ہم اساتذہ کی عزت کب کریں گے؟

جب تک ٹیچروں کو وہ عزت نہیں ملے گی جس کے وہ حقدار ہیں، تب تک معیاری تعلیم ایک خواب ہی رہے گی — فوٹو اے ایف پی
جب تک ٹیچروں کو وہ عزت نہیں ملے گی جس کے وہ حقدار ہیں، تب تک معیاری تعلیم ایک خواب ہی رہے گی — فوٹو اے ایف پی

1500 سے 200 قبلِ مسیح کے دوران، یعنی برصغیر میں اسلام کی آمد سے تقریباً 900 سال قبل ہندو دھرم میں سماجی رویوں کے قوانین پر مبنی کتاب "منوسمریتی" لکھی گئی تھی۔

اس میں پڑھنے والوں کو اس بات کا درس دیا گیا ہے، کہ سبق شروع ہونے سے پہلے اپنے اساتذہ کے پیر چھوئیں، اساتذہ کی کرسی پر بیٹھنے سے پرہیز کریں، اور جب جب وہ کمرے میں داخل ہوں، تو کھڑے ہو کر آداب بجا لائیں۔

نتیجتاً آرین سلطنت وجود میں آئی جس نے ہمیں کشن شاہی گھرانہ دیا، جنہوں نے شلوار قمیض، گندھارا تہذیب کا طرزِ تعمیر، اور سنسکرت زبان ایجاد کی۔

اسلامی تاریخ میں سے حضرتِ علی فرماتے ہیں کہ جس کسی نے بھی مجھے ایک بھی لفظ سکھایا، میں اس کا غلام ہوں۔

مورخین یہ بھی لکھتے ہیں کہ بارہویں صدی عیسوی کے بادشاہ ہارون الرشید، جس میں کئی نیکیاں اور کئی برائیاں مجتمع تھیں، کے بیٹے نماز کے بعد اپنے استاد کی چپلیں اٹھانے اور انہیں پہنانے میں مدد کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔

اسی دور کے مسلم علما اور سائنسدانوں نے ہمیں فزکس کا Snell's Law، الجبرا، اور آپٹکس کی معلومات دیں۔ اس کے علاوہ ابنِ جعفر کی کیمسٹری میں خدمات، اور ابنِ سینا کی القانون فی الطب، جسے 18ہویں صدی تک مغربی یونیورسٹیوں میں بھی میڈیسن کی بائبل قرار دیا جاتا تھا۔

اس کے بعد اٹلی میں حیاتِ نو کا دور شروع ہوا، جس میں علوم و فنون، ترقی اور خوشحالی کی جو بنیادیں رکھی گئی تھیں، وہ آج تک جاری ہیں۔ اٹلی کے لوگ جس طرح اپنے اساتذہ کی عزت کرتے ہیں، وہ مشہور دانشور اشفاق احمد کی اس آپ بیتی سے صاف ظاہر ہے۔

اشفاق احمد کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کا ٹریفک چالان ہوا، لیکن وہ مصروفیات کی وجہ سے وقت پر چالان نہ بھر سکے۔ مہلت ختم ہونے کے بعد انہیں عدالت میں طلب کیا گیا۔ جب جج نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے چالان کیوں نہیں بھرا، تو اشفاق احمد نے کہا کہ وہ ایک ٹیچر ہیں، اور کام کی زیادتی کی وجہ سے چالان بھرنے کے لیے وقت نہیں نکال سکے۔ یہ سننا تھا کہ جج نے تمام حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ کمرہ عدالت میں ایک ٹیچر موجود ہے۔ فوراً ہی جج اور تمام حاضرین احتراماً کھڑے ہوگئے، اور اشفاق احمد کا چالان ختم کر دیا گیا۔

ٹیچنگ بذاتِ خود کافی بے کشش جاب ہے، اس لیے ٹیچروں کو صرف دو باتیں سوچ کر ہی یہ کام کرنے کی ہمت ملتی ہے۔

پہلا یہ، کہ وہ اپنے شاگردوں کا مستقبل بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

دوسرا یہ، کہ انہیں ایسا کرنے کے لیے عزت ملتی ہے۔

پرائیویٹ اسکولوں اور پاکستان کے ماڈرن ایجوکیشن سسٹم میں داخل ہوں، تو آپ کو یہ دونوں باتیں نہیں ملیں گی۔

مجھے یاد ہے کہ میرے ایک او لیول کے ٹیچر باقاعدہ آنسوؤں کے ساتھ رو رہے تھے، کیونکہ وہ انتہائی بدتمیز بچوں اور اسکول انتظامیہ کے دوران بری طرح پھنسے ہوئے تھے۔ اسکول کی انتظامیہ کا اس بات پر اصرار تھا کہ بچوں کو ڈسپلن سکھانے کے لیے انہیں بالکل بھی ڈانٹا نہ جائے۔

میں ٹیچروں کی جانب سے شاگردوں کو مسلسل ڈانٹنے دھمکانے کا حامی نہیں ہوں، لیکن کبھی کبھی بچوں کو فری ہینڈ دیے جانے کے بجائے یہ ضروری ہوتا ہے۔ مشہور سائیکولاجسٹ B. F Skinner کے مطابق تھوڑی سی سزا سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ بچے کافی عرصے تک تمیز کے دائرے میں رہیں گے۔

لیکن بچوں کو سزا سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ والدین ٹیچروں کی عزت کریں، کیونکہ کسی بھی بچے کے لیے اپنا پہلا رول ماڈل اس کے والدین ہی ہوتے ہیں۔

ایسے جذباتی والدین کی کوئی کمی نہیں، جو اپنے بچوں کو بار بار یہ یاد دلاتے ہیں کہ ٹیچروں کو تنخواہیں ان کی فیسوں سے ملتی ہیں، اور جب لاڈلے بچے امتحانات میں رزلٹ دینے میں ناکام ہوجائیں تو بچوں کے سامنے ٹیچروں کو جھاڑ پلائی جاتی ہے۔

اس کی وجہ سے ان چھوٹے نوابوں کو اس بات کا موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی خامیوں کا الزام اپنے ٹیچروں پر ڈال دیں، جبکہ انہی کلاسوں میں موجود قابل اور باتمیز بچے انہی سبجیکٹس میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔

جب تک ٹیچر، بچے، اور والدین کے درمیان موجود ٹرائی اینگل میں والدین اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کریں گے، اور جب تک ٹیچروں کو وہ عزت نہیں ملے گی جس کے وہ حقدار ہیں، تب تک معیاری تعلیم ایک خواب ہی رہے گی۔

جب بچوں کو ٹیچروں کی کوئی قدر نہ ہو، تو بچوں کو زبردستی پڑھانے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا، بلکہ صرف ٹیچروں اور بچوں کے درمیان فاصلہ بڑھے گا۔

ایک بنجر زمین میں آپ کتنے ہی اچھے بیج بو دیں، کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔

ٹیچر کا کام محنت اور توجہ طلب ہے۔ اسے اپنی عزت کی قیمت پر کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں