منتخب کراسکتے ہیں لیکن ان دو کی ریٹائرمنٹ کے بعد، اُن کا کھیل ختم ہوچکا ہوگا۔

تازہ انتخابات صدر زرداری کو یہ موقع فراہم کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی قوت کو ازسرِ نو مجتمع کر کے، مزید اگلے پانچ سالوں کے لیے قصرِ صدارت میں خود کو موجود رکھ سکیں۔

اس موقع پر اس حقیقت کا اعتراف بھی کرنا ہوگا کہ پاکستانی قوم اس وقت زرداری کی دہائی کے نصف میں موجود ہوسکتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں صرف ایسی تین شخصیات موجود ہیں جو ایک دہائی تک سیاست کے افق پر بطور حکمران اپنام چسپاں رکھ پائے ہیں اور وہ تینوں لانگ بوٹ والے تھے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے، تو پہلی بار ایسا ہوگا کہ بادشاہ کی جگہ پیادہ ہی کھیل پر ایک دہائی تک چھایا رہے گا۔

شطرنج کی بساط پر پیادے کے طاقت ور ترین بن جانے پر کھیل لگ بھگ مکمل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اسے پوزیشن سے ہٹانا بہت دشوار ہوتا ہے۔ اب کہ جب کھڑکی اس کی طرف کھل رہی ہے تو ضرورت ہے کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھائے۔

لیکن سوال یہ کہ اسے پہلی پوزیشن سے کیوں ہٹایا جائے؟ بدقسمتی سے اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ وہ جو اس سیاسی پتلی تماشا میں مصروف ہیں، وہ ہمیشہ انہی وجوہات کے باعث اس کھیل میں مصروف رہتے ہیں۔

وہ اپنے لیے علاقائی کھیل کھیلتے ہیں۔۔ ایسا کھیل کہ جس میں خون بہتا ہے اور انسانی زندگیوں کا حقیقی زیاں ہوتا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان اس خونی کھیل کا لانچنگ پیڈ رہے۔

جس وقت سیاسی بساط پر پیادہ سب سے زیادہ طاقت ور مہرے کی صوررت ابھر رہا ہوگا، اس وقت پس منظر میں افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہورہا ہوگا۔

ایک بار جب امریکی افواج کا انخلا مکمل ہوجائے گا تو اس کے ساتھ ہی اس مضحکہ خیز ڈرامے کے آلہ کار افغانستان کے مستقبل پر قبضے کی جنگ کے لیے سنجیدگی سے سوچنا شروع کردیں گے۔

اس ممکنہ تنازعے سے نمٹنے کے لیے ضروری تیاریاں کرنا ہوں گی۔ وہ تیاریاں جس میں پیادہ بادشاہ کے کردار کو ختم کرکے اس کی جگہ لے لے گا اور اس کی جگہ ایسے پیادے کا تقرر ہوگا جو یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہو کہ اسے کیا کرنا ہوگا۔

آنے والے مہینوں میں صدر زرداری زیور آتش پہننے والے ہیں کیونکہ تیسرا سوال ان کے سامنے کھڑا ہے: یہ پتلی تماشا رچانے والے انہیں اپنے مقصد کے حصول کی سمت کس حد تک آگے بڑھنے دیں گے۔


کراچی میں مقیم مضمون نگار کا شعبہ اقتصادی صحافت ہے۔ [email protected] Twitter: @khurramhusain ترجمہ: مختار آزاد

تبصرے (1) بند ہیں

Mahmood Hassan Jan 27, 2013 11:01am
I agree with your opinion.