'ترکی بھیجے جانے سے مر جانا بہتر ہے' — یونان میں پھنسے پاکستانیوں کی حالتِ زار

بہار کے ان دنوں میں یونانی جزیرہ لیسبوس بھی پوری طرح کھل اٹھا ہے۔ سورج نے بحرہ ایجیئن کو گرم کر کے تیراکی کے قابل کر دیا ہے۔

مائٹیلینی پورٹ کے قریب میں نے دو نوجوان پاکستانیوں کو دیکھا جو بستی کیمپ کی طرف لوٹنے سے پہلے سمندر کے نمکین پانی سے خود کو صاف کر رہے تھے۔ وہ اُس بستی کیمپ میں پچھلے کچھ ہفتوں سے قیام پذیر ہیں۔

میں پانچ سال سے زائد عرصے سے یورپ کی طرف ہجرت کرنے والوں کی کہانیاں کور کر رہی ہوں، مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ یونان میں موجود پاکستانی تارکینِ وطن ورکرز اس کہانی کا آخری باب ثابت ہوں گے۔

لوگوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہونا شروع ہو گیا ہے اور یہ معاشی تارکینِ وطن پورے یونان اور سابق یوگوسلاویا میں پھنسے ہوئے ہیں. جیسے جیسے انہیں اپنی قسمت کا حال معلوم ہوتا جا رہا ہے، ان کی مایوسی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

وہ مستقبل قریب میں جرمنی یا برطانیہ نہیں پہنچ سکتے کیونکہ یورپی یونین کے ایک ماہ قبل طے پانے والے معاہدے کے تحت مہاجرین کو یونان سے ترکی بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ایک تارکِ وطن یونانی جزیرے لیسبوس پر مائٹیلینی پورٹ کے قریب کھڑا ہے جس کے تھوڑے فاصلے پر ایک بے ترتیب کیمپ قائم ہے جسے ایک یورپی انارکی پسند گروپ نو بارڈرز کچن چلا رہا ہے۔
ایک تارکِ وطن یونانی جزیرے لیسبوس پر مائٹیلینی پورٹ کے قریب کھڑا ہے جس کے تھوڑے فاصلے پر ایک بے ترتیب کیمپ قائم ہے جسے ایک یورپی انارکی پسند گروپ نو بارڈرز کچن چلا رہا ہے۔

ایک تارکِ وطن یونانی جزیرے لیسبوس پر مائٹیلینی پورٹ کے قریب کھڑا ہے۔
ایک تارکِ وطن یونانی جزیرے لیسبوس پر مائٹیلینی پورٹ کے قریب کھڑا ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والا 21 سالہ عمر یونیورسٹی طالب علم ہے جس نے 20 جنوری 2016 کو باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ ایک امریکی رضاکار سارا اوونز، جو سینٹ لوئس سے تعلق رکھتی ہیں، سے نو بارڈرز کچن کے مقام پر باتیں کر رہا ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والا 21 سالہ عمر یونیورسٹی طالب علم ہے جس نے 20 جنوری 2016 کو باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ ایک امریکی رضاکار سارا اوونز، جو سینٹ لوئس سے تعلق رکھتی ہیں، سے نو بارڈرز کچن کے مقام پر باتیں کر رہا ہے۔

یونانی جزیرے لیسبوس میں نو بارڈرز کچن کے مقام پر 300 سے 400 افراد، جن میں زیادہ تر پاکستانی ہیں، کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
یونانی جزیرے لیسبوس میں نو بارڈرز کچن کے مقام پر 300 سے 400 افراد، جن میں زیادہ تر پاکستانی ہیں، کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

ایک یورپی رضاکار دور بین کی مدد سے سمندر میں یونانی جزیرے لیسبوس کی طرف آنے والے تارکین وطن کی کشتیوں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بین الاقوامی رضاکار ٹیموں نے بلقان روٹ اور یونان پہنچنے والے معاشی تارکِین وطن کو خوراک کی فراہمی اور ہر کسی کی مدد کے لیے ریسکیو مشن شروع کیا ہوا ہے۔
ایک یورپی رضاکار دور بین کی مدد سے سمندر میں یونانی جزیرے لیسبوس کی طرف آنے والے تارکین وطن کی کشتیوں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بین الاقوامی رضاکار ٹیموں نے بلقان روٹ اور یونان پہنچنے والے معاشی تارکِین وطن کو خوراک کی فراہمی اور ہر کسی کی مدد کے لیے ریسکیو مشن شروع کیا ہوا ہے۔

کچھ کلومیٹر دور حراستی مرکز میں موجود لوگوں کے برعکس یہ نوجوان، جن میں کثیر تعداد پاکستانیوں کی ہے، اپنے دن ٹیلے کے دامن پر بیٹھے سمندر کا نظارہ کرتے ہوئے والی بال یا تاش کھیلنے میں گزار رہے ہیں۔

ٹھنڈی راتوں کے دوران وہ آگ کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھار پاکستانی گانے گاتے ہیں۔

کھانے کے اوقات میں انہیں چاول یا سبزیوں کے ساتھ آلو اور لوبیا جیسا سادہ کھانا ملتا ہے جو یورپین رضاکاروں کی جانب سے جمع کی گئی امداد سے فراہم کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار ہسپانوی لائف گارڈز یہاں خشک میوہ جات کے تھیلے اپنے ساتھ لاتے ہیں۔

وہ جب وہاں آتے ہیں تو سینکڑوں نوجوان مہاجرین دوڑتے ہوئے ان چیزوں کو لینے کی لائن میں لگ جاتے ہیں۔ میڈرڈ سے تعلق رکھنے والے لولو اپنے پاکستانی دوستوں سے گلے لگ کر ملتے ہیں۔

انہوں نے مجھے بتایا کہ، ''ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں میں نے سمندر میں بچایا تھا۔''

لیسبوس جزیرے پر موجود پاکستانی نوجوانوں کی نہانے کے بعد کی ایک تصویر۔ سینکڑوں پاکستانی یونانی میسیڈونیا بارڈر پر بالکن روٹ بند ہونے کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں، جبکہ یونانی حکام بارڈر سے ملک کے اندورنی حصے میں داخل ہونے سے روک رہے ہیں جہاں پہلے  ہی تارکین وطن کی کثیر تعداد موجود ہے۔
لیسبوس جزیرے پر موجود پاکستانی نوجوانوں کی نہانے کے بعد کی ایک تصویر۔ سینکڑوں پاکستانی یونانی میسیڈونیا بارڈر پر بالکن روٹ بند ہونے کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں، جبکہ یونانی حکام بارڈر سے ملک کے اندورنی حصے میں داخل ہونے سے روک رہے ہیں جہاں پہلے ہی تارکین وطن کی کثیر تعداد موجود ہے۔

عامر نامی ایک پاکستانی نوجوان نو بارڈرز کچن کے مقام پر عبدیل کے بال کاٹ رہا ہے۔ یونانی جزیرے لیسبوس کے ساحلی کنارے پر واقع اس غیر لائسنس یافتہ کیمپ کو یورپی انارکی پسند چلا رہے ہیں۔
عامر نامی ایک پاکستانی نوجوان نو بارڈرز کچن کے مقام پر عبدیل کے بال کاٹ رہا ہے۔ یونانی جزیرے لیسبوس کے ساحلی کنارے پر واقع اس غیر لائسنس یافتہ کیمپ کو یورپی انارکی پسند چلا رہے ہیں۔

سات اپریل 2016 کے دن نو بارڈرز کیمپ پر ایک احتجاجی علامت دیکھنے کو ملی۔ گو کہ انہیں پہلے ہی جزیرے پر موجود حراستی مرکز میں منتقل کیے جانے کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے، لیکن مقامی میئر کی جانب سے مزید ایک ہفتے کی مہلت کی منظوری دی گئی ہے۔
سات اپریل 2016 کے دن نو بارڈرز کیمپ پر ایک احتجاجی علامت دیکھنے کو ملی۔ گو کہ انہیں پہلے ہی جزیرے پر موجود حراستی مرکز میں منتقل کیے جانے کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے، لیکن مقامی میئر کی جانب سے مزید ایک ہفتے کی مہلت کی منظوری دی گئی ہے۔

سات اپریل 2016 کو تارکین وطن، جن میں بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہے، لیسبوس جزیرے پر نو بارڈرز کیمپ پر کھانا لینے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔
سات اپریل 2016 کو تارکین وطن، جن میں بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہے، لیسبوس جزیرے پر نو بارڈرز کیمپ پر کھانا لینے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔

19 سالہ عمر نے تین ماہ قبل جب پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تب وہ گجرات یونیورسٹی میں شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ کے دوسرے سیمسٹر میں زیر تعلیم تھے۔ ایک طویل سفر کے بعد وہ یونان پہنچے مگر اسے کافی دیر ہو گئی تھی۔ بالکن روٹ تب تک بند ہو چکا تھا اور اب ان کے جیسے 50 ہزار سے زائد مہاجرین پھنس چکے ہیں۔ گو کہ ان کے دوسرے بھائی یونان کے ایک اور جزیرے میں کام کر رہے ہیں مگر یونانی حکام نے مہاجرین کو یونان کے دوسرے حصوں میں جانے سے روکنے کے لیے ان کے کشتیوں اور جہازوں میں سفر کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق ''یہاں بہت سارے لوگ کئی وجوہات کی بنا پر روتے ہیں۔"
19 سالہ عمر نے تین ماہ قبل جب پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تب وہ گجرات یونیورسٹی میں شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ کے دوسرے سیمسٹر میں زیر تعلیم تھے۔ ایک طویل سفر کے بعد وہ یونان پہنچے مگر اسے کافی دیر ہو گئی تھی۔ بالکن روٹ تب تک بند ہو چکا تھا اور اب ان کے جیسے 50 ہزار سے زائد مہاجرین پھنس چکے ہیں۔ گو کہ ان کے دوسرے بھائی یونان کے ایک اور جزیرے میں کام کر رہے ہیں مگر یونانی حکام نے مہاجرین کو یونان کے دوسرے حصوں میں جانے سے روکنے کے لیے ان کے کشتیوں اور جہازوں میں سفر کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق ''یہاں بہت سارے لوگ کئی وجوہات کی بنا پر روتے ہیں۔"

38 سالہ اعجاز ایک مزدور ہیں اور اپنے گھرانے کے واحد کفیل بھی، جن میں ان کی بیوی، دو چھوٹے بیٹے، اور بزرگ والدین شامل ہیں۔ یورپ جانے کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے اپنا گھر بھی فروخت کر دیا تھا، انہوں نے کہا کہ، ''میں بہت غریب آدمی ہوں۔ میرے بچوں کو نہ بہتر تعلیم، نہ بہتر کپڑے اور نہ ہی بہتر کھانا میسر ہے۔'' اپنے خاندان کو غربت سے نکالنے کے تمام خواب چکنا چور ہوچکے ہیں. ''میں بھلے مر جاؤں، لیکن ترکی لوٹ کر نہیں جاؤں گا۔"
38 سالہ اعجاز ایک مزدور ہیں اور اپنے گھرانے کے واحد کفیل بھی، جن میں ان کی بیوی، دو چھوٹے بیٹے، اور بزرگ والدین شامل ہیں۔ یورپ جانے کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے اپنا گھر بھی فروخت کر دیا تھا، انہوں نے کہا کہ، ''میں بہت غریب آدمی ہوں۔ میرے بچوں کو نہ بہتر تعلیم، نہ بہتر کپڑے اور نہ ہی بہتر کھانا میسر ہے۔'' اپنے خاندان کو غربت سے نکالنے کے تمام خواب چکنا چور ہوچکے ہیں. ''میں بھلے مر جاؤں، لیکن ترکی لوٹ کر نہیں جاؤں گا۔"

7 اپریل 2016 کو لیسبوس جزیرے میں مائٹیلینی پورٹ کے قریب نو بارڈرز کچن پر موجود پاکستانی افراد. جب سے مقامی میئر نے کیمپ کو چھوڑ کر موریا جانے کا کہا ہے، تب سے وہ ہر وقت الرٹ رہتے ہیں. یونان نے مہاجرین کو ترکی ڈی پورٹ کرنا شروع کردیا ہے جن میں بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہے، جو کہ ایک بند کیمپ میں قیدیوں کی طرح رہتے ہیں۔
7 اپریل 2016 کو لیسبوس جزیرے میں مائٹیلینی پورٹ کے قریب نو بارڈرز کچن پر موجود پاکستانی افراد. جب سے مقامی میئر نے کیمپ کو چھوڑ کر موریا جانے کا کہا ہے، تب سے وہ ہر وقت الرٹ رہتے ہیں. یونان نے مہاجرین کو ترکی ڈی پورٹ کرنا شروع کردیا ہے جن میں بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہے، جو کہ ایک بند کیمپ میں قیدیوں کی طرح رہتے ہیں۔

کیمپ میں رہنے والے لوگ نہ خوش ہیں اور نہ ہی پرسکون، غالباً یہ وہی دو چیزیں جس کی تلاش میں انہوں نے اپنا گھر چھوڑا تھا۔

انہیں یہاں مسلسل خدشہ لگا رہتا ہے کہ پولیس کسی بھی وقت کیمپ پر چھاپہ مارے گی اور مہاجرین کو حراستی مرکز میں ڈال دے گی۔

میئر کے ترجمان نے مجھے بتایا کہ اگر یہ لوگ پرامن طور پر واپس نہیں گئے تو پولیس کی مدد لی جائے گی، جو انہیں حراستی مرکز لے جائے گی۔

اس سے بھی زیادہ انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ ممکنہ طور پر انہیں ترکی ملک بدر کر دیا جائے گا، اور جو مہاجرین پناہ لینے کے معیار پر نہیں اترتے انہیں ری ایڈمیشن (دوبارہ داخلے کے) معاہدوں کے تحت اپنے اصل ممالک بھیج دیا جائے گا۔ پچھلے ہفتے 326 مہاجرین کو ملک بدر کیا گیا تھا جن میں سے 200 پاکستانی تھے۔

یونانی جزیرے لیسبوس میں 7 اپریل 2016 کو پاکستانی مہاجرین حراستی مرکز موریا کیمپ کے باہر بھوک ہڑتال کر رہے ہیں. سینکڑوں پاکستانی یونانی جزیرے لیسبوس میں پھنسے ہوئے ہیں. یونان نے پچھلے ہفتے سے مہاجرین کو ترکی ڈی پورٹ کرنا شروع کردیا ہے جن میں سے 200 سے زائد پاکستانی تھے، جو کہ باقی گروپس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے.
یونانی جزیرے لیسبوس میں 7 اپریل 2016 کو پاکستانی مہاجرین حراستی مرکز موریا کیمپ کے باہر بھوک ہڑتال کر رہے ہیں. سینکڑوں پاکستانی یونانی جزیرے لیسبوس میں پھنسے ہوئے ہیں. یونان نے پچھلے ہفتے سے مہاجرین کو ترکی ڈی پورٹ کرنا شروع کردیا ہے جن میں سے 200 سے زائد پاکستانی تھے، جو کہ باقی گروپس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے.

لیسبوس جزیرے کے ساحل پر موجود ایک غیر قانونی کیمپ نو بارڈرز کچن کے مقام پر مہاجرین نے ایک بند پڑے والی بال کورٹ کے اندر داخل ہونے کا راستہ تلاش کر لیا ہے اور اب روزانہ کی بنیادوں پر میچ منعقد کیے جاتے ہیں. موسم اچھا ہونے کی وجہ سے یہاں روزمرہ کی زندگی خوشگوار ہے. مگر کئی لوگ اب بھی کافی لوگ یہ سوچ کر پریشان اور خوفزدہ ہیں کہ انہیں یہاں سے زبردستی ترکی واپس بھیج دیا جائے گا اور شاید وہاں سے پاکستان بھیج دیا جائے.
لیسبوس جزیرے کے ساحل پر موجود ایک غیر قانونی کیمپ نو بارڈرز کچن کے مقام پر مہاجرین نے ایک بند پڑے والی بال کورٹ کے اندر داخل ہونے کا راستہ تلاش کر لیا ہے اور اب روزانہ کی بنیادوں پر میچ منعقد کیے جاتے ہیں. موسم اچھا ہونے کی وجہ سے یہاں روزمرہ کی زندگی خوشگوار ہے. مگر کئی لوگ اب بھی کافی لوگ یہ سوچ کر پریشان اور خوفزدہ ہیں کہ انہیں یہاں سے زبردستی ترکی واپس بھیج دیا جائے گا اور شاید وہاں سے پاکستان بھیج دیا جائے.

