دو جنوری سن اُنیّسو ستر کو دنیا میں آنکھیں کھولنے والی فرزانہ راجہ کا تعلق ضلع راولپنڈی کی تحصیٰل گوجر خان سے ہے۔

چک لالہ اور راولپنڈی کے اسکولوں سے ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔

پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ فرزانہ راجہ سن دو ہزار آٹھ میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی نامزد ہوئیں۔

قبل ازیں، سن دو ہزار دو کے عام انتخابات میں بھی وہ پنجاب اسمبلی کی خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر رکن صوبائی اسمبلی رہ چکی تھیں۔

وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق سربراہ محترمہ بینطیر بھٹو کے خاصا نزدیک تھیں۔

سن دو ہزار آٹھ میں جب پیپلز پارٹی نے فلاحی منصوبہ 'بینظیر انکم سپورٹ پروگرام' شروع کیا تو وہ اس کی سربراہ مقرر کی گئیں۔

اس منصوبے کے تحت ملک کے انتہائی غریب، دو ملین سے زائد باشندوں کو ماہانہ ایک ہزار روپے کی مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔

فرزانہ راجہ پارٹی کی متحرک اور فعال رکن ہیں۔ سن اُنیّسوچورانوے سے وہ پارٹی کے مختلف عہدوں پر کام کرتی رہی ہیں۔

اس دوران انہوں نے بالخصوص فلاحی منصوبوں، خواتین کو با اختیار کرنے، خارجہ و میڈیا تعلقات کے حوالے سے بھی پارٹی پالیسی اور طریقہ کار وضع کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔

تین نومبر، سن دو ہزار سات کو سابق فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف کی طرف سے ملک پر ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف انہوں نے سرگرم کردار ادا کیا اور اس دوران وہ دیگر پارٹی رہنماؤں کے ساتھ گرفتار بھی ہوئیں۔

اپریل سن دو ہزار بارہ میں فرزانہ راجہ، وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیرشامل ہوئیں۔

اُن کے بعد وہ وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کی کابینہ میں بھی شامل کی گئیں۔

تحقیق و تحریر: سحر بلوچ

ترجمہ: مختار آزاد

//

تبصرے (0) بند ہیں