گزشتہ نصف صدی سے پاکستان میں افراطِ زر کی شرح بلند ترین سطح پر ہے۔ حالیہ چند مہینوں میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد تک پہنچ چکی ہے جوکہ جنوبی ایشیا میں بلند ترین ہے۔ اشیائے خورونوش کا شرح افراطِ زر بھی 48 فیصد تک پہنچ چکا ہے جوکہ 2016ء کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔

گزشتہ ایک سال کے دوران روپے کی قدر میں 50 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے حالیہ بیل آؤٹ پیکج کی وجہ سے تمام سبسڈیز بھی ختم کردی ہیں۔ نتیجتاً قوم کو مہنگائی کے سنگین بحران کا سامنا ہے۔

ایک ایسا ملک جہاں معاشی چیلنجز کی وجہ سے شہریوں کے روزمرہ کے مسائل نظرانداز ہوجاتے ہیں، ایسے میں محنت کشوں کو منصفانہ معاوضہ دینے کا تصور ایک امید کی کرن بن کر ابھرا ہے۔ دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی مہنگائی کی وجہ سے غربت، عدم مساوات اور تفاوت دور کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ان مسائل کی وجہ سے جو اہم سوال اٹھتا ہے وہ یہ ہے محنت کشوں کو ان کی محنت کی کتنی اجرت دی جاتی ہے۔ نجی سیکٹر کے کارپوریٹ اداروں کو ضرورت ہے کہ وہ مناسب تنخواہیں، آمدنی کی اہمیت اور پاکستان کو معاشی انصاف کے اس پہلو کو کیوں ترجیح دینی چاہیے، اس پر تفصیلی بات چیت کرنی چاہیے۔

کم اجرت غربت کا باعث بنتی ہے کیونکہ ملازمین گھنٹوں تک محنت کے باوجود اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔

محنت کے مطابق اجرت کا مطلب صرف پے سلپ پر موجود عدد نہیں۔ یہ انسانی لیبر کی اہمیت اور ان کی عزت کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ یقینی بناتا ہے کہ محنت کش اپنے آپ اور اپنی اہلخانہ کے لیے اشیائے خورونوش، مکان، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریاتِ زندگی کے اخراجات برداشت کرسکے۔ پاکستان جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے، وہاں مزدور کو اس کی محنت کی درست قیمت ادا کرکے بہت بڑا فرق پیدا کرسکتا ہے۔

تصور کریں گھنٹوں محنت کرنے کے باوجود ایک ملازم جب اپنے گھر کا کرایہ بھرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو وہ دیگر ضروریاتِ زندگی کیسے پوری کرے گا۔ یہ پاکستان کی افرادی قوت کی حقیقت ہے۔ محنت کے مطابق اجرت نہ دے کر محنت کش غربت کے دلدل میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنا اور اپنا معیارِ زندگی بہتر بنانا ان کے لیے انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔ اس سے نہ صرف ورکرز متاثر ہوتے ہیں بلکہ یہ ملک میں ترقی کی مجموعی صورتحال پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔

کچھ لوگ کہیں گے کہ اجرت بڑھا دینے سے کاروباری لاگت میں اضافہ ہوگا جوکہ ممکنہ طور پر منافع کی شرح پر اثرانداز ہوگا۔ تاہم دیکھا جائے تو ملازمین کو ان کی محنت کے مطابق منصفانہ اجرت دینے کے، کاروباری لاگت سے کئی زیادہ فوائد ہیں۔ جب ملازمین کو اتنی اجرت ملنے لگے جس سے ان کی ضروریاتِ زندگی پوری ہورہی ہوں تو ان کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور یوں ان کی کارکردگی اور کام کے معیار میں مثبت اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ اجرت سے قوتِ خرید میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے اشیا اور خدمات کی طلب بھی بڑھتی ہے جبکہ معاشی ترقی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

محنت کش کو اس کی محنت کے مطابق اجرت کی ادائیگی صرف ایک اخلاقی فرض نہیں بلکہ یہ قانونی ذمہ داری بھی ہے۔ پاکستان کا آئین منصفانہ اجرت اور کام کے مساوی معاوضے کی ضمانت دیتا ہے۔

تاہم بہت سے لوگ اس حق سے محروم ہیں بالخصوص روزانہ کی دہاڑی پر کام کرنے والے مزدور کم اجرت ملنے سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت اور کاروباری اداروں کو یکساں طور پر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس بنیادی حق کو معیشت کے تمام شعبوں میں اس کا نفاذ ہو اور اسے برقرار رکھا جائے۔

بہت سی کاروباری آرگنائزیشنز نے ملازمین کو منصفانہ تنخواہیں دینے کی پالیسی نافذ کرنے کے لیے متعدد کوششیں کی ہیں۔ ان اقدامات میں کم از کم اجرت کے معیارات طے کرنے سے لے کر افراطِ زر کی ایڈجسٹمنٹ اور ملازمین کے بینیفٹ پیکجز شامل ہیں۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف ورکرز کو فائدہ پہنچاتے ہیں بلکہ ملازمین کے اطمینان برقرار رکھنے اور آجر کی کامیابی میں بھی اہم ثابت ہوتے ہیں۔

یہ بات غور طلب ہے کہ محنت کشوں کو ان کے کام کے مطابق اجرت فراہم کرنا، سماجی ہم آہنگی اور استحکام میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ جب ورکرز کو منصفانہ ادائیگی کی جاتی ہیں تو وہ خود کو قابل قدر اور محترم محسوس کرتے ہیں۔ یوں ادارے میں ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ بدلے میں ورکرز کے تنازعات اور ہڑتالوں پر جانے کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں جس سے کاروبار اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوتا ہے۔

مہنگائی میں کم اجرت کے باعث ضروریاتِ زندگی پوری نہیں ہوپاتیں
مہنگائی میں کم اجرت کے باعث ضروریاتِ زندگی پوری نہیں ہوپاتیں

ملازمین کو منصفانہ تنخواہیں دے کر پاکستان میں آمدنی میں عدم مساوات کے اہم مسئلے کو بھی کسی حد تک حل کیا جاسکتا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان مسلسل بڑھتا فرق سماجی تناؤ کو بڑھا رہا ہے اور یہ سماجی حرکیات میں رکاوٹ ہے۔ اس بات کو یقینی بنا کر کہ تمام مزدوروں کو ان کی محنت کا منصفانہ معاوضہ ملے، پاکستان اس خلا کو کم کرنے اور ایک مساوی معاشرے کی تعمیر کی طرف قدم بڑھا سکتا ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ ملازمین کو ان کی محنت کے مطابق اجرت دینا صرف نجی شعبے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس حوالے سے حکومت کو بھی ایک اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ پالیسیوں اور قانون سازی کے ذریعے حکومت اس مقصد کے فروغ کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کر سکتی ہے۔ اس میں کم از کم اجرت کے قوانین کو نفاذ اور کاروباروں کو منصفانہ اجرت کے طریقوں کو اپنانے کی ترغیب دینا شامل ہے۔

تعلیم اور ہنر کا معیار بہتر بنانے میں سرمایہ کاری کرکے ایسے ورکرز پیدا کیے جاسکتے ہیں جو اتنے باصلاحیت ہوں گے کہ انہیں دی جانے والی اجرت ان کے کام سے انصاف کرتی ہوگی۔ معیاری تعلیم اور تربیتی پروگراموں تک رسائی کو بہتر بنا کر، پاکستان اپنی افرادی قوت کو بااختیار بنا سکتا ہے اور اپنی پیداواری اور کمائی کی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے۔

ملازمین کو ان کی محنت کے مطابق اجرت دینے کی بڑھتی ہوئی ضرورت احساس دلاتے ہے کہ پاکستان کو اس نازک مسئلے کو ترجیح دینا ہوگی۔ پاکستان اس بات کو یقینی بنا کر اپنے تمام شہریوں کے لیے ایک زیادہ منصفانہ، خوشحال اور پائیدار مستقبل بنا سکتا ہے جہاں تمام مزدوروں کو ان کی محنت کا مناسب معاوضہ ملے۔

محنت کش افراد کو اگر ان کی محنت کے مطابق منصفانہ اجرت فراہم کی جائے گی تو یہ نہ صرف ورکرز، کاروباروں، برادریوں بلکہ مجموعی طور پر پوری قوم کے لیے اچھا ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان تمام شہریوں کو ان کے کام کی منصفانہ قیمت ادا کرنے کے لیے جرات مندانہ اقدامات کرے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں