انٹرنیٹ کے بغیر آپ پڑھ سکیں گے ای بکس

16 اکتوبر 2014
تاحال انٹرنیٹ کی سہولت کے بغیر آن لائن ای بکس پڑھنا ممکن نہیں ہے۔ —. فائل فوٹو اوپن سورس میڈیا
تاحال انٹرنیٹ کی سہولت کے بغیر آن لائن ای بکس پڑھنا ممکن نہیں ہے۔ —. فائل فوٹو اوپن سورس میڈیا

ریوڈی جنیرو، برازیل: آج سے بیس سال پہلے یہ سوال کیا جاتا کہ کیا ایک پوری لائبریری آپ کی جیب میں سما سکتی ہے؟ تو یہ انتہائی اچھنبے کی بات ہوتی، لیکن آج زیادہ تر لوگ اس کا جواب ہاں میں دیں گے، وہ آپ سے کہیں گے کہ اس کے لیے ایک ایسے موبائل فون کی ضرورت ہو گی، جس میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو۔

لیکن آج کی اس ترقی یافتہ جدید دنیا میں بھی لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے، جنہیں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے۔

جی ہاں ورلڈ وائیڈ ویب یعنی دنیا بھر میں پھیلا ہوا نٹرنیٹ کا جال، درحقیقت ورلڈ وائیڈ ویب نہیں ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں میک کینزی اینڈ کمپنی نے اپنی 120 صفحات پر مشتمل ایک جامع تحقیق کے ذریعے دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے راستے میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں حیرت انگیز حقائق پیش کیے ہیں۔

اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں لگ بھگ 4.4 ارب انسان آج بھی انٹرنیٹ کی بے مثال سہولت سے محروم ہیں۔

اور عجیب بات یہ ہے کہ ان میں سے 3.2 ارب انسان صرف بیس ملکوں میں رہتے ہیں۔

کچھ ملکوں میں انٹرنیٹ سے محروم افراد کی تعداد حیرت انگیز ہے۔ ہندوستان دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آف لائن آبادی کا گھر ہے۔ برازیل میں تقریباً دس کروڑ افراد انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔ یہاں تک کہ امریکا میں پانچ کروڑ افراد انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتے، البتہ ان میں سے زیادہ تر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے انٹرنیٹ سے دور ہیں۔

تاہم ایسےلوگ جنہیں آج بھی انٹرنیٹ کی سہولت تک رسائی حاصل نہیں ہے، ان کے لیے برازیل کے سید گریم نے ایک حل نکالا ہے۔

سید کریم نے ایک کمپنی قائم کی ہے جس کا نام ہے آؤٹرنیٹ۔ وہ برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں رہتے ہیں۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سید کریم کاکہنا ہے کہ جب آپ انٹرنیٹ کہتے ہیں، آپ دو اہم چیزوں کی بات کرتے ہیں: مواصلات اور معلومات کی رسائی، مواصلات کا حصہ انٹرنیٹ کو مہنگا بنا دیتا ہے۔

سیٹیلائٹ کے ذریعے نشر کی جانے والی اطلاعات کو زمین پر اینٹینا وصول کرکے وائی فائی کے ذریعے اسمارٹ فون یا لیپ ٹاپ کو منتقل کردیا جائے گا۔ —. فائل فوٹو اوپن سورس میڈیا
سیٹیلائٹ کے ذریعے نشر کی جانے والی اطلاعات کو زمین پر اینٹینا وصول کرکے وائی فائی کے ذریعے اسمارٹ فون یا لیپ ٹاپ کو منتقل کردیا جائے گا۔ —. فائل فوٹو اوپن سورس میڈیا

سید کریم کہتے ہیں کہ اسی چیز کو مدّنظر رکھتے ہوئے ان کی کمپنی آؤٹرنیٹ نے اطلاع پر زور دیا ہے۔

ان کے منصوبے کے تحت وكيپيڈيا، اور کاپی رائٹ سے آزاد ای بکس سمیت دنیا کی سب سے اہم ویب لائبریری کا تیار کی جائے گی،جسے ہر ماہ اپ ڈیٹ بھی کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ، اس میں خبروں کے بلیٹن اور خطرات کی اطلاعات کو بھی شامل کیا جائے گا، انہیں ایک گھنٹے میں کئی بار اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔

یہ ساری اطلاعات سیٹلائٹ کے ذریعے نشر کی جائیں گی اور زمین پر اینٹینا میں لگا رسیور انہیں وصول کرے گا۔

اس کے بعد، رسیور وائی فائی کا لنک تشکیل دے گا جس سے اس ڈیٹا کو اسمارٹ فون اور کمپیوٹرز پر منتقل کیا جا سکے گا۔

سید کریم نے بتایا کہ مثال کے طور پر، مشرقی افریقہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں اس طرح نصب اینٹینا سے ارد گرد کے 300 افراد درجنوں ای بکس اور دیگر معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ’’اگر آپ اینٹینا سے قریب ہیں، جہاں مصنوعی سیارے سے اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، تو آپ اپنے فون پر آؤٹرنیٹ سے منسلک لائبریری تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں، دراصل یہ ایک آف لائن ویب سائٹ ہے۔‘‘

سید کریم اپنے بیٹے کے ساتھ۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا
سید کریم اپنے بیٹے کے ساتھ۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا

چونکہ آؤٹرنیٹ یکطرفہ مواصلاتی سہولت ہے، اس لیے اس کے ذریعے ای میل یا چیٹ کی سہولت فراہم نہیں کی جا سکتی۔ لیکن صارفین اس میں دیے گئے آپشن کو ایس ایم ایس کرکے کسی خاص مواد کی تلاش کر سکتے ہیں۔

فی الحال یہ کمپنی کے ڈیٹا جمع اور نشر کرنے کے لیے موجودہ آڈیو اور ویڈیو مصنوعی سیارہ کو استعمال کر رہی ہے۔

سید کریم نے بتایا کہ تاحال ایک دن میں 200 میگابائٹس ڈیٹا کی نشریات ممکن ہے، لیکن انہوں نے اس میں 100 گيگاباٹس یا اس سے بھی زیادہ کرنے کا ہدف مقرر کررکھا ہے۔

انہوں نے کہا، ’’آؤٹرنیٹ کا پہلا نمونہ کچھ قیمتی ہے، لیکن ہم رسیور کی قیمت 20 ڈالر تک نیچے کم کر سکتے ہیں۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں