حسن درس۔
حسن درس۔

میری اور حسن درس کی دوستی تب ہوئی جب فیس بک ایجاد نہیں ہوا تھا۔ وہ فوجی آمریت کے زمانے تھے اور ہم  اپنے لوگوں کو اس سے لڑنے کے لئے تیار کرنے میں شاعری سے مدد لے رہے تھے۔ حسن کو جی بھر کرسنا گیا اور گایا گیا۔ مارا تو انسانوں کو بھی جارہا تھا لیکن حسن سےجو پہلی نظم میں نے سنی وہ تھی"پیڑ مارنا چھوڑ دو!" اس کی شاعری پرندوں، مچھلیوں اور بادلوں کی طرح سانس لیتی تھی۔

اوراتنا بھاگتی تھی کہ ہم پیچھے رہ جاتے تھے ۔ اس کی شاعری میں گھوڑے کی ٹاپولی تھی۔ آم کے باغوں، سرسوں کے کھیتوں اورگھنے جنگلوں کے بیچ حسن کا گاؤں اس شاعری کا زمین تھا۔ یہاں سے  اڑ اڑ کر وہ کبھی سائبیریا سے آنے والے پرندوں کے ساتھ  کینجھرکے نیلے پانیوں پر نمودار ہوئی تو کبھی لکی شاہ صدر پر اتری۔ اس کے پروں کے پیچھے کئی سورج  طلوع اور غروب ہوئے۔

اس نے اتنی اڑانیں بھریں کہ سارا سندھ اس کے لئےسجن کا سایا بن گیا۔

جب اسکولوں میں پڑھنے کے لئے نمازیں لازمی قرار دی گئیں ، تو حسن نے لکھنا شروع کیا۔ اسلامیات، عربی اور سلیس اردو پڑھانے والے ٹیچرسندھ میں بچوں  پر برستے تھے کہ وہ   "ق" کا درست املا نہیں کرتے۔

شاید ہم پہلے دن سے اسی لئے  لوکل کے لوکل رہے ، گلوبل نہ ہوسکے کہ ہم میں سے کوئی بھی مطلوبہ طریقے سے "بین الاقوامی" نہیں کہہ سکتا ۔ ہمارے ہندو کلاس فیلوز کی اس بات پر دھلائی ہوتی تھی کہ وہ ذوالفقار کو ذوال فقار پڑھتے تھے۔

برسوں بعد ہمیں معلوم ہوا کہ اس بات پر پوری بنگالی قوم کی پٹائی ہوئی تھی کہ وہ جناح کو "ضناح" کہتے تھے۔کچھ بھی ہو، بڑی قاف ہمارے رشتوں میں کوئی قینچی نہیں ڈال سکی۔ وقت آیا تواردو کے بڑےبڑے شاعراور ادیب حسن کے دوست  اور مداح بن گئے۔

حسن کو پرائمری کے زمانے سے گھوڑوں سےلگاؤ تھا اور "پیارے گھوڑے پاس تو آؤ!" اس کی پسندیدہ نظم تھی۔ آدمی کو کبھی کبھی اس کے دل کا کام پوری زندگی نہیں ملتا۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں حسن بہت خوش تھا کہ اسے وہ کام مل گیا تھا۔

وہ گھوڑے دوڑاتا اور ان پر تحقیق کرتا پھرا۔ اس نے سندھ میں  گھوڑوں کی چال  اور دوڑ کے مروج اور نایاب  اقسام ڈاکیومینٹ کئے۔ اعلی نسل کے گھوڑوں کی گھڑ دوڑ منعقد کروائی۔ اچھے سواروں کو انعام دیئے۔ میں نے البتہ کئی بار اسے کہا تھا کہ وہ وقت ضایع کر رہا ہے۔

ٹرائے کی لڑائی میں ہمیں  ایک بہت بڑے ٹروجن گھوڑے کی ضرورت ہے اور اتنے ہارس پاور والا گھوڑا وہ ہمارے لئے لا نہیں سکتا۔

اچھے گھوڑے توحسن کے گاؤں کے ساتھ  والے گاؤں میں کُرو تھیبو کے پاس بھی  تھے۔ کُرو تھیبو جو سندھ میں ڈاکو راج میں جمہوری اصلاحات لایا اور جس نے روز روز کی لوٹ مار کی جگہ سالانہ چٹھی متعارف کروائی۔

اس نے ڈاکوؤں کا الیکٹورل کالج بناکر انہیں حق رائے دہی دیا، آل سندھ کنونشن   منعقد کروا کر ڈاکو راج  کے سردار کے بذریعہ  ووٹنگ کے ذریعے منتخب ہونے کی روایت ڈالی جس میں متفقہ طور پرفیصلہ کیا گیا کہ ڈاکو راج کا سربراہ اپنےگریڈ، اسٹیمپ اور سینیارٹی کے لحاظ سے سندھ پولیس کے آئی جی کے ہم پلہ ہوگا اور اس کے عہدے کا نام "وڈیرو" ہوگا۔

سندھی وڈیرے کو اتنے علامتی اور درست طریقے سے بیان  کرکے کُرو تھیبو نے سوشیالوجسٹس کو مات دے دی۔ اس کو کہتے ہیں "وڈیرو!"

اپنی تمام تر رومانوی انقلابیت کے باوجود حسن درس روایتوں کا پابند شخص تھا۔ وہ ان لوگوں میں تھا جو کہتے ہیں کہ ماننے کے لئے جاننا ضروری نہیں ہے۔ وہ سچے دل سےملتان کےایک مشہور پیر کا مریدتھا اور اس کا خانوادہ علاقے میں اس گدی کا خلیفہ تھا۔

وہ انتخابی سیاست میں اپنے مرشد اور مریدوں کی جماعت کی کامیابی کے امکانات کا جائزہ لیتا۔ لیکن اس کے اندر کا باغی اسے دوسرے سرے پر بھی لے جاتا۔ وہ  علاقے میں ہونے والی  چوری  کی وارداتوں، پانی کی باری پر ہونے والے جھگڑوں کے تصفیے اور "بانہیں اٹھانے" یا لوٹانے کے لئے ہونے والے فیصلوں میں شریک ہوتا۔

لوگوں سے رشتے نبھانے کے لئے  تھانوں، کچہریوں  اور کوتوالیوں کے چکرکاٹتا۔ فصل کٹنے پر لگنے والے میلوں میں بیلوں کے "میل" (دوڑ کے مقابلے) ہوتے، اور مرغوں کی لڑائیاں  ہوتیں جن  میں وہ اپنےدوست "خفتیوں" کے ساتھ شریک ہوتا۔

مجھے وہ نظم اس کتاب میں نظر نہیں آئی جو اس نے اپنی دادی کے بارے میں لکھی تھی۔ اس کی دادی گجرات سے بیاہ کر لائی گئی تھی۔ وہ مجھ سے پوچھتا تھا کہ میں اپنی دادی پر کب نظم لکھوں گا جو راجستھان سے آئی تھی۔ اٹھاکر لائی گئی عورت۔ یونانی ڈرامہ نگار منینڈر نے کہا تھا  "عورت ایک ایسا درد ہے جوکبھی ختم نہیں ہوتا۔"

وہاں بہت کچھ لاطینی  امریکا کے قصبوں جیسا تھا۔ دور دور تک پھیلے ہوئے کیلے کے کھیت، امیزون کی طرح کا گھنا میانی فاریسٹ۔ ٹراپیکل موسم کے پھل۔

وہاں بکارڈی تو نہیں مل سکتی تھی لیکن پریمیو کولھی آپ کو رم کے سے ذائقے والا ٹھرا  ضرور پیش کرسکتا تھا۔ ہوجمالو ہی ہوسکتا تھا سالسہ نہیں کیونکہ سجاول سے آنے والی ہواؤں کے ردم پر درختوں کی ٹہنیاں ہی رقص کرسکتی تھیں۔ عورتیں اپنے بدن کی دیواروں کے اندر دفن تھیں۔

تھانیدار اور ڈاکو کہیں بھی مل بیٹھ سکتے تھے لیکن محبت کرنے والے نہیں:

عمر کی انگلیوں سے ہم  ہیں جھڑتے راکھ کی مانند

سجن سگریٹ سستی کی طرح انساں سلگتا ہے

وطن میں بے وطن معشوق عاشق کا ملن کیسا

تماچی بے دخل ہوتے ہیں جھیلوں کے کناروں سے

ہم نوری کے عاشق تماچی کو آئیڈیئلائیز  کرتے ہیں۔ تماچی کے زمانے کا سندھ ہمیں جھیل کے نیلے پانیوں کی طرح اجلا اجلا لگتا ہے۔ یہ سو کالڈ آزاد سندھ کا سنہری دور تھا۔

حسن درس کے گھوڑے اس زمانے میں ہرطرف دوڑا کرتے تھے لیکن سما سے لے کر کلھوڑوں اور تالپوروں کے دور تک اتنی پرسیکیوشن تھی کہ سندھ  میں ہندو کو گھوڑے پر سوار ہونے کی اجازت نہیں تھی۔

یہ  سابی کے زمانے ہیں۔ سابی یعنی 'سیکچیول آٹونومی اینڈ باڈلی انٹیگریٹی' حسن نے اپنی کچھ نظموں میں عورتوں کے بارے میں جس طرح  "مردانہ وار" لکھا اس پر سیمن ڈی بوار کے فیمنسٹس شور مچاسکتے تھے کہ عورتوں کو نئے طریقے سے اسٹیریو ٹائپ کیا جارہا ہے۔

سیمن ڈی بوار، جو کہتی تھی کہ: "پیار کا مفہوم کسی بھی طرح عورت اور مرد کے لئے ایک سا نہیں  ہوتا!" لیکن جو جنگ اور محبت میں نہیں ہوتا، لٹریچر میں ہوسکتا ہے۔ حسن نے کچھ نظموں میں جو "مردانہ" لبرٹی لی وہ پیبلو نرودا کے فری اسٹائل کا عشر عشیر بھی نہیں۔

نرودا کے لئے آپ  کہہ سکتے ہیں کہ: "حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا!"

"تم کیچیوں نے ہماری سندھی لڑکی کے ساتھ جو کیا وہ کبھی بھلایا نہیں جاسکتا" وہ کہتا۔ وہ  سندھی لڑکی سسی تھی جسے کیچ  کے شہزادے پنہوں تک پہنچنے کی کوشش میں  راستے کھا گئے۔ سسی مجھ سمیت تمام سندھیوں کا ایک جذباتی مسئلہ ہے لیکن حسن کو اشتعال دلانے کے لئے میں کہتا: "اور صدیوں بعد کیچیوں سے بدلہ لینے کے لئے سندھیوں نے پیپلز پارٹی ایجاد کی"۔

اس پارٹی کا تجزیہ کرتے وقت ہماری دوستی  کے رولز تھوڑی دیر کے لئے معطل ہوجاتےتھے۔ بلاشبہ حسن ان خالص سندھیوں میں سے تھا جن کےلئے پیپلزپارٹی واقعی ایک اثاثہ تھی۔ اس کے بےشمار دوست جیالے تھے جو کسی زمانے میں"امن کی فاختائیں" بن کر گرفتاریاں دیتے تھے۔ میرا اور اس کا جھگڑا تب بڑھتا جب میں اسے بلوچوں کی جدوجہد کے واقعات بتاکر کہتا "واجا!بلوچ کی آنکھ سے پی پی کو دیکھو!"

وہ شانتی نکیتن سے ہو کر آیا تو کسی حد تک اس یوٹوپیا سے اتفاق کرنے لگا کہ سندھ کے آدی واسیوں کے لئے ماسوائے ماؤ وادی  جدوجہد کے"وڈیرے" کے تسلط اور غلامانہ نظام سےنجات کا کوئی اور راستہ نہیں اور سندھی عورت کا قتل تب رکے گا جب وہ بندوق اٹھا کر وڈیرا شاہی کے خلاف اگلے مورچوں پر لڑے گی۔"نیکسل وادی جدوجہد وڈیریوں کے خلاف بھی ہوگی،" حسن کہتا، "وڈیروں کی طرح وڈیریوں کا خون بھی سفید ہوتا ہے۔"

اسے گر دیو  بہت بھایا جو سندربن کی طرح تھا۔ خاموش، گہرا اور اپنی بارشوں میں بھیگتا ہوا۔ مجھے نذرل پر غصہ ہےکہ آخر کیوں میری خواہش کے باوجود وہ حسن  کو متاثر نہ کرسکا۔ حسن اس کے مقابلے میں نرودا کے  زیادہ قریب رہا جس نے لکھا تھا:

"مجھے بتاؤ

کیا گلاب ننگا ہوتا ہے یا یہی اس کا لباس ہے؟

درخت اپنی جڑوں کا حسن کیوں چھپاتے  ہیں؟

کیا دنیا میں اس ٹرین سے زیادہ اداس کوئی چیز ہے جو بارش میں رک گئی ہو؟"

کلکتے سے واپس آکر حسن ہُگلی کی باتیں کرتا جو سندھو سے زیادہ تیز طرار تھی۔ ہُگلی، جس کا مزاج کالی کی طرح تھا۔ کالی، جو انتقام  پر اُتاروُ تھی اورجو نذرلاسلام  کی شاعری میں در آئی تھی۔

جس حد تک میں اس کو سمجھتا تھا میں ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حسن کو جنگ اور تشدد میں کوئی دلچسپی  نہیں تھی لیکن وہ کوئی بوگّس پیسفسٹ بھی نہیں تھا ۔اس نے بڑی کوشش کرکے اپنی شاعری کو کسی انقلاب کا پوسٹر بنانے سے گریز کیا:

"غلامی عشق کی ٹھو کرمیں ہوگی دیکھنا اک دن،ہمیں بس یہ ہے طے کرنا محبت کس طرح ہوگی؟"

جب سندھ خون میں لت پت تھا تو شیخ ایاز گوشہ نشینی سے باہر  آئے ۔ حیدرآباد میں شیخ ایاز نے اپنی نئی شاعری سنائی جس میں "سارے پونجی والے کتے" بھی شامل تھی۔ اس شام حسن  نے ایاز کو شاعری سنائی۔

اس نے  "ننگے سرمد کے حضور"  سے لے کر خانم گوگوش تک بہت کچھ سنایا۔ "تاریخ کے سگریٹ کو تیلی نے چھوا اور وقت سلگ اٹھا!" کئی برسوں بعد شیخ ایاز نے لکھا کہ اگر یہ نظم سبط حسن نے پڑھی ہوتی تو انہیں اپنی کتاب "انقلاب ایران" دوبارہ لکھنی پڑتی۔

اس رات کو اگر وہ  اپنی کار کی بجائے کسی کمیت گھوڑے پر ہوتا تو وہ اپنی منزل کو پہنچ چکا ہوتا۔ برسوں پہلے شیخ ایاز نےشاید اس رات کے لئے  لکھا تھا کہ:

"زخمی سوار کو کالے کمیت تم، کس اور لاؤگے؟"

عزیز پلی مر گیا۔ سندھ کا دیوداس یاسر کاچھیلو دنیا کو ادھ  کھلی بوتل کی طرح چھوڑ گیا۔ کچھ دوست میڈیا رسید ہوئے اور کچھ این جی او برد۔ میں نےجب اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک میں ملازمت اختیار کی تو اس نے کہا کہ "ہم اکیلے رہ گئے ہیں اور تم ایک سوچنے والی توپ میں گھونسلہ بنانے کی کوشش کررہے ہو!" اپنی آخری فون کال میں وہ غصے سے کہہ رہا تھا کہ "اس وفاق نے ہم سے کیا کیا نہیں چھینا؟ حتی کہ ہمارے  دوست بھی!" میں اس بات پر دکھی ہوں کہ میں نے اس کو اکیلا چھوڑ دیا۔ ساتھ ہی کبھی کبھی میرے دل میں سوال آتا ہے کہ سوچنے والی توپ اگر  واقعی چل گئی تو میرے گھونسلے کا کیا ہوگا؟

درد اک روزگرے گاجو منہدم ہوکر

تری محبوب مٹی ہی  مرا مدفن ہوگی

حسن کی شاعری اکٹھی کرنے میں اس کی بہتر نصف اور ہماری بھابھی نے جو رہنمائی کی  اور حسن کے دوستوں نے جس طرح مدد کی وہ لائق تحسین ہے۔  لیکن میرے سامنےپوستھامس کتابوں کی ایک لمبی اور ڈراؤنی تاریخ ہے۔ میرے اور حسن کے بیچ ایک معاہدہ تھا جس کے تحت میں اور حسن آنے والے کئی برسوں تک اپنی شاعری کی کتاب لانے والے نہیں تھے۔ جن حالات میں اس نے معاہدہ توڑا ہے، میں اس  پر  خفا ہو بھی نہیں ہوسکتا۔ دل تو اب بھی نہیں چاہتا کہ میں اپنی  کتاب لاؤں لیکن اس سانحے کے بعد میں نے یہ سیکھا ہے کہ"کتاب لاؤ ، اس سے پہلے کہ تمہاری کتاب لائی جائے !"

حسن درس کی ایک غزل

سب کچھ ہو  بس ضرور، مگر پیار چاہئے

مئے کا بھلا سرور مگر پیار چاہئے

ایمان و دین ہوگا، دوزخ اور جنتیں

خالص خدا کا نور مگر پیار چاہئے

اولاد، کام اور یہ غم روزگار کے

ہاں ہاں یہ ہو حضور مگر پیار چاہئے

دانش عقل کی دنیا چلتی دلیل سے

ہو علم پر عبور مگر پیار چاہئے

غم کیجئے  غضب کوئی افسوس کیجئے

غصہ بھی ہو ضرور، مگر پیار چاہئے

اک چاند کی لیں ٹھنڈک ،سورج پہ ہم جلیں

دنیا سے جا کے دور مگر پیار چاہئے

انساں سے محبت تو بس انساں ہی کرے گا

غلمان اور نہ حور، مگر پیار چاہئے

بیوپار نہیں پیار کہ نقصان اور نفعہ

کچھ بھی بچے نہ مور، مگر پیار چاہئے

اک زندگی حسن گئی بیکار، میں ہوا

ضائع  یہاں ضرور، مگر پیار چاہئے

(ترجمہ: مظہر لغاری)

سندھ کی نیے درویش شاعر حسن درس پر لکھا جانے والا یہ مضمون کراچی لٹریچر فیسٹیول میں پڑھا گیا۔ ہم اسے یہاں اپنے قاریین کے لیے پیش کر رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

Jamil Khan Feb 28, 2013 06:42am
حسن درس سے میرا رشتہ تصوراتی رہا۔ کبھی ملاقات کی سبیل نہ بن سکی۔ وہ میرا ہی ہم عمر تھا۔ ایک روز ایک معروف اخبار میں خبر پڑھی کہ حیدرآباد میں ٹریفک حادثے میں کوئی شخص جاں بحق ہوگیا، حادثے کے بعد وہ کافی دیر تک سڑک پر تڑپتا رہا اور مدد کے لیے پکارتا رہا۔ لیکن کوئی اس کی مدد کے لیے نہیں آیا۔ اگر اس وقت اسے ہسپتال پہنچادیا جاتا تو شاید اس کی جان بچ جاتی۔ لیکن اس کٹھور معاشرے میں شاید یہ روز کا معمول بن چکا ہے کہ لوگ سڑک پر زخمیوں کو تڑپتا دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس اخبار کا کٹھور پن یہ تھا کہ اس نے خبر میں یہ واضح ہی نہیں کیا کہ سڑک پر تڑپ تڑپ کر جان دینے والا سندھ کا معروف شاعر حسن درس تھا۔ خبر پڑھ کر نجانے کیوں دل بھر آیا تھا، جیسے کوئی اپنا چلا گیا ہو، سارا دن اداسی میں گزرا اور جب اگلے دن پتہ چلا کہ وہ لاچار زخمی کوئی اور نہیں حسن درس تھا تو پھر آنسو رُک ہی نہ سکے۔ میرے پاس اس وقت کوئی ایسا نہیں تھا جو حسن درس کو جانتا ہو، یا اس کی شاعری سے واقف ہو۔ اس دن کے بعد میں اپنی فیملی میں حسن درس کا کئی روز تک اس طرح تذکرہ کرتا رہا جیسے کہ وہ میری فیملی کا ہی فرد ہو یا کو ہمراز دوست۔ آج جب مظہر لغاری کی یہ تحریر پڑھی تو نجانے کیوں پھر جی بھر آیا ہے۔
sattar rind Feb 28, 2013 11:44am
Nice but he was believer of Pirs? I do not know though even I think he was most closest friend of mine.
Irshad Memon Feb 28, 2013 07:05pm
I've become restless after going through this write-up. Well done Mazhar, dear.
امير منڌرو Mar 07, 2013 09:36pm
شاعر ته پکين جيان هوندا آهن ڪڏهن جهوڪ پاسي درگاه جي گنبذ ۾ويٺل ڪبوترن جيان ته ڪڏهن جهمپير جي مندر ڀرسان مئه ڪدي جي ....اڱڻ ۾ بيٺل کجي مان تاڙيو پيئندڙ طوطي جيان yes He was .............. he was beleiver of Love nad Nature so he follwed all the ways ...
comrade salal Mar 27, 2013 02:04pm
Jamil Khan sahab u have wrote beautiful about hassan' He was a pioneer of modern poetry in Sindhi' He loved horses, the jungle, birds. Hassan believed that the Sindhi woman would be free when she would take up arms,” he said. “Hassan was poet of romance and was very liberal.”