پی ٹی آئی کا جوڈیشل کمیشن سے نیا مطالبہ
اسلام آباد : اس وقت جب ایسا نظر آتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن گواہوں کے بیانات اور شواہد اکھٹا کرنے کے عمل کے اختتام کے قریب ہے، پاکستنا تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے ایسے مزید شعبوں کی نشاہدہی کی ہے جن میں مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔
ہفتہ کو عبدالحفیظ پیرزادہ کی جانب سے جمع کرائی گئی ایک درخواست میں پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ کارروائی کے ' تفتیشی' پہلو کے حوالے سے تحقیقاتی عمل کو مزید آگے بڑھایا جائے تاکہ کمیشن صدارتی آرڈنینس کے تحت اپنی قانونی ذمہ داریوں سے مکمل سبکدوش ہوسکے۔
اس درخواست میں مزید تحقیقات کا کہا گیا ہے اب خصوصی طور پر کمیشن کی جانب سے ہو یا سیاسی جماعتوں کی مدد سے، جس سے ریکارڈ میں موجود تمام شواہد، بیانات اور مواد پر مزید توجہ مرکوز کی جائے گی۔
کمیشن کی توجہ مزید پہلوﺅں کی جانب دلاتے ہوئے درخواست میں مشورہ دیا گیا ہے کہ ایک سب سے اہم معاملہ متعدد حلقوں میں اضافی بیلٹ پیپرز کی چھپائی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے مطابق پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں ووٹنگ کی اوسط شرح 55 فیصد ہے اور یہ اعدادوشمار پی ٹی آئی نے موصول ہونے والے فارم 15 سے مرتب کیے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ ضروری ہوگیا ہے کہ کمیشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام حلقوں کے ریٹرننگ افسران سے ایک رپورٹ طلب کرکے مزید تحقیقات کرائے۔ ان آر اوز سے وضاحت طلب کی جائے کہ کیا انہوں نے ای سی پی کے جاری کردہ ایکشن پلان پر عملدرآمد کیا اور اگر ہاں تو اس حوالے سے شواہد طلب کیے جائیں۔
پی ٹی آئی نے کمیشن سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ وہ نادرا سے اب تک کی تیار کردہ تمام پری اسکیننگ رپورٹس کو طلب کرے، یہ پری اسکیننگ رپورٹس انتخابی اشیاءکی جامع فہرست ہے جو درحقیقت موصول ہوئیں، ان رپورٹس سے گمشدہ پولنگ میٹریل خاص طور پر گمشدہ انتخابی رولز اور کاﺅنٹر فوائلز کی تعداد جاننے میں مدد ملے گی۔
درخواست میں قومی اسمبلی کے ان 35 حلقوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جہاں ووٹوں کو مسترد کیے جانے تعداد فتح کی شرح سے زیادہ ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ " مسترد شدہ ووٹ" انتخابی نتائج میں ردوبدل کے ذرائع میں سے ایک ہے۔
ان 35 حلقوں میں خیبرپختونخوا کے پانچ، فاٹا کے تین، پنجاب کے پندرہ، سندھ کے پانچ اور بلوچستان کے سات حلقے شامل ہیں۔
پی ٹی آئی نے کہا کہ ان حالات میں کمیشن کو ان تمام 35 حلقوں کا پولنگ ریکارڈ طلب کرنا چاہئے اور مسترد شدہ ووٹوں کا جائزہ لینا چاہئے تاکہ انہیں مسترد کیے جانے کے فیصلے کے درست ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں جانا جاسکے۔
کمیشن سے یہ بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ نادرا کو ہدایت کرے کہ وہ ان 35 حلقوں کی بیلٹ بکس کی کاﺅنٹر فوائلز پر انگوٹھوں کے نشانات کی جانچ پڑتال کرے۔
عوامی نمائندگی ایکٹ 1976 کی شق 39(1) ، جس کے تحت آر اوز الیکشن لڑنے والے امیدواروں کو انتخابی نتائج مرتب کرتے وقت نوٹسز جاری کرتے ہیں، کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس قانونی ضرورت کی انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کی گئی ہے۔
مسلم لیگ ق کی درخواست پر طلب کیے گئے آر اوز کے بیانات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ مسترد شدہ بیلٹ پیپرز کے پیکٹ آر اوز کی جانب سے نتائج مرب کرنے کے عمل کے دوران کبھی کھولے اور چیک نہیں کیے گئے۔
درخواست کے اختتام میں کہا گیا ہے کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 38(3) کے تحت کمیشن کو اس امر کی مزید تحقیقات کرنی چاہئے کیونکہ یہ ووٹ ان جگہون پر فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہین جہاں کسی امیدوار کی فتح کا مارجن بہت کم ہے۔












لائیو ٹی وی
تبصرے (2) بند ہیں