آج پاکستان کے بیشتر ہولناک مسائل کی جڑ ہماری بہت بڑھی ہوئی شرح پیدائش میں ہے، زبیدہ مصطفی۔—فائل فوٹو

پاکستان کے ادارہ مردم شماری کی ویب سائٹ کے ہوم پیج پر ایک پاپولیشن کلاک دیا ہوا ہے جس پر منگل کو ملک کی آبادی179,850,379 بتائی گئی یعنی روزانہ اوسطاً 9700 افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز (این آئی پی ایس) اسلام آباد کے مطابق ملک کی آبادی 1998ء میں گذشتہ مردم شماری کے وقت 13 کروڑ 33 لاکھ تھی۔ اس طرح 13 سال میں 34.8 فیصد (2.6 فیصد سالانہ) کا بھاری اضافہ ہوا اور حیرت ہے کہ اس پر کسی نے غور نہیں کیا۔ ہمیں 2010ء میں جو 2 فیصد (این آئی پی ایس) یا 1.8 فیصد (عالمی بینک) شرح افزائش دی گئی تھی ہم اس سے آگے بڑھ چکے ہیں۔

ہم 80ء کی دہائی کی شرح پر جاچکے ہیں اور ملکی معیشت، سیاست، انسانی زندگی کے معیار، امن و امان بلکہ ملک کی بقا کے لیے اس کی بے پناہ اہمیت ہے۔

اگر اپنے بہبود کے حوالے سے عوامی رویے کی بے حسی کا ثبوت چاہیے تو یہی ہے۔ یہ بھی نہیں کہ ہر ایک کی لاتعلقی ایک جیسی ہے۔ بے شک لڑکیوں کی شادی کی عمر تھوڑی سی بڑھ گئی ہے، اسکولوں میں لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور چھوٹے خاندان اور مانع حمل اشیا کی اہمیت کے بارے میں خواتین میں بہت آگہی پیدا ہوچکی ہے۔ لیکن خاندان کے افراد کی تعداد میں کمی نہیں آئی اور مانع حمل اشیا کا استعمال بے حد کم ہے۔

ہم خاندانی منصوبہ بندی کے تحرکات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ عورتیں اپنے ماں بننے کے حوالے سے کم عقلی پر مبنی تصورات رکھتی ہیں۔ چنانچہ انہیں معقولیت کی طرف لانے کے لیے نئی اصطلاحات وضع کی گئی ہیں۔ پہلے جسے فقط خاندانی منصوبہ بندی کہا جاتا تھا اب اسے صحت مندانہ حمل کا وقت اور وقفہ مقرر کرنے کا پروگرام کہا جاتا ہے تاکہ عورتیں صحت مند بچے جنم دینے کے لیے بچوں کے درمیان تین سال کا وقفہ رکھیں۔ اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ عورتوں کو سہولتوں کی ضرورت ہے۔ ان کے پاس اتنا اختیار نہیں کہ یہ سہولتیں اپنے طور پر حاصل کرسکیں۔

یاسمین کی مثال لیں جو 29 سال کی ہے اور ترقیاتی معیشت دانوں کے متعین کردہ خط ِغربت کے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ اس کی شادی 21 سال کی عمر میں ہوئی تھی (سب سے بڑی بہن 12 سال کی عمر میں بیاہی تھی)۔ وہ اسکول جاتی تھی اور روانی سے لکھ پڑھ سکتی ہے۔ یاسمین اپنے پانچویں بچے کی ماں بننے والی ہے۔ اس نے مختلف مانع حمل اشیا کا تجربہ کیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ان کے بارے میں اس کی معلومات بہت ناقص ہیں۔ ایک مرحلے پر وہ تولیدی صلاحیت ختم کرانا چاہتی تھی لیکن اس وقت اس کی کم عمری دیکھتے ہوئے اس کے برخلاف مشورہ دیا گیا۔ یاسمین کا کہنا ہے کہ اس کے شوہر کو پتہ نہیں کہ بچے کہاں سے آتے ہیں۔

یہ عورتوں کی تولیدی صحت سے مردوں کی لاتعلقی کی ایک نمائندہ مثال ہے جس کی کئی رپورٹوں سے تصدیق ہوتی ہے۔ ہمارے قدامت پسند اور پدرسری معاشرے میں مردوں کی بڑی تعداد یہ محسوس کرتی ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے معاملات سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ پالیسی ساز آسان راستہ اختیار کرتے ہوئے بہبود آبادی کی ان حکمت عملیوں پر توجہ دیتے ہیں جن میں عورتوں کو مرکز و محور بنایا جاتا ہے۔ چنانچہ تعجب کی کوئی بات نہیں کہ 2007ء کے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق (تازہ ترین دستیاب اعدادوشمار) جدید مانع حمل اشیا استعمال کرنے والے 51 لاکھ افراد میں سے صرف 17 لاکھ کنڈوم استعمال کرتے ہیں اور مردانہ خاتمہ تولید کے آپریشنوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ جاری کردہ اعدادوشمار میں اس کا ذکر ہی نہیں۔

یو ایس ایڈ کی مدد سے چلنے والے پروگرام ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سالیوشنز (آر ڈی ایس) نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں جو مانع حمل طریقے استعمال کیے جاتے ہیں ان میں عورتوں کے خاتمہ تولید کا طریقہ ’’محفوظ‘‘، ’’آسان‘‘، ’’مستقل‘‘ اور ’’سب سے عام‘‘ ہے (جو تمام طریقوں کا 38 فیصد ہے)۔ تاہم آر ڈی ایس نے اس کی کمزوریاں بھی بتائیں۔ تجزیے میں یہ بھی کہا گیا کہ جو عورتیں اس طریقے کو اختیار کرتی ہیں وہ 40 سال کی عمر کے قریب ہوتی ہیں اور ان کے پہلے ہی چھ بچے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا آبادی کی شرح افزائش پر اتنا کم اثر پڑا ہے۔

پالیسی ساز خاندان کے افراد کی تعداد اور خواتین کی تولیدی صحت نیز قومی معیشت سے اس کے تعلق کو تسلیم کرتے ہیں۔ عورتوں میں استقرار حمل کو روکنے کے بارے میں خاصی آگاہی آچکی ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں آبادی کی شرح افزائش نہیں رکی۔ آر ڈی ایس کے مطابق 60 لاکھ عورتیں پاکستان میں ایسی ہیں جن کی ضرورت پوری نہیں ہوئی یعنی جو خاندان کے سائز کو کم کرنا چاہتی ہیں لیکن نہیں کرسکتیں۔

اس صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ سہولتیں پہنچانے کا اور صحت کے مشورے فراہم کرنے میں ناکامی کا ہے۔ عورتوں کے پاس اتنا اختیار نہیں کہ اپنے طور پر مناسب مانع حمل طریقہ ڈھونڈ سکیں۔

کمیٹی فار میٹرنل اینڈ نیونیٹل ہیلتھ کی چیئرپرسن ڈاکٹر صادقہ جعفری تصدیق کرتی ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کا سب سے بڑا مسئلہ مشاورت ہے۔ مشورہ دینے والوں کا فرض ہے کہ وہ عورت اور اس کے شوہر کو تمام دستیاب مانع حمل طریقوں کے بارے میں جامع ہدایات دے اور پھر انہیں موقع دے کہ وہ ان میں سے چناؤ کریں۔ بہبود آبادی کے لیے سرگرم غیر سرکاری انجمنوں کے کارکنوں نے تصدیق کی ہے کہ سرکاری شعبے کے عمال و حکام سست پڑگئے ہیں اور اب مشاورت بالکل نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر صادقہ جعفری جو کئی عشروں سے ایک سرکاری اسپتال میں کام کررہی ہیں یہ محسوس کرتی ہیں کہ اب عورتیں ضبط ولادت کو قبول کرنے پر آمادہ ہیں۔ تاہم انہیں بہت زیادہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے پوسٹ پارٹم انٹرایوٹرائن کنٹراسیپٹو ڈیوائس پروگرام کی مثال دی جو ان کی کمیٹی نے کراچی کے دو اسپتالوں میں شروع کیا ہے۔ معائنے کے لیے آنے والے حاملہ خواتین کو ولادت سے پہلے کے پورے عرصے کے دوران بھرپور مشاورت فراہم کی جاتی ہے۔ اس طرح وہ آسانی سے بچے کی پیدائش کے چند گھنٹوں کے اندر انٹرایوٹرائن ڈیوائس لگوانے پر تیار ہوجاتی ہیں۔ یوں وہ کسی اسپتال یا مطب کے چکر لگانے سے بچ جاتی ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ آبادی کے پروگرام میں مرد کیوں شامل نہیں۔ چاہے بیشتر مرد اپنی بیوی کے جنم دیے ہوئے بچوں کی پرورش کی ذمہ داری میں شریک نہ ہوں انہیں کم از کم یہ تو بتایا جاسکتا ہے کہ وہ ملک کو برباد کرنے میں کیا کردار ادا کررہے ہیں۔ آج پاکستان کے بیشتر ہولناک مسائل کی جڑ ہماری بہت بڑھی ہوئی شرح پیدائش ہے جو دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے چھ ممالک کے گروپ میں، جس میں ہم شامل ہیں، بلند ترین ہے۔


http://www.zubeidamustafa.com/urdu/

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

نائلہ رضا Jun 18, 2012 11:09am
اسلام و علیکم، ڈان گروپ کی جانب سے اردو ویب سائٹ جاری کرنے کا فیصلہ بہت دانشمندانہ اور بروقت ہے کیونکہ عوام کی ایک بڑی تعداد انگریزی زبان پھڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی. ابھی تو یقینا یہ ابتدائی مراحل میں ہے اس لیے اس پر خبروں ، تبصروں اور مضامین و کالم وغیرہ کی تعداد کم ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر اس پر بی بی سی اردو کی طرح ذیادہ توجہ دی جائے تو یقینا یہ ایک عمدہ اضافہ ثابت ہوگی. ایک ضروری بات یہ ہے کہ اس کا فونٹ مذید بہتر بنانے کی ضرورت ہے ، ابھی اسے پڑھنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے. شکریہ