کیا پاکستان سری لنکا پر برتری برقرار رکھ پائیگا؟
پاکستان نے سری لنکا کے خلاف ہونے والی پانچ ایک روزہ میچز کی سیریز کے لیے 15 رکنی ٹیم کا اعلان کر دیا ہے جہاں ناصر جمشید کو عرصے سے خراب اور اوسط درجے کی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کا خمیازہ بالآخر ٹیم سے رخصت کی صورت میں اٹھانا پڑا۔
ناصر نے گزشتہ سال کے اواخر اور رواں سال کے شروع میں روایتی حریف ہندوستان کے خلاف ہونے والی سیریز میں دو شاندار سنچریوں کی بدولت شہ سرخیوں میں جگہ بنائی اور انہیں مستقبل کا اسٹار قرار دیا جانے لگا لیکن جنوبی افریقہ میں ہونے والی سیریز میں ان کی کارکردگی کے بعد یہ خوش فہمی بھی بہت جلد دور ہو گئی۔
اوپنر ہندوستان کے خلاف سیریز کے بعد پورے سال میں کھیلے گئے 21 میچز میں صرف 2 نصف سنچریاں اسکور کرنے میں کامیاب ہو سکے، اس سلسلے میں ناصر کی پرفارمنس کے ساتھ ساتھ ان کی فٹنس کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا جہاں بڑھتے وزن کے باعث فیلڈ میں ان کی گرتی کارکردگی بھی صاف دیکھی جا سکتی تھی۔
مستقل مواقع ملنے کے باوجود کچھ خاص نہ کر دکھانے اور خراب فٹنس کے باعث سلیکٹرز پر انہیں ٹیم سے باہر نکالنے کے مطالبات ہونے لگے اور حالیہ ایک روزہ سیریز میں ناکامی کے بعد ٹیم مینجمنٹ ان مطالبات پر مہر لگانے پر مجبور ہو گئی۔
لیکن جہاں ایک طرف ناصر کو خراب کھیل کی وجہ سے ڈراپ کیا گیا تو دوسری جانب ان کے ٹی ٹوئنٹی قائد کو اس سے بدتر کھیل کا انعام ایک بار پھر ٹیم میں شمولیت کی صورت میں دیا گیا۔
اگر پاکستان کرکٹ ٹیم کی رواں سال کی بلے بازی کا جائزہ لیا جائے تو حفیظ یقینی طور پر ٹیسٹ اور ایک روزہ ٹیم میں سب سے زیادہ ناقص کارکردگی کے حامل بلے باز ہوں گے جو حریف کی بائولنگ سے انتہائی خوفزدہ نظر آئے خصوصاً جنوبی افریقی فاسٹ بائولر ڈیل اسٹین کے سامنے ٹی ٹوئنٹی کپتان کی حالت بالکل اس نو وارد بے بس تیراک کی مانند نظر آتی تھی جسے پہلی ہی آزمائش میں سمندر کی بدمست موجوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو۔
حفیظ کی پرفارمنس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پورے سال کے دوران 28 میچز میں وہ صرف دو سنچریاں اسکور کر سکے، یہ دونوں سنچریاں بھی آئرلینڈ اور زمبابوے جیسی اوسط درجے کی ٹیموں کے خلاف تھیں۔
دیگر ٹیموں کے خلاف 23 میچز میں وہ بمشکل جیسے تیسے دو بار پچاس کا ہندسہ عبور کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ جنوبی افریقہ خلاف اس دوران 13 میچز میں ان کی ’’کاوش‘‘ یقیناً کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مستقل بد سے بدتر کے اس سلسلے کے باوجود آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ جن کے باعث حفیظ پر خصوصی مہربانی دکھاتے ہوئے انہیں بار بار ٹیم میں شامل کر لیا جاتا ہے، سوائے اس کے کہ اب وہ بھی خود کو بیٹسمین کی جگہ باؤلنگ آل رائونڈر کہلوانا شروع کر دیں۔
حفیظ کی صلاحیتوں پر کسی کوشک نہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کچھ ذہنی دبائو اورخراب فارم کا شکار ہیں، ایسی صورتحال میں ان کے لیے مشورہ ہے کہ وہ انگلش بلے باز جوناتھن ٹروٹ کی تقلید کریں جنہوں نے اپنی خراب فارم اور دبائو کو تسلیم کرتے ہوئے کرکٹ سے چند ماہ کی کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔
اگر حفیظ بھی ایسا کرتے ہیں تو یقیناً وہ کرکٹ میں زیادہ بہتر انداز میں واپسی کرتے ہوئے اپنی بائولنگ کے ساتھ ساتھ بیٹنگ کے ذریعے بھی ٹیم کے لیے زیادہ بہتر خدمات پیش کرسکیں گے۔
اس اعلان کردہ ٹیم سے ڈراپ ہونے والے دوسرے کھلاڑی نوجوان عمر امین ہیں اور وہ بھی ڈراپ کیے جانے کے کسی حد تک خود ہی ذمے دار ہیں کیونکہ وقفے وقفے سے ملنے والے مواقعوں کے باوجود وہ ایک بھی بار بڑی اننگ کھیلنے یا ٹیم کو بحران سے نکالنے میں کامیاب نہ سکے۔
اس سلسلے میں سب سے خوش آئند امر اسد شفیق کی اسکواڈ میں موجودگی ہے، گو کہ وہ کچھ میچز سے اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے لیکن اس بات میں بھی شک نہیں کہ نوجوان بلے باز فائنل الیون میں شمولیت سے انصاف کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اس بار ان کو واقعی کچھ کر دکھانا ہو گا بصورت دیگر یہ سیریز ان کی رخصتی کا پروانہ بھی بن سکتی ہے۔
سری لنکا کے خلاف سیریز کے لیے اعلان کردہ اس پندرہ رکنی دستے میں شرجیل خان کی صورت میں ایک نیا نام بھی شامل ہے جن کے پاس موجودہ صورتحال میں اپنی صلاحیتوں کو منواتے ہوئے ٹیم میں جگہ بنانے کا بہترین موقع میسر ہے اور سیریز میں اچھی بلے بازی ان کے لیے مستقبل کی راہیں متعین کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
بقیہ ٹیم کی بات کی جائے تو یہ کافی حد تک مستحکم دکھائی دیتی ہے جہاں احمد شہزاد، صہیب مقصود، اسد شفیق، عمر اکمل بیٹنگ میں قابل اعتبار مصباح کے ساتھ کے لیے موجود ہوں گے تو دوسری جانب جنید خان، انور علی اور بلاول بھٹی پر مشتمل فاسٹ باؤلنگ اٹیک کو سعید اجمل، شاہد آفریدی، حفیظ اور عبدالرحمان کے مضبوط کاندھوں کا ساتھ حاصل ہو گا۔
مجموعی طور پر اس سیریز میں پاکستان کو مہیلا جے وردنے اور تلکارتنے دلشان سے محروم سری لنکن ٹیم پر واضح سبقت حاصل ہے اور وہ سیریز میں جیت کے لیے بجا طور پر فیورٹ ہے، اب دیکھنا ہے کہ کیا پاکستان ماضی کی روایت قائم رکھتے ہوئے سری لنکا پر اپنی برتری برقرار رکھے گا؟۔












لائیو ٹی وی