ایک گمنام پاکستانی ہیرو

ایک گمنام پاکستانی ہیرو


محمد ایوب اسلام آباد کے ایک پارک میں قائم عارضی اسکول میں بچوں کو پڑھاتے ہوئے— اے پی فوٹو
محمد ایوب اسلام آباد کے ایک پارک میں قائم عارضی اسکول میں بچوں کو پڑھاتے ہوئے— اے پی فوٹو

پاکستان کے دارلحکومت میں کسی بھی دن یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ نوجوانوں کا ایک بڑا گروہ کتابیں لیے ایک کھلے میدان میں بیٹھ کر اوپن ایئر اسکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہوتا ہے ۔

یہ اسکول محمد ایوب نامی شخص کی برسوں کی محنت کا ثمر ہے۔

محمد ایوب ایک ایسے پاکستانی جنھوں نے اپنے دم توڑتے والد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کی تعلیم کو یقینی بنائیں گے اور پھر ان کی زندگی نادار بچوں کو تعلیم دینے کے لیے وقف ہوکر رہ گئی۔

اٹھارہ مارچ کی اس تصویر میں محمد ایوب غریب بچوں کو پڑھا رہے ہیں— اے پی فوٹو
اٹھارہ مارچ کی اس تصویر میں محمد ایوب غریب بچوں کو پڑھا رہے ہیں— اے پی فوٹو

تین دہائیوں سے وہ اس مشن پر کام کررہے ہیں اور ان بچوں کو اس سے فائدہ ہورہا ہے جن کے پاس محمد ایوب کے اوپن ایئر اسکول کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں۔

پیر کے روز لاہور میں ہونے والی ایک تقریب میں محمد ایوب نے کہا کہ اتعلیم حاصل کرنا بہت ضروری ہے اور وہ اپنی زندگی بچوں کو تعلیم دیتے گزار دینگے۔

محمد ایوب نے اپنے بیمار والد سے بہن بھائیوں کو تعلیم دلوانے کا وعدہ کیا اور پھر یہ ان کی زندگی کا مشن بن گیا
محمد ایوب نے اپنے بیمار والد سے بہن بھائیوں کو تعلیم دلوانے کا وعدہ کیا اور پھر یہ ان کی زندگی کا مشن بن گیا

انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو اس جگہ کا بتایا جہاں وہ بچوں کو پڑھاتے ہیں اور کہا کہ وہ اپنی آخری سانس تک اس مشن کو جاری رکھیں گے۔

محمد ایوب 1976 میں اپنے والد کے انتقال کے بعد منڈی بہائو الدین سے اسلام آباد ملازمت کی تلاش میں آئے تاکہ اپنے سات بہن بھائیوں کی پرورش کرسکیں۔

اسلام آباد آکر انہیں ایمرجنسی سروسز میں نچلی سطح کی پوزیشن پر کام کرنے کا موقع ملا جہاں سخت محنت کرتے ہوئے انہوں نے نئی صلاحتیں جیسے فرسٹ ایڈ اور فائرفائٹنگ کے ساتھ ساتھ بم کو ناکارہ بنانا بھی سیکھا اور بتدریج مکمل فائر فائٹر بن گئے تاہم وہ کبھی اپنے والد سے کیے گئے وعدے کو نہیں بھولے۔

محمد ایوب چند بچوں کے ساتھ — اے پی فوٹو
محمد ایوب چند بچوں کے ساتھ — اے پی فوٹو

انہوں نے بتایا کہ 1985 میں ایک دن انہوں نے ایک ریسٹورنٹ میں ایک بچے کو میز صاف کرتے دیکھا جو کہ بالکل ان کے چھوٹے بھائی کی طرح لگ رہا تھا اس ہی وقت ان کے ذہن میں یہ ایک خیال آیا اور انہوں نے اس بچے کو پڑھانے کا فیصلہ کیا اور وہیں سے ان کے اس اسکول کے مشن کا آغاز ہوا۔

اسی طرح انہوں نے دکانوں اور ہوٹلوں میں کام کرنے والے بچوں کو ایک سے دو گھنٹے تک پڑھنے کے لیے قائل کیا اور اپنا اسکول کھولا۔

محمد ایوب ایک کچی بستی میں بچوں سے ملتے ہوئے — اے پی فوٹو
محمد ایوب ایک کچی بستی میں بچوں سے ملتے ہوئے — اے پی فوٹو

انہوں نے طالب علموں کو ریاضی، اردو اور بنیادی انگریزی کی تعلیم دی۔

اس مشن میں تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ تر بچے وہ تھے جو دن میں اسکول جانے کے بجائے کام کرتے تھے۔

ان کی اس کوشش کو حکومتی حلقوں میں بھی سراہا گیا ہے — اے پی فوٹو
ان کی اس کوشش کو حکومتی حلقوں میں بھی سراہا گیا ہے — اے پی فوٹو

گزرے برسوں میں محمد ایوب کے پاس رضاکاروں کی ایک چھوٹی سے فوج اکھٹی ہوگئی جن میں ایک ریٹائرڈ اسکول پرنسپل، ایک ڈاکٹر، ایک فائر مین اور متعدد پرانے طالبعلم شامل ہیں جو کہ اسکول اآنے والے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔

محمد ایوب کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے ان کو پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کرنے کا فیصلہ کیا۔

س مشن میں تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ تر بچے وہ تھے جو دن میں اسکول جانے کے بجائے کام کرتے تھے— اے پی فوٹو
س مشن میں تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ تر بچے وہ تھے جو دن میں اسکول جانے کے بجائے کام کرتے تھے— اے پی فوٹو

عرفان صدیقی جو اس اعزاز کے مستحق افراد کا انتخاب کرنے والی کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، نے غیراعلانیہ محمد ایوب کے اسکول کا دورہ کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ایوب معاشرے کے لیے عظیم خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔

محمد ایوب کے اسکول کا ایک منظر — اے پی فوٹو
محمد ایوب کے اسکول کا ایک منظر — اے پی فوٹو