بیرونِ ملک تعلیمی دورے واقعی فائدے مند؟

اپ ڈیٹ 30 جون 2015
پنجاب کے کئی اسکولوں میں ٹوائلٹس تک نہیں، کیا حکومت دوروں پر خرچ ہونے والے پیسے سے ٹوائلٹ نہیں بنوا سکتی؟ — اے پی
پنجاب کے کئی اسکولوں میں ٹوائلٹس تک نہیں، کیا حکومت دوروں پر خرچ ہونے والے پیسے سے ٹوائلٹ نہیں بنوا سکتی؟ — اے پی

گذشتہ پانچ سالوں کی طرح اس سال بھی حکومتِ پنجاب کی جانب سے میٹرک اور ہائیر سیکنڈری اسکول کے بورڈ کے امتحانات میں اول آنے والے طلبا و طالبات اس وقت برطانیہ، سوئیڈن، اور جرمنی کے دورے پر ہیں۔ یہ طلباء و طالبات پنجاب کے تمام تعلیمی بورڈز سے منتخب کیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ دیگر صوبوں کے ساتھ آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی ایک ایک طالب علم کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔

ان دوروں کا اہم مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا نے جو ترقی اور خوشحالی حاصل کی ہے، یہ طلباء اُس کا مشاہدہ کریں اور اپنے ملک کے لیے اسی ترقی کی خاطر کام کریں۔ طلباء کے لیے مطالعاتی دوروں کی اہمیت ہوسکتی ہے لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو قابل غور بھی ہے اور ناقابل تردید حقائق کا حامل ہے۔

ہر سال 40 رکنی وفد کو یورپی ممالک کے دورے پر بھیجا جاتا ہے، اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر دورہ پر تقریباً 1 کروڑ روپیہ خرچ ہوتا ہے، اور اس طرح اب تک 6 کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر خطیر رقم خرچ کرنے کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟

پڑھیے: گرتا معیارِ تعلیم: کیا کسی کو فکر ہے؟

جس صوبے کے دیہی علاقوں کے اسکولوں میں طلباء کے لیے چھت بھی میسر نہیں اور موسم کی شدت میں بھی کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوتے ہیں، لڑکوں کے اسکول تو ایک طرف، بچیوں کے اسکولوں تک میں بھی ٹوائلٹ نہیں ہیں۔ تو کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ اس 6 کروڑ روپے سے پنجاب کے بہت سے اسکولوں میں ٹوائلٹ ہی بنا دیے جاتے، تو کہا جا سکتا کہ حکومت طلباء کی سہولت کے لیے سنجیدہ ہے۔

ہر سال دورہ کرنے والے وفد میں طلباء تو بدلتے رہتے ہیں لیکن سرکاری اہلکار وہی رہتے ہیں۔ کیا دیگر سرکاری اہلکاروں کا حق نہیں کہ وہ بھی اس مطالعاتی دورے کا حصہ ہوں؟ دورے کے ساتھ آنے والے سرکاری اہلکاروں نے تمام طلباء کو وزیر اعلیٰ کی تعریف کرنے پر لگایا ہوتا ہے اور وہ خود بھی یہی کر رہے ہوتے ہیں۔ پورے دورے میں وفد جہاں بھی جاتا ہے وہاں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی اس قدر تعریف و توصیف ہوتی ہے کہ اس دورے کو شہباز شریف شو کہنا بے جا نہ ہوگا۔

ایسا تو نہیں ہے کہ وزیرِ اعلیٰ اپنی ذاتی رقم سے وفد کو دورہ پر بھیجتے ہیں۔ یورپ میں ایسے دوروں میں حکومتی سربراہوں کی خوشامد کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ سوئیڈن میں موجودہ وزیرِ اعظم نے اسکولوں کو مزید بہتر بنانے کے لیے بہت بڑی اضافی رقم رکھی ہے لیکن اسے وہ اپنی ذاتی تشہیر کے لیے استعمال نہیں کررہے۔ حکمران اگر واقعی مخلص ہیں تو بجٹ کا کم از کم 10 فیصد بنیادی تعلیم کے لیے مختص کریں، اور ذاتی تشہیر کے بجائے قومی تعلیمی پالیسی اس انداز میں بنائیں کہ اسکولوں کی حالت بہتر ہو۔

مزید پڑھیے: کمرشل تعلیم اور بے بس ریاست

اگر حکومت ان بچوں کو ان کی محنت پر بطورِ انعام ان دوروں پر بھیجتی ہے، تو ٹھیک ہے، لیکن حکومت کا اپنا مؤقف یہ ہے کہ یہ تعلیمی دورے ہوتے ہیں جن کا ایک وسیع تر مقصد ہے۔ کیا ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ 18 کروڑ کی آبادی سے 35 طلباء یورپ کا دورہ کر کے کیا کیا تبدیلی لائیں گے جب 68 سالوں سے لاتعداد سرکاری دوروں سے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے؟

وزیرِ اعظم، وزیرِ اعلیٰ اور دیگر تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما بہت عرصہ یورپ میں گزار کر پاکستان میں کیا تبدیلی لائے ہیں؟ پاکستان کی ٹاپ بیوروکریسی بھی تواتر سے غیر ملکی تربیتی دوروں پر جایا کرتی ہے، تو کیا اس سے ہمارے دفتری معامالات میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ اگر نہیں تو یہ طلباء بچارے کیا کریں گے جن کا ہر کام انہی سرکاری دفاتر میں پڑتا ہے جو 68 سال کے خستہ حال نظام کی نذر ہوچکے ہیں؟ ہاں البتہ غریب عوام کا کروڑوں روپیہ خادم اعلیٰ کی تشہیر پر ضائع ہوجاتا ہے۔

موجودہ حکمران ہوں یا ماضی کے، انہیں تشہیر کا اس قدر شوق ہے کہ طلباء کی درسی کتابوں کے شروع میں اپنی تصویر اور پیغام دے کر آنے والے نسلوں کو ذہنی غلام بنانے کی کوشش شروع کررکھی ہے۔ طلباء کو دورے پر بھیجنے کا یہ مقصد بھی بتایا جاتا ہے ان ملکوں کے تعلیمی نظام سے کچھ سیکھا جائے۔ تو اگر سیکھنا ہی ہے، تو سوئیڈن کے تعلیمی نظام سے یہ سیکھیں کہ یہاں میٹرک، ہائیر سیکنڈری، یہاں تک کہ یونیورسٹی کی سطح پر بھی ٹاپ پوزیشن بتانے کا کوئی رواج ہی نہیں۔

سب طلباء بورڈ کا امتحان دیتے ہیں لیکن یہ اعلان کبھی نہیں ہوتا کہ اول دوم اور سوم کون سے طلباء آئے ہیں۔ اس کی وجہ یہاں کے ماہرینِ تعلیم یہ بتاتے ہیں کہ اس طرح پوزیشن لینے والے طلباء میں گھمنڈ، اور نہ لینے والوں میں حسرت اور افسوس کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس لیے ٹاپ پوزیشن کسی سطح پر بھی نہیں بتاتے۔ کیا سوئیڈن سے یہ نہیں سیکھا جاسکتا؟

پڑھیے: کیا تعلیم کا مقصد صرف نوکری ہے؟

پھر یہاں اضافی وسائل ذہین طلباء پر لگانے کے بجائے کمزور طلباء پر لگائے جاتے ہیں۔ انہیں اسکول میں مفت اضافی ٹیوشن پڑھائی جاتی ہے۔ ان کے لیے مزید وسائل مہیا کیے جاتے ہیں، اور مزید اساتذہ مہیا کیے جاتے ہیں۔ تعلیمی کارکردگی میں پیچھے رہ جانے والے اسکولوں کو زیادہ امداد دی جاتی ہے۔ اس پالیسی سے پاکستان کے ارباب اختیار کیوں کچھ نہیں سیکھنا چاہتے؟

ہماری یونیوسٹیوں کی عمارتیں تو سوئیڈن کی جامعات سے کہیں بڑی اور بلند و بالا ہوسکتی ہیں لیکن سوئیڈن کی 6 جامعات دنیا کی پہلی 200 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہیں لیکن پاکستان کی 1 بھی یونیورسٹی اس فہرست میں شامل نہیں ہے۔ اس کا مداوا کون کون کرے گا؟ مشرف دور میں پاکستان میں یورپی ممالک کی مدد سے نئی یونیورسٹیوں کے قیام کا منصوبہ کدھر گیا؟

ایک اور وجہ، جس کی بناء پر یہ دورے غیر مؤثر ہیں، وہ دوروں کے لیے غلط وقت کا انتخاب ہے۔ تعلیمی وفد کو یورپ کے دورے پر اس وقت بھیجا جاتا ہے جب یہاں گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہوتے ہیں۔ سوئیڈن میں جون کے دوسرے ہفتے سے لے کر اگست کے تیسرے ہفتے تک تمام تعلیمی ادارے بند ہوتے ہیں۔ اس طرح پاکستانی طلباء کا وفد کسی تعلیم سرگرمی، سیمینار، یہاں کے طلباء کے ساتھ میل جول، تعلیمی مذاکرات، اور دوسری سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا۔

طلباء کے دوروں کو بیرونِ ملک کے تعلیمی اداروں کے ساتھ مربوط بنا کر اور اسے تعلیمی سرگرمیوں کا حصہ بنا کر ہی مؤثر کیا جاسکتا ہے۔ وہ اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں جائیں، وہاں کلاسوں میں شرکت کریں، مقامی طلباء سے ملیں، ان سے تبادلہ خیال کریں، سیمناروں میں شرکت کریں، یہاں کے اساتذہ سے سوالات کریں تو پھر کہیں جا کر دورے کو مطالعاتی دورہ کہا جاسکتا ہے۔

جانیے: کیا اصلی ڈگریاں جعلی ڈگریوں سے بہتر ہیں؟

لیکن جب یہاں گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے کوئی تعلیمی سرگرمی ہی نہیں تو دورے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ مطالعاتی دورہ کے نام پر طلباء کا وفد عمارتوں، شہروں، اور بازاروں کی سیر کرتے ہوئے پاکستانی سیاسی، سماجی، اور سفارت خانوں کے استقبالیوں میں شرکت کر کے تصویریں بنوا کر ایک بقول خود کے کامیاب مطالعاتی دورہ مکمل کر کے واپس آ جائے گا، اور لاہور ایئرپورٹ پر کوئی وزیر وفد کا استقبال کرکے میڈیا کو کامیاب دورے کی نوید سنائے گا۔ وزیراعلیٰ وفد کے اعزاز میں استقبالیہ دیں گے، اور اپنی کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹیں گے، اور تعلیمی نظام ویسے کا ویسا ہی رہ جائے گا۔ اگر دورے کرنا ناگزیر ہی ہے تو کیا اسے رمضان اور گرمیوں کی چھٹیوں کے علاوہ نہیں کیا جاسکتا؟

ان دوروں سے آج تک کچھ حاصل نہیں ہوا اور نہ کوئی تبدیلی آئی ہے۔ اگر ان دورں سے ملک اور قوم کو فائدہ نہیں ہورہا تو انہیں بند کر کے وہی رقم اسکولوں، ہسپتالوں، سماجی بہبود، اور سائنسی ترقی پر خرچ کی جائے۔ اگر حکومت ان بچوں کو ان کی کاوشوں کے بدلے میں انعام دینا چاہتی ہے، تو انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دے۔

1 کروڑ روپے میں 35 بچوں کو بیرونِ ملک کا دورہ بھی کروایا جا سکتا ہے، اور 35 بچوں کے بیچلرز اور ماسٹرز تک کے اخراجات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں، تو پھر ایسا کیوں نہیں کیا جاتا اور کیوں سیکھنے کے نام پر لایعنی دورے کروا کر اپنی تشہیر کروائی جاتی ہے؟ دور جدید میں اب ایسے ذرائع میسر ہیں جن کی مدد سے ملک میں رہ کر بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے اور دورے کرنا ہی لازم نہیں، شرط یہ ہے کہ سیکھنے کی نیت ہو۔

تبصرے (19) بند ہیں

Tahir Jun 29, 2015 03:14pm
Yeah students aik aise qaum say hain jis kay log aik waqt kee roti kay badlay 5 saal ka azaab apnay sir par daaltay hain. Yeah dauray bhee wohee cheez hain thoree ziada nifasat kay saath.
Khan Jun 29, 2015 03:52pm
If so then Sweden's student exchange program is also a waste of money, especially when quality education is already available at doorstep.
Arif Kisana Jun 29, 2015 04:39pm
Exchange programme is entirely different from visits like these. Both are not same. In exchange programme students take part in studies, spend their time in educational institutes and have some task to cover. Yes, If Pakistan has exchange programme with Sweden, It will be highly appreciated.
Aslam Shahid Jun 29, 2015 04:40pm
ٹوائلٹس پر لگنے والی رقم تو لوگوں کو نظر نہیں آئے گا کونسا میڈیا رپورٹنگ کرے گا ؟ اس طرح کے دوروں کی میڈیا کوریج بھی تو ہوگی اور منظور نظر افراد کے بچوں کو مفت سیر وسیاحت کا موقع ملے گا اور وہ بھی مفت ۔ آخر انہوں نے ہی تو کل کے ہمارے بڑے صاحب بننا ہے ۔ وہ کیا کہا کرتے تھے اندھا بانٹے ریوڑیاں ۔ ۔ ۔
Mohammad Baig Jun 29, 2015 04:53pm
2 percent of the gdp could produce the same results in the education sector ,more over it has become a very much trade and the merchants are almost sitting in the parliament or the senate or on other big posts so how to make the things correct is difficult unless the people are not aware and demand their basic legal rights.
Ghulam Sabir Jun 29, 2015 04:55pm
Dear Arif Lisana, Your article is worth to be published widely in Pakistan. Moreover someone at Pakistan should translate it into English and get it published at English Newspapers and magazines.
عائشہ بخش Jun 29, 2015 05:12pm
ان دورہ کا صرف ایک مقصد ہے وہ مسلم لیگ نون یعنی میاں صاحب کی میڈیا کوریج۔ ہر روز ڈی جی پی آر پنجاب کی جانب سے تمام میڈیا میں اس دورہ کی خبریں شائع ہوتی ہے ۔ ’’کامیاب طلبہ آج یہاں پہنچ گے ‘‘ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کی میڈیا ٹیم بہت شاندار ہے ۔انہوں نے اس ہی طرح کے بے مقصد کاموں سے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ اور اپنے ایک مثبت امیچ برقرار رکھا ہوا ہے ۔ آپ جو باتیں لکھے رہے ہیں۔ وہ ملک اور قوم کے فائدہ میں تو ہیں۔ لیکن اس سے مسلم لیگ نون یعنی ’’اتفاق گروپ‘‘ کا نقصان ہے ۔آپ کی باتوں ماننے کر ان کو وہ سیاسی شہرت نہیں ملے گی ۔ اس سے پہلے انہوں نے پنجاب میں سستی روٹی ،اور لپ ٹاپ پر اربوں روپے ضائع کیا ہے ۔ اور اب ہر ماہ ایک ارب سے زائد جنگہ بس پر سبٹڈی دے رہے ہیں۔
Ijaz Khsn Jun 29, 2015 06:55pm
Re the student trips to foreign countries. Good one. All such things are gimmicks and thus worthless They are bureaucratic solutions that appeal to their bosses to enhance their ego. In, fact , any advertisement where a photograph of a politician appears should be charged to their personal account. They are just taking the country for a ride. @gmail.com
Barkat Jun 29, 2015 06:56pm
I 100 % agree with contents in the article. Very good Points.
نجیب احمد سنگھیڑہ Jun 29, 2015 06:58pm
تشہیر میں ن لیگ نے خاص کر مبینہ خادم اعلٰی نے دنیا بھر کے حکمرانوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کوئی بھی کام کیا ہو یا کرنے کا منصوبہ ہو یا کام ہو چکا ہو، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ میں اشتہارات کی بھرمار تب سے نظر آ رہی ہے جب سے ن لیگ نے پنجاب اور وفاقی حکومت کی کرسی سنبھالی۔ رواں دنوں سستے رمضان بازاروں کا وزٹ کریں تو اتنے زیادہ بینرز اور بورڈز رمضان بازار میں دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے یہ بجلی بحران حل کرنے نہیں آئی بلکہ تشہیری مہم کے ذریعے اگلا انتخاب جیتنا چاہتی ہے۔ تشہیر اور پرووٹوکول پر جب پابندی لگا دی جائے گی تو عوام تب سمجھیں گے کہ حکومت عملی طور پر ‘اس طرح دیں کہ بائیں ہاتھ کو پتہ نہ لگے‘ مظاہرہ کر کے صحیح معنوں میں انسانی خدمت سے سرشار ہے۔ بصورت دیگر تشہیری مہموں سے اگر ن لیگ اگلے الیکشن میں پھر کامیاب ہو جاتی ہے تو کوئی اور کہے یا نہ کہے، میں ضرور کہوں گا کہ حکومت نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ووٹ لیے ہیں۔
Dr. ALI BUTT Jun 29, 2015 07:01pm
"Roshni dikha kar andheron mein dhakel do". This is exactly what this program does. I agree with the writer that its worth spending money on the system itself than having international tours.
Muhammad Afzal Farooqi Jun 29, 2015 08:03pm
Many things in this report are correct and I totally agree with writer. But some things are also positive by visiting these countries even in Summer. Many professors are still working during summer. I think, these students will get lot of motivation by their visit if they meet with some people working in research. They can understand the education system of Sweden and can visit a number of Labs. For example, I can facilitate this delegation opportunity for visiting our KTH Energy Department Labs and I can arrange a seminar as well. Best regards
Dr Misfar Hassan Jun 29, 2015 10:31pm
I fully endorse your views Dr Arif these visits are useless aimless and total waste of public money As you mentioned this money can have many better uses what I have seen during these visits the group has visited various towns had sumptuous parties and photo sessions no objective achieved shameless are the organisers
Muhammad Ayub Khan Jun 30, 2015 03:33am
yeh bachoN key naam par bachat kartey heyN- hamarey kam umar bachey bevqoofoN ki tarah chakar lagatey heyN-behter yeh hota is eik karor ropey sey berun mulk fellowship di jaatii aor humarey woh bachey jo kam scholarship/fellowship ki waha sey masayil ka shikar heyN un key masail kam ho saktey--Ihn cheh lakh dollar ya che karor ropey sey hum kam az kam 12 PhD peda kar saktey they
Ehsan Sheikh Jun 30, 2015 03:41am
It is an excellent article which is meaningsful and has been written with full devotation. I congratulate you on your sincere try to bring the facts in detail in the notice of the readers. You have compared the both the pakistani and swedish systems. Pakistani system is based upon irrationality and lacks planning. It fails to define the objectives to be achived from the students tour. It is simply the wastage of precious national resources which can be used to provide the schools and other institutions with the other necessities. Shehbaz Sharif is interested to highlight his name rather than benefitting the students. Dr,sahab you are doing a good job to creat awareness among the readers. This is the main purpose of journalism. Please keep it up.
Dr Hasnain Jun 30, 2015 10:35pm
IT is very surprised how Pakistan Looted and Looting by presidents PMs Ministers MNAs MPAs By Treasuries Of Pakistan During Last 60 Ye
احمد مجتبی Jul 01, 2015 02:57am
حکمرانوں کو وہ منصوبے پسند ہیں جن ان کی تشہیر ہو اور بیوروکریسی اس راز کو جانتی ہے اس طرح کے تمام پروگرام وہی ان کو بنا کر دیتے ہیں پھر جی حضوری کرتے ہیں آپ کا بلاگ بہت اچھا ہے اور آپ نے اپنا فرض پورا کیا جسے ڈان نے ہم تک وہ آواز پہنچائی جو سکتا کسی کو کچھ احساس ہی ھو جائے کم از کم سرکاری اہل کار اگلے سال خود ہی جانے سے انکار کرکے دوسروں کو موقع دیں
Awais Adhfaq Jul 06, 2015 12:02pm
At student level foreign tours are required but properly co-ordinated with the host country’s institutions. However, Pakistan‘s teachers need more exposure and training than its students, once teachers are up to the level of Swedish teachers, we do not need to send students of Matric level to Sweden. In fact Rs. 60 Million for a country to spend on student’s foreign tour is nothing provided goals of the tour are achieved otherwise even Rs 6k would be of waste. Upgradation of schools is essential but not at the cost of other activities, it should have separate budget. In Pakistan consistency rate and follow up/accountability of such projects is very low rather zero, that’s why we as a nation is forced to comment that such tours are waste of money and time.
Mohsin Saleemi Jul 13, 2015 12:10am
@Muhammad Afzal Farooqi I do not agree with my dear Brother, because you can do all this on skype or any other electronic media in order to show the facilities, projects etc. To arrange such trips for students getting first positions in their exams is not only discouraging others in the same class, probably they more intelligent than the one visiting Europe. May that person have strong memory (RATAA) that’s why he became first. As we know grades are not the talent, at least these theories are valid in the rest of the world. I believe this money can used to arrange clean water and toilets in the school at least in one district and think for last six years and we have 6 districts with all these facilities. This is ROSHAN Pakistan, visiting a country will not benefit for the society at this moment for our nation. Just one example, kids of a parliamentarian in Sweden also attend the same school as yours and mine that’s why all the schools have same standards in terms of cleaning, water, benches, teacher’s competence, buildings, food...... Why Do KHADAM-E-ALLA bring this culture rather than throwing money in the bin……