اسٹیٹ بینک آف پاکستان -- فائل فوٹو --.

اسٹیٹ بنک کی خود مختاری کو خطرہ لاحق ہے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان اپنے واحد ادارے کو کھو سکتا ہے جو معاشی دانائی و عمومی دانشمندی کی علامت ہے۔ آج اسٹیٹ بنک کے فیصلے اسلام آباد میں لکھے جارہے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ کیو بلاک میں وزارت خزانہ والے لکھ رہے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت خود ان دستاویزات سے ملتا ہے۔

ذرا ان دو دستاویزات کو دیکھئے جو تقریباً بیک وقت شائع ہوئی ہیں۔ اسٹیٹ بنک کی سالانہ رپورٹ اور مالیات پالیسی کی دستاویز جو کہ وزارت خزانہ جاری کرتی ہے، دونوں دستاویزات جنوری کی اواخر میں جاری کی گئی ہیں۔ دونوں دستاویزات کی زبان ایک جیسی ہے، ایک جیسی معاشی صورت حال بیان کرتی ہیں، یہاں تک کہ بعض مقامات پر ایک ہی جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔

اسٹیٹ بنک کی رپورٹ کا آغاز گزشتہ مالی سال جو کہ جون 2012 میں اختتام پذیر ہوا میں حقیقی جی ڈی پی میں معمولی بہتری کے ذکر سے ہوتا ہے، پھر بتایا جاتا ہے کہ "گزشتہ مالی سال یعنی جون 2011 کے مقابلے میں ترقی زیادہ وسیع تر رہی اور زراعت ، صنعت اور خدمات تمام شعبوں میں یکساں تناسب سے ہوئی. [اور] اس کی بنیادی وجہ لوگوں کے نجی تصرف میں اضافہ تھا"۔

اب دیکھئے کہ وزارت کی دستاویز کا آغاز کس طرح ہوتا ہے:"ترقی پہلے سے بڑھ کر وسیع تر تھی کیونکہ یہ زراعت، صنعت اور خدمات کی شعبوں میں یکساں تناسب سے ہوئی۔ ترقی کی وجہ لوگوں کے نجی تصرف میں اضافہ تھا"۔

آگے چل کر بنک کی رپورٹ اور وزارت کی مالیاتی پالیسی کی دستاویز دونوں ہی ترقی کا اہم محرک "زراعت میں ترقی کا نتیجہ" بیان کر تی ہیں۔

اسٹیٹ بنک کے مطابق: "زراعت کے شعبے میں ترقی کے نتیجے میں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر میں اضافے اور امدادی اسکیموں نے تعمیراتی سرگرمیوں اور گھریلو استعمال کی اشیا کی خریداری میں اضافہ کیا ...اور ان دونوں نے مل کر پیداواری صنعت میں تیزی پیدا کی۔ خدمات کے شعبے میں مالیاتی شعبےکی آمدن میں واضح بہتری دیکھنے میں آئی"۔

وزارت ِ خزانہ کے مطابق: " زراعت کے شعبے میں ترقی ،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر میں اضافے اور امدادی اسکیموں نے تعمیراتی سرگرمیوں اور گھریلو استعمال کی اشیا کی خریداری میں اضافہ کیا جس سے پیداواری صنعت میں تیزی پیدا ہو ئی۔ مالیاتی شعبے کی آمدن میں واضح بہتری دیکھنے میں آئی"۔

دونوں دستاویزات کی زبان میں یکسانیت بڑی واضح ہے۔میرے یونیورسٹی میں پڑھانے کے دنوں میں اگر دو امیدواروں کے پرچوں کی زبان میں اتنی یکسانیت ہوتی تو یہ بات اُن کی خلاف انضباطی کاروائی کے لئے کافی ہوتی تھی۔ میں ایک سے زیادہ ایسے طلبا کو جانتا ہوں کہ جن کو اس وجہ سے کورس میں ایف گریڈ ملا۔ مگر بندہ اس وقت کیا کرے جب ریاست کے اونچے دفاتر میں بیٹھے افسران ملی بھگت جیسے جرم کی مرتکب پائے جائیں۔

ہمیں کم از کم بھی اتنی کوشش تو کرنی چاہئے کہ اس کے ماخذ کو نکال باہر کریں۔ صرف ایک ایسا شخص ہے جس کو ان دونوں دستاویزات تک قبل از اشاعت رسائی حاصل ہوتی ہے اور وہ شخص ہے فنانس سیکرٹری جو اسٹیٹ بنک کے بورڈ کا ممبر ہے جس نے اسٹیٹ بنک کی سالانہ رپورٹ کی منظوری دینی ہوتی ہے اور وزارت خزانہ کی رپورٹس کی بھی نگرانی کرتا ہے۔

اگر کیو بلاک اسٹیٹ بنک کی تمام دستاویزات کی اشاعت سے پہلے اُن پر نظرثانی کرنا چاہتے ہیں تو اُن سے درخواست ہے کہ وہ حتمی دستاویز پر اپنے نشان تو نہ چھوڑا کریں۔ کیا یہ مطالبہ بہت زیادہ ہے؟

اسٹیٹ بنک کی رپورٹ میں اصل بات کئی صفحات کے بعد اندر جا کر شروع ہوتی ہے جہاں کیو بلاک والوں کی قینچیاں نہیں پہنچ سکیں۔ مثال کے طور پر دونوں رپورٹس میں یہ بات بڑی خوشی کے ساتھ نوٹ کی گئی ہے کہ اتنے مخدوش حالات کے باوجود ترقی نے پاکستان کا دامن نہیں چھوڑا۔

تاہم اسٹیٹ بنک کی رپورٹ بڑی خوبصورتی سے ہمیں خبردار کرتی ہے : "یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ چیزوں کے تصرف میں اضافے پر بے جا انحصار کے نتیجے میں ہونے والی ترقی پائیدار نہیں ہوتی، خاص طو رپر جب ملک میں سرمایہ کاری کی شرح گر رہی ہو"۔

شرح نمو میں معمولی نوعیت کا اضافہ کوئی خوشخبری نہیں اگر یہ چیزوں کے استعمال میں اضافے اور سرمایہ کاری میں کمی کے ساتھ ہے۔ اگرچہ رپورٹ کے آغاز میں لفظوں کے ہیر پھیر سے مثبت تاثر پیدا کر نے کی کوشش کی گئی ہے تاہم بعد کے صفحات میں منفی باتیں نکل ہی آئی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ منفی باتیں سالانہ رپورٹ میں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں مثال کے طور پر بنک بڑے واضح طور پر کہتا ہے "سرمایہ کاری کی کم شرح کے باوجود بجٹ کے خسارے میں اضافہ ملک کی مجموعی معاشی صورت حال میں استحکام پیدا کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے"۔

اس کے برعکس مالیاتی پالیسی کی دستاویز میں کہیں بھی بجٹ خسارے کو ایک بڑے چیلنج کے طور پر نہیں پیش کیا گیا۔ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 8.5 فیصد ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا اندرونی قرضہ بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ سال اس میں 28 فیصد اضافہ ہوا۔ قرضوں کے سود کی ادائیگیوں پر پہلی بار گزشتہ سال ایک ٹریلین روپے سے زیادہ خرچ ہوئے جوکہ کل آمدن کا تقریباً 40 فیصد بنتا ہے۔

ایک اور اہم بات جس کا ذکر اسٹیٹ بنک نے گزشتہ خزاں میں بھی کیا تھا وہ سالانہ رپورٹ میں پھر سامنے آتی ہے:"اسٹیٹ بنک اس بات پر فکر مند ہے کہ عام بنک اپنے عمومی کردار یعنی نجی بچتوں اور نجی قرض خواہوں کے درمیان رابطے قائم کرنے سے دور ہٹتے جا رہے ہیں"۔

یہ اہم ہے کیونکہ گزشتہ خزاں میں اسی نکتے کو بنیاد بنا کر شرح سود میں کمی کی گئی تھی۔ تاہم اپنی سالانہ رپورٹ میں بنک کہتا ہے کہ بنکوں کو قیمت سے متاثر نہ ہونے والے اور کسی قسم کے خدشات سے پاک "بڑے قرض خواہ" کو ترجیح دینے کی عادت سے چھٹکارا دلانا شائد "شرح سود کی موجودہ سطح قائم رکھ کر" بھی ممکن ہو۔

بیرونی معاملات میں سالانہ رپورٹ کہتی ہے کہ سرمائے اور مالیاتی کھاتوں میں پانچ سال سے مسلسل ہونے والی کمی اصل مسئلہ ہے "نہ کہ کرنٹ اکاؤنٹ کا حجم"۔

اسٹیٹ بنک کی نظر میں تجارت کے ناموافق رجحان کے مقابلے میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور قرضوں کی ادائیگیوں میں اضافہ بیرونی سطح پر صورتحال کو زیادہ خراب کررہے ہیں۔ شرح تبادلہ پر ایک طویل باب یہ وضاحت کرنے میں بہت سے لفظ ضائع کرتا ہے کہ روپے کی قیمت میں کمی دراصل سیاسی تبدیلیوں اور منڈی کی ناموافق صورت حال کا نتیجہ ہے نہ کہ ڈسکاؤنٹ ریٹ میں کمی کا۔

کہیں بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائز سے قرضوں کی ادائیگیوں کے نتیجے میں کیا مشکلات پیش آرہی ہیں سوائے اس کے کہ درآمدات کی صورت حال خراب ہونے پر کہیں تھوڑا سی پریشانی کا ذکر ہے۔ وہ بس اتنا کہ یہ شرح "مالی سال 2013 میں بھی گرتی رہے گی"۔ اس شرح کا تسلسل سے گرتے رہنا ہمیں کہاں لے جائے گا؟ واپس آئی ایم ایف کے پاس؟ اسٹیٹ بنک اس بارے میں کچھ نہیں کہتا۔

غیر ملکی زر مبادلہ کے کم ہوتے ذخائر، سرمایہ کاری میں کمی اور بجٹ خسارے میں بے پناہ اضافہ : اس بار اسٹیٹ بنک کی رپورٹ میں سے سچ نکالنے کے لئے آپ کو بہت توجہ سے پڑھنا ہوگا۔ پچھلے سال تو سچی باتیں رپورٹ کے صفحات میں سے اُچھل اُچھل کر باہر آرہی تھیں۔ پتہ نہیں نظر ثانی ہوئی کہ نہیں مگر رپورٹ میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔


مصنف کراچی کے رہائشی صحافی ہیں جو کاروبار اور معاشی پالیسی کے موضوعات پر کام کرتے ہیں۔

ترجمہ: سفیراللہ خان

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں