نریڑی: سفر حیات اب تمام ہوا!

نریڑی: سفر حیات اب تمام ہوا!

تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ

حسنِ فطرت سے لگاؤ رکھنے والے بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ "اس سے زیادہ خوبصورت آب گاہ ہم نے زندگی میں نہیں دیکھی۔" اب کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ "جیسی یہ آب گاہ اُجڑی ہے ایسا کبھی کسی دوسری آب گاہ کو اُجڑتے ہوئے نہیں دیکھا۔"

زوال اتنا ہی بڑا ہوتا ہے جتنا کمال؛ خوبصورتی اور بدصورتی، کمال اور زوال کی کہانیوں کی ابتدا جتنی خوبصورت ہوتی ہے، ان کا انجام اتنا ہی دکھ دینے والا ہوتا ہے۔ آپ کو درد کا احساس تب ہی ہوگا جب آپ نے زوال کی شکار چیزوں کا عروج دیکھا ہو۔ ایسی ہی کہانی نریڑی آب گاہ کی بھی ہے۔

نریڑی آب گاہ دراصل کم گہرے پانی والی ایک طویل و عریض آب گاہ ہے جو کہ سمندر اور سیم نالوں کے ذریعے نکاس ہونے والے کھارے پانی سے مل کر قدرتی طور پر بنی ہے۔ یہ ضلع بدین کی تحصیل فاضل راہو، جس کا پرانا نام گولاڑچی تھا، میں واقع ہے۔ کراچی سے جنوب مشرق کی سمت میں اس کا فاصلہ تقریبا 190 کلومیٹر اور بدین سے لگ بھگ 40 کلومیٹر ہے۔ آب گاہ کا کُل رقبہ 2 ہزار 540 ہیکٹر (6277 ایکڑ) ہے۔ اس کی زیادہ تر زمینیں نجی ملکیت میں شامل ہیں تاہم 77 ہیکٹر (190 ایکڑ) سندھ بورڈ آف روینیو کی ملکیت ہے۔

نریڑی آب گاہ قرب و جوار کی تین آب گاہوں کے ساتھ منسلک ہے۔ ان میں جھبو، پٹیجی اور چولری شامل ہیں۔ واضح رہے کہ نریڑی اور جھبو کو 2001ء میں محفوظ آب گاہوں کے عالمی معاہدے 'رامسر کنوینشن' کے تحت "محفوظ آب گاہ" کا عالمی درجہ بھی دیا جا چکا ہے۔

عالمی اہمیت کی محفوظ قرار دی گئی آب گاہوں کے بارے میں رامسر کنوینشن ہیڈ کوارٹر، سوئٹزرلینڈ کی مرتب کردہ ڈائریکٹری کے مطابق نریڑی، بہترین قدرتی آب گاہ تھی۔ یہ 90ء کی دہائی تک موسم سرما میں موسمی ہجرت کر کے آنے والے آبی پرندوں کی ایک بہترین جائے قیام تھی۔ 1972 ء سے لے کر 1990ء کے درمیانی عرصے میں یہاں طیور شماری کے لیے کیے گئے مختلف سرویز کے اعداد و شمار کے مُطابق سالانہ تناسب تقریباً پچاس ہزار کے لگ بھگ رہا ہے۔

اس عرصے کے دوران صرف ایک موسم سرما میں یہاں شمار کیے گئے پرندوں کی تعداد تقریبا 1 لاکھ 14 ہزار 700 ریکارڈ کی گئی۔ ان پرندوں میں بڑی تعداد ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی تھی، جس میں زیادہ تر لق لق، لمبی چونچ والے چہے، crested terns اور مرغابیاں وغیرہ شامل تھیں۔ حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے اتنی اہمیت کے باوجود نریڑی کے تحفظ کے لیے نہ تو کوئی قانون سازی کی گئی ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی مینیجمنٹ پلان تیار ہوا ہے۔

اگرچہ یہ آب گاہ مجموعی طور پر بالواسطہ اور بلاواسطہ تین سے چار ہزار افراد کے لیے روزگار کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ ہے، مگر ان اقدامات کی غیر موجودگی کے سبب یہاں نہ صرف موسم سرما میں بڑی تعداد میں غیر قانونی شکار ہوتا ہے بلکہ بے دریغ ماہی گیری بھی کی جاتی ہے۔ تحفظ کے اقدامات کی غیر موجودگی کے سبب یہ آب گاہ اور یہاں پائی جانے والی حیاتیاتی تنوع خطرے سے دو چار ہے۔"

قدرت کے تحفظ کے عالمی ادارے آئی یو سی این پاکستان سے وابستہ آب گاہ شناس ڈاکٹر نجم خورشید نریڑی سے متعلق بتاتے ہیں کہ "نریڑی آب گاہ کا تقابل دنیا کی کسی بھی اچھی آب گاہ سے کیا جا سکتا تھا۔ 1986ء سے 1990ء کے دوران حکومت سندھ کے محکمہء جنگلی حیات سے وابستگی کے دوران میں نے بار بار اس آب گاہ کا دورہ کیا اور یہاں موجود پرندوں کی تعداد شماری کی ہے، خاص طور پر فلیمنگو تو بڑی تعداد میں یہاں دیکھے جاتے تھے۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ انہیں شمار کرنا بہت مشکل کام تھا۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے اس آب گاہ پر فلیمنگوز کی اتنی بڑی تعداد دیکھی کہ وہ ایک دیوار کی مانند نظر آ رہے تھے اور یہ دیوار تقریبا دو سے تین کلومیٹر طویل دکھائی دے رہی تھی۔ ان میں نہ صرف بالغ بلکہ چھوٹے چھوٹے فلیمنگوز کی بھی اچھی خاصی تعداد شامل تھی۔"

ڈاکٹر نجم مزید کہتے ہیں کہ "صرف فلیمنگوز ہی نہیں بلکہ میں نے نریڑی پر حواصل (پیلیکن) کی بھی تقریباً تین سے ساڑھے تین ہزار تک کی تعداد صرف ایک وقت میں دیکھی۔ یہاں ہر سال کونجوں کی بڑی تعداد دیکھی جاتی تھی جو اپنی سرمائی ہجرت کے دوران یہاں قیام کرتیں اور تازہ دم ہو کر اگلے پڑاؤ کی جانب چل دیتی تھیں۔ آبی پرندں کے لیے تو نریڑی مثلِ جنت تھی لیکن خشکی پر رہنے والے پرندے بھی اس آب گاہ کے نزدیک اچھی خاصی تعداد میں دیکھے جا سکتے تھے۔ ان پرندوں میں تلور اور بڑے سر والے اُلو قابِل ذکر ہیں۔"

نریڑی آب گاہ کی خوبصورتی اور عروج کا دور ابھی تک مقامی اور فطرت سے پیار کرنے والے دوسرے لوگوں کے ذہنوں میں پھولوں کی طرح مہکتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس وسیع و عریض آب گاہ کے کناروں پر سرکنڈوں اور پن گھاس کی بہتات تھی۔ آب گاہ کے اندر بھی جہاں زمین کا کوئی ٹکڑا پانی سے اوپر ہوتا، وہاں بھی سرکنڈوں، نڑ اور لئی کی جھاڑیاں اُگ آتی تھیں۔ اس چھوٹے سے جنگل میں مقامی و موسمی ہجرت کرنے والے آبی پرندوں کی رہائش ہوا کرتی تھی۔ سرکنڈوں کی جھاڑیوں میں خشکی کے پرندوں کے آشیانے ہوتے، جن میں وہ اپنی نسل کا تحفظ کرتے تھے۔

یہاں موجود مقامی پرندوں خاص طور پر گرے ہیرون (Grey Heron)، جل مرغی اور مرغابیوں سمیت دیگر پرندوں کی بہتات تھی۔ یہ پرندے آب گاہ میں پائی جانے والی چھوٹی چھوٹی مچھلیوں، گھاس اور آبی پودوں کے بیجوں پر پلتے تھے۔ آب گاہ میں تازہ پانی کی مچھلیوں کی متعدد اقسام وافر تعداد میں پائی جاتی تھی۔ آب گاہ کے کنارے پر تقریباً دو سو خاندان بستے تھے۔ مچھلیوں اور پرندوں کا شکار ان کے لیے فراہمی معاش کے علاوہ خوراک کا بھی اہم ذریعہ تھا لیکن اس شکار کی خاص بات یہ تھی کے اس میں بندوق کے بجائے جال اور دیگر روایتی طریقوں کا استعمال کیا جاتا اور یہ خیال رکھا جاتا کہ شکار اتنا ہی کیا جائے جتنی ضرورت ہو، تاکہ پرندوں اور مچھلیوں کی افزائش نسل کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔

حالات یونہی رہتے تو آب گاہ کی خوبصورتی اور اس کے کنارے آباد لوگوں کی معاشی حالت بھی سدھری رہتی مگر کمال کے بعد زوال کا لمحہ آیا اور یہ لمحہ نریڑی کی آبی حیات کے لیے موت کا پیغام ثابت ہوا!

حالات بدلے تو سب کچھ بدلنے لگا۔ پانی حیات کا پیغام ہے لیکن کبھی کبھی ہوس انسانی کی وجہ سے یہ موت کا روپ بھی دھار لیتا ہے۔ یہی سب کچھ "نریڑی" کے زندگی سے بھرپور پانی کے ساتھ بھی ہوا۔ چند برس قبل دولت کی ہوس میں مبتلا ایک ٹھیکیدار نے سرکاری کار پردازوں سے آب گاہ سے مچھلی پکڑنے کا ایک ٹھیکہ حاصل کیا۔ جال سے بہت زیادہ مچھلیاں پکڑنا ممکن نہیں رہا تو زیادہ منافع کی لالچ میں ٹھیکیدار نے آب گاہ کے پانی میں زہر چھوڑدیا۔ یہ زہریلا طریقہ ٹھیکیدار کو تھوڑے سے وقت میں سیکڑوں ٹن مچھلی تو دے گیا اور وہ ان کو فروخت کرکے دام سمیٹ کر چلتا بھی بنا مگر نریڑی کی کوکھ بانجھ ہوگئی، فطرت اس سے روٹھنے لگی اور موت کو یہاں اپنا مسکن بنانے کا موقع مل گیا۔

فطرت اپنے حساب سے چلتی ہے۔ اس کے عمل کرنے کے اپنے طریقے ہیں لیکن انسان ہوس کی چکاچوند میں فطرت کے اصول و تقاضے بھول جاتا ہے۔ نریڑی کی کوکھ مچھلی سے خالی ہوئی تو اس کے پانی اور درختوں و جھاڑیوں پر بنے آشیانوں سے پرندے بھی رخصت ہوئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی آفت ان جیتے جاگتے انسانوں پر حملہ آور ہوئی جو اس آب گاہ کے پڑوسی تھے اور یہ ان کے گزر اوقات کا واحد ذریعہ تھی۔ آب گاہ کی کوکھ اُجڑنے کے ساتھ ان خاندانوں کے "تس" (جس برتن میں آٹا رکھا جاتا ہے) بھی خالی ہوگئے۔

موسم نے بھی اس دوران اپنی آنکھیں پھیر لیں اور طویل خشک سالی کی بدولت تازہ پانی نہ ملنے کے سبب نریڑی کے دوبارہ جی اٹھنے کی امید بھی دم توڑتی چلی گئی۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، جب مئی 1999ء میں "سائیکلون A2" آیا اور بادل دل کھول کے برسے، تو نریڑی کی تباہی پر مہر تصدیق ثبت ہوگئی۔ طوفان نے مہمیز دی تو سمندر خشکی پر چڑھ دوڑا اور اس نے آب گاہ کو اپنے کڑوے پانی سے بھر دیا۔ سمندر یہاں کے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے اور یہ اسے اپنی مقامی زبان میں "دریا بادشاہ" کہتے ہیں، لیکن بپھرے بادشاہ نے اپنے پانی سے ان کی زندگی میں ایسی کڑواہٹ گھول دی کہ اُن کی زندگی کا ذائقہ ہی بدل کر رہ گیا۔

اس وقت حالت یہ ہے کہ آب گاہ کی حدود کا علیحدہ سے تعین کرنا سخت مشکل ہے اور یہ مسلسل سمندر کے چڑھاؤ کی زد میں ہے جس کے باعث اس کا آبی توازن بُری طرح متاثر ہوا ہے اور یوں انواع اقسام کے پرندوں کے حوالے سے نریڑی کا عروج قصہ پارینہ ہوگیا ہے۔ نریڑی کے گرد و نواح میں جہاں مچھیروں کی جھونپڑیاں تھیں، اب وہاں پرانے گھروں اور کچے آنگنوں کے صرف نشانات ہی رہ گئے ہیں۔ نریڑی آب گاہ کی وہ خوبصورتی جسے دیکھ کر زندگی سے پیار ہونے لگتا تھا اب موت کی ہولناکی کی داستان سناتی ہوئی نظر آتی ہے۔

یہ دردناک کہانی فقط نریڑی آب گاہ کی ہی نہیں بلکہ زیریں سندھ میں انڈس ڈیلٹا میں واقع ان زیادہ تر آب گاہوں کی نمائندہ داستان ہے جو سمندر کے خشکی پر در آنے کے باعث موت کا شکار ہوئیں اور ان کناروں پر آباد لوگوں کے ہنستے بستے صحن ویران ہوئے جن پر آج فطرت بھی نوحہ کناں ہے۔

قدرت کی بے رحمی ان آب گاہوں کی تباہی کی اتنی ذمہ دار نہیں جتنی انسانی غفلت ہے۔ لیکن کیا کسی بھی ذمہ دار کو اس بات پر افسوس ہے؟


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