علاج اچھا، پر غریب کے لیے نہیں

30 جنوری 2015
پاکستان کو ایسا نظامِ صحت درکار ہے جو کم آمدنی والے طبقات کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرے —رائٹرز
پاکستان کو ایسا نظامِ صحت درکار ہے جو کم آمدنی والے طبقات کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرے —رائٹرز

ان کے ماہر ہاتھوں میں میری والدہ کا دل تھا۔ اٹینڈنٹس، ڈاکٹروں اور نرسوں کی ایک محنتی اور تجربہ کار ٹیم دل کی دھڑکنوں کو واپس ترتیب میں لانے کی کوششیں کر رہی تھی۔ آخر کئی دنوں اور راتوں کی محنت کے بعد ان کی کوششیں رنگ لائیں، دل کی بے ترتیب دھڑکنیں سنبھلیں اور دیگر پیچیدگیوں کا خطرہ کم ہو گیا۔

میں نے پہلی بار پاکستان میں صحت کا فعال نظام دیکھا۔

میرے خاندان نے پچھلے دو ہفتے شعبہ نگہداشتِ قلب (Cardiac Care Unit) سے میرے والدین کے گھر اور وہاں سے ڈائیگنوسٹک لیبارٹریز کے چکر لگاتے ہوئے گزارے۔ میں نے بہترین آلات سے لیس آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیولاجی اینڈ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈزیز (AFIC-NICD) کو انتہائی بیمار مریضوں کو ماہرانہ علاج کی خدمات فراہم کرتے ہوئے دیکھا۔

میں کئی پرائیویٹ لیبارٹریز گیا جنہوں نے پیچیدہ ڈائیگنوسٹک ٹیسٹ بھی بہت ہی کم وقت میں مکمل کر دیے۔ میں ان اسپیشلسٹس سے ملا جن کی امراضِ قلب کی معلومات اور اس شعبے میں مہارت ترقی یافتہ ممالک کے ڈاکٹروں کے برابر ہیں۔

پڑھیے: سعودی عرب میں ذلّت اور موت

میں نے یہ جانا کہ اگر آپ استطاعت رکھتے ہیں، تو پاکستان کا نظامِ صحت کئی ترقی یافتہ ممالک کو بھی مات دے سکتا ہے جہاں اسپیشل علاج کے لیے ڈاکٹروں کا اپائنٹمنٹ بسا اوقات کئی مہینوں تک بھی نہیں ملتا۔

پچھلے دو ہفتوں نے مجھے ایک دو اہم سبق سکھائے ہیں:

پہلا: پاکستان میں صحت کی بہترین سہولیات دستیاب ہیں، لیکن اس کی ایک قیمت ہے۔

دوسرا: پاکستانیوں کی اکثریت اس ماہرانہ ہیلتھ کیئر کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی جس کی اسے ضرورت ہے۔ اس لیے چیلنج یہ ہے کہ کم استطاعت رکھنے والے لوگوں تک ان سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

ڈاکٹروں پر اعتماد کی بحالی

یہ سب 11 جنوری کو تب شروع ہوا جب مجھے وہ فون کال آئی جس کا خوف بیرونِ ملک رہنے والے تمام افراد کو ہوتا ہے؛ مجھے میری والدہ کی علالت اور AFIC میں ان کے علاج کے بارے میں اطلاع دی گئی۔ 48 گھنٹوں میں میں راولپنڈی پہنچ چکا تھا، جس کے لیے میں ٹورنٹو میں قونصلیٹ جنرل کا شکرگذار ہوں جنہوں نے سفری دستاویزات اسی رات تیار کر دیں اور اگلے دن ٹورنٹو سے اسلام آباد کی براہ راست فلائٹ کا بھی انتظام کر دیا۔

پاکستان میں میری والدہ کو کیسا علاج ملے گا، اس بارے میں مجھے شبہات تھے، اور یہ شبہات کئی وجوہات کی بنا پر تھے۔

ڈاکٹروں کی غفلت کی وجہ سے میری پیدائش کے وقت میرا ایک بازو ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو گیا۔ ایک بازو کے ساتھ زندگی گزارنے کی اپنی مشکلات ہیں اور اسی وجہ سے مجھے پاکستان کے نظامِ صحت پر اعتماد نہیں تھا۔

مزید پڑھیے: معذوری کی وجہ: ڈاکٹروں کی غفلت

اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترتے ہی میں سیدھا ہسپتال گیا۔

میں نے اے ایف آئی سی میں جو دیکھا، اس نے میڈیکل پروفیشن پر میرا یقین دوبارہ مستحکم کر دیا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ ڈاکٹر اپنے کام میں ماہر تھے، بلکہ جس طرح اٹینڈنٹس مریضوں کی عزت اور دیکھ بھال کرتے ہیں، وہ بھی بے مثال ہے۔

ڈسپلن کا پابند اسٹاف اس بات کو یقینی بنا رہا تھا کہ مریض کے خیرخواہ ہال اور ایمرجنسی وارڈ میں زیادہ تعداد میں موجود نہ رہیں، اور پیشنٹ کیئر سپلائی چین خودکار نظام کے تحت مریضوں تک دوائیں پہنچا رہی تھی۔

نظامِ صحت کی کوالٹی ڈاکٹروں کی مہارت اور تشخیص اور علاج کے لیے آلات کی موجودگی اور فوری دستیابی پر منحصر ہوتی ہے۔ اے ایف آئی سی ان دونوں معیار پر پورا اترتا ہے۔

میں ڈاکٹر سہیل عزیز اور ڈاکٹر عظمت حیات سے سب سے زیادہ ملا۔ دونوں ہی ڈاکٹروں کا دہائیوں پر مشتمل تجربہ ہے جو قدرتی طور پر مریضوں اور ان کے لواحقین کو سکون پہنچاتا ہے۔ ڈاکٹروں نے فوراً ہی مرض کی تشخیص کر لی اور علاج تجویز کر دیا۔

یونیورسٹی میں میرے کئی دوست، خاندان کے افراد اور دوست شمالی امریکہ میں طب سے وابستہ ہیں۔ میں روزانہ ہی ان سے اپنی والدہ کی حالت اور علاج کے بارے میں ان سے گفتگو کرتا تھا اور ہر دفعہ انہوں نے یہی کہا کہ وہ بھی وہی علاج تجویز کرتے جو پاکستانی ٹیم نے کیا ہے۔ یہ بات بہت ہی تسکین اور اعتماد کا باعث تھی۔

نہ صرف یہ کہ اے ایف آئی سی کی لیبارٹریاں جدید آلات سے لیس تھیں، بلکہ کئی پرائیویٹ لیبارٹریاں بھی یہی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ ہم صرف دو گھنٹے کے نوٹس پر ہی ایم آر آئی بک کروانے میں کامیاب رہے جبکہ کینیڈا میں اپنی ساس کا ایم آر آئی کروانے میں تین ماہ کا عرصہ لگا تھا۔

کینیڈا اور کئی یورپی ممالک میں سرکاری ہیلتھ انشورنس علاج معالجے اور دیگر سہولیات کے اخراجات ادا کرتی ہے۔ کینیڈا میں بغیر ایمرجنسی کا ایم آر آئی کروانے میں تین ماہ لگ گئے ہوں، لیکن مریض سے تشخیص کے پیسے نہیں لیے جاتے۔

پاکستان میں ہم تمام ٹیسٹ فوراً کروا لینے میں کامیاب رہے، لیکن اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔ زیادہ تر پاکستانیوں کے لیے صرف ایم آر آئی بھی پہنچ سے باہر ہوگا۔

میں نے جو سسٹم بتایا اور جس کی تعریف کی ہے یہ قیمت کے بدلے علاج کا ماڈل ہے۔ پاکستان کو ایسا نظامِ صحت درکار ہے جو کم آمدنی والے طبقات کو بھی صحت کی وہی سہولیات فراہم کرے۔

ہارورڈ انٹرنیشنل ریویو کے لیے لکھتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر محمد حفیظ خبردار کرتے ہیں غربت بیماریوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ اخراجاتِ زندگی، خاص طور پر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ 75 فیصد افراد صحت کی خدمات نجی اداروں سے حاصل کرتے ہیں۔

جانیے: ایک نیا تجربہ

غربت میں اضافے اور صحت کی سرکاری سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے غریب لوگ اب کئی مسائل کا شکار ہیں کیونکہ وہ صحت کے اخراجات افورڈ نہیں کر سکتے۔ پروفیسر حفیظ تقابلی ڈیٹا کی مدد سے یہ بتاتے ہیں کہ آپ کسی بھی پیمانے پر پرکھیں، پاکستان صحت کے شعبے میں انتہائی کم سرمایہ کاری کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو صحت پر کیا جانا والا خرچہ کم از کم بھی جی ڈی پی کے 5 فیصد کے برابر لانا چاہیے۔ وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ہیلتھ کیئر کو روک تھام اور بنیادی سطح تک لانا چاہیے۔ اس کے علاوہ جینیرک دواؤں کو فروغ دینا چاہیے تاکہ ادویات پر ہونے والے اخراجات بھی کم کیے جا سکیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں