ناقص باؤلنگ یا قیادت؟

شائع December 19, 2013

پاکستان نے شارجہ میں ہونے والے پہلے ایک روزہ میچ میں جیسے تیسے کامیابی تو حاصل کر لی لیکن اس میچ میں سب زیادہ حیران کن اور پریشان کن عنصر مصباح الحق کی کپتانی تھی۔

ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے والی پاکستانی ٹیم نے ایک عرصے بعد 300 رنز کا ہندسہ عبور کیا اور اس سلسلے میں سب سے دلچسپ اور اہم بات یہ تھی کہ قومی بیٹنگ لائن نے یہ بڑا مجموعہ کپتان مصباح الحق کی معاونت کےبغیر حاصل کیا جسے یقیناً نیک شگون قرار دیا جاسکتا ہے۔

شرجیل نے اپنے کیریئر کی پہلی ایک روزہ اننگ میں ہی نصف اسکور کی
شرجیل نے اپنے کیریئر کی پہلی ایک روزہ اننگ میں ہی نصف اسکور کی

محمد حفیظ نے فارم میں واپسی کا ثبوت دیتے ہوئے سنچری جڑ کر ناصرف ناقدین کے منہ بند کر دیے اور سیریز کے بقیہ میچز کے لیے اعتماد بحال کیا جبکہ نوجوان کھلاڑیوں شرجیل خان اور صہیب مقصود نے بیٹنگ کے لیے جنت تصور کی جانے والی پچ پر اپنا انتخاب درست ثابت کر دکھایا۔

جہاں حفیظ، شرجیل اور صہیب کا اس مجموعے کے حصول میں اہم حصہ رہا وہیں آل راؤنڈر شاہ آفریدی کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی کے مترادف ہو گا جن کے 12 گیندوں پر 34 رنز بجا طور پر میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میچ میں سری لنکن فیلڈنگ خلاف توقع کسی کلب لیول کی ٹیم کے مقابل دکھائی دی جس نے اہم کیچز چھوڑنے کے ساتھ ساتھ کم و بیش 20 سے 30 اضافی رنز بھی دیے جو یقینی طور پر شکست کے اہم مندرجات میں سے ایک ہے۔

لیکن فتح و شکست سے قطع نظر میچ میں سب سے زیادہ پریشان کن پہلو مصباح الحق کی کپتانی تھی جس کے باعث ایک موقع پر جیتی ہوئی بازی پاکستان کے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دینے لگی تھی۔

اس سلسلے میں سب سے پہلا سوال ابتدائی دس اوورز تک محمد حفیظ اور سہیل تنویر سے لگاتار گیند بازی کرانا ہے، ایک بیٹنگ وکٹ پر جنید خان جیسے باؤلر کو گیارہویں اوور میں باؤلنگ پر لانا مکمل طور پر دفاعی حکمت عملی کی عکاسی کرتا تھا کیونکہ دنیا بھر میں اس طرح کی پچز پر فاسٹ باؤلر کو پہلے گیند بازی کا موقع فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ نئی گیند کا فائدہ اٹھا سکیں۔

پاکستانی باؤلرز ہر ہی اوور میں چھکے اور چوکے سے عزت افزائی کراتے رہے اور شائقین کرکٹ اضطراب کے عالم میں لالہ کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سری لنکن بلے بازوں نے پہلے ہی اوور سے جنید کو نشانے پر رکھا اور وہ میچ میں پاکستان کے سب سے مہنگے باؤلر ثابت ہوئے۔

جہاں مصباح نے جنید کو باؤلنگ میں دیر سے متعارف کرا کر غلطی کی تو دوسری جانب وہ خود بھی میچ میں عدم اعتماد کا شکار دکھائی دیے، اس کی وجہ واضح طور پر بائیں ہاتھ کے باصلاحیت فاسٹ باؤلر کو تسلسل کے ساتھ مواقع فراہم نہ کرنا ہے حالانکہ اس بات پر تمام ہی لوگ متفق ہیں کہ پاکستان کو موجودہ دور میں دستیاب فاسٹ باؤلرز میں جنید، محمد عرفان کے بعد سب سے اہم گیند باز ہیں۔

اس سلسلے میں دوسری اور شاید میچ کی اہم ترین غلطی شاہد آفریدی کو کوٹے کے اوورز مکمل نہ کروانا تھا اور اسی لیے فتح کے باوجود شائقین کرکٹ کے ذہنوں میں یہ سوال کوند رہا ہے کہ آخر سب سے بہترین باؤلنگ کے باوجود آل راؤنڈر کے اوورز مکمل کیوں نہیں کرائے گئے۔

جس وقت آفریدی کو باؤلنگ سے ہٹایا گیا، اس وقت سری لنکا نے 34 اوورز میں چار وکٹ پر 161 رنز بنائے تھے جہاں آفریدی نے اپنے سات اوورز میں صرف 30 رنز کے عوض کمار سنگاکارا سمیت دو اہم وکٹیں حاصل کی تھیں۔

اس موقع پر سری لنکا کو 16 اوورز میں 10 رنز فی اوور کی زائد کی اوسط سے 162 رنز درکار تھے لیکن اس موقع پر سری لنکن بلے بازوں نے جس انداز میں سعید اجمل سمیت دیگر پاکستانی باؤلرز کی درگت بنائی وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔

اس دوران پاکستانی باؤلرز ہر ہی اوور میں چھکے اور چوکے سے عزت افزائی کراتے رہے اور شائقین کرکٹ اضطراب کے عالم میں لالہ کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔

بہرحال سہیل تنویر نے کھیل ختم ہونے سے ایک اوور قبل وکٹ لے کر رنز کے بہاؤ کو روکا اور ہم جیتی بازی ہارتے ہارتے جیت گئے۔

اس میچ میں عمر اکمل کی وکٹ کیپنگ بھی لمحہ فکریہ رہی اور ان سے کچھ ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جو پاکستان کے میچ ہارنے کا سبب بن سکتی تھیں۔

عمر اکمل یقیناً ایک اچھے وکٹ کیپر بلے باز کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں جنہوں نے گزشتہ کچھ سیریز میں یہ ذمے داری بہت اچھے انداز میں نبھائی لیکن ٹیم مینجمنٹ کو چاہیے کہ وہ اکمل کو یہ باور کرائے کہ وہ اب ٹیم کے کل وقتی وکٹ کیپر ہیں لہذٰا اس منصب سے بھرپور انصاف کریں۔

ناتجربہ کار ٹیم کے خلاف پاکستان کی باؤلنگ پرفارمنس سے باؤلنگ کوچ کی 'کارکردگی' ایک بار پھر آشکار ہو گئی ہیں، خصوصاً جنید خان جیسے باؤلر سے ان کی صلاحیت کے مطابق پرفارم نہ کروانا اورنوجوان اسپیڈ اسٹار بلاول بھٹی کی بے اثر باؤلنگ کوچ کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہے۔

اب کچھ بات اگلے میچ کی جس میں ویسے تو کسی تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا تاہم باؤلنگ لائن میں انور علی کو شامل کیا جا سکتا ہے۔

لیکن جہاں بیٹنگ اور باؤلنگ کو بھرپور پرفارمنس کا مظاہرہ کرنا ہو گا وہیں مصباح کو بھی میچ میں جارحانہ انداز قیادت اپنانے کے ساتھ ساتھ گیند بازوں کا بھی صحیح انداز میں استعمال کرنا ہو گا کیونکہ قسمت ہر بار مہربان ثابت نہیں ہوتی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Dec 19, 2013 10:40pm
پاکستان‏ ‏کی‏ ‏بولنگ‏ ‏ہمیشہ‏ ‏سے‏ ‏مضبوط رھی‏ ‏ھے‏ ‏اور‏ ‏پاکستان‏ ‏کی‏ ‏کامیابی‏ ‏ہمیشہ‏ ‏بالروں‏ ‏کے‏ ‏زریعے‏ ‏حاصل‏ ‏کی‏ ‏ھے‏ ‏پاکستان‏ ‏کی‏ ‏کرکٹ‏ ‏ٹیم‏ ‏نے‏ ‏جیت‏ ‏بالروں‏ ‏کی‏ ‏وجہ‏ ‏سے‏ ‏کی‏ ‏ھے‏ ‏اور‏ ‏حالیہ‏ ‏میچ‏ ‏میں‏ ‏بالروںکی‏ ‏علط‏ ‏استعمال‏ ‏سے‏ ‏میچ‏ ‏بھنس‏ ‏گیا‏ ‏تھالیکن‏ ‏اس‏ ‏کے‏ ‏باوجود‏ ‏جنید‏ ‏کی‏ ‏‏ ‏باولنک‏ ‏کی‏ ‏وجہ‏‏ ‏سے ‏کھیل‏ ‏میں‏ ‏واپسی‏ ‏‏ ‏ھوئی‏ ‏

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025