ایک تارک وطن خود کو پولیس سے بچانے کے لیے بھاگتا ہوا یونانی جزیرے لیسبوس پر واقع غیر قانونی نو بارڈرز کچن کیمپ کی طرف دوڑ رہا ہے. انہیں صرف کیمپ تک محدود رکھا جا رہا ہے اور رات کے وقت پولیس کبھی کبھار انہیں پورٹ ایریا اور شہر کے مرکز میں داخل ہونے سے روکتی ہے۔
ایک تارک وطن خود کو پولیس سے بچانے کے لیے بھاگتا ہوا یونانی جزیرے لیسبوس پر واقع غیر قانونی نو بارڈرز کچن کیمپ کی طرف دوڑ رہا ہے. انہیں صرف کیمپ تک محدود رکھا جا رہا ہے اور رات کے وقت پولیس کبھی کبھار انہیں پورٹ ایریا اور شہر کے مرکز میں داخل ہونے سے روکتی ہے۔

نو بارڈرز کچن کیمپ پر شام کے وقت پاکستانی نوجوان خود کو گرم رکھنے کے لیے آگ جلاتے ہیں. یونانی جزیرے کا موسم ایسا ہے کہ دن کے وقت گرمی ہوتی ہے جبکہ رات کے وقت سردی لگنا شروع ہو جاتی ہے.
نو بارڈرز کچن کیمپ پر شام کے وقت پاکستانی نوجوان خود کو گرم رکھنے کے لیے آگ جلاتے ہیں. یونانی جزیرے کا موسم ایسا ہے کہ دن کے وقت گرمی ہوتی ہے جبکہ رات کے وقت سردی لگنا شروع ہو جاتی ہے.

تارکین وطن، جن میں کثیر تعداد پاکستانیوں کی ہے، قطار لگا کر ہسپانوی رضاکاروں سے خوراک کی چیزیں لے رہے ہیں. تقریباً 300 سے 400 مہاجرین جن میں 90 فیصد پاکستانی ہیں، وہ غیر قانونی نو بارڈرز کچن کیمپ میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں، جسے خالی کرنے کی دی گئی میعاد بھی پوری ہوچکی ہے.
تارکین وطن، جن میں کثیر تعداد پاکستانیوں کی ہے، قطار لگا کر ہسپانوی رضاکاروں سے خوراک کی چیزیں لے رہے ہیں. تقریباً 300 سے 400 مہاجرین جن میں 90 فیصد پاکستانی ہیں، وہ غیر قانونی نو بارڈرز کچن کیمپ میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں، جسے خالی کرنے کی دی گئی میعاد بھی پوری ہوچکی ہے.

نو بارڈرز کچن میں انگریزی اور اردو میں یونان میں پناہ لینے کے لیے حاصل پناہ گزینوں کے حقوق کے بارے میں اطلاع عام موجود ہے.
نو بارڈرز کچن میں انگریزی اور اردو میں یونان میں پناہ لینے کے لیے حاصل پناہ گزینوں کے حقوق کے بارے میں اطلاع عام موجود ہے.

8 اپریل کو 202 تارکین وطن کو یونان سے ترکی ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا جن میں سے سب سے بڑا گروپ 130 افراد کے ساتھ پاکستانیوں کا تھا، جس کے بعد 42 افغانی اور باقی سب ایران، کانگو، سری لنکا، بنگلادیش اور ہندوستان سے تھے.
8 اپریل کو 202 تارکین وطن کو یونان سے ترکی ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا جن میں سے سب سے بڑا گروپ 130 افراد کے ساتھ پاکستانیوں کا تھا، جس کے بعد 42 افغانی اور باقی سب ایران، کانگو، سری لنکا، بنگلادیش اور ہندوستان سے تھے.

اسی اثنا میں ترکی پاکستان کے ساتھ ری ایڈمیشن معاہدے کی تفصیلات پر بھی کام کر رہا ہے تاکہ ترکی سے پاکستان ڈی پورٹیشن کی دوسری قسط پر عمل در آمد کیا جا سکے۔

گجرات سے تعلق رکھنے والے دو بچوں کے باپ 38 سالہ اعجاز کہتے ہیں کہ ''ذہنی دباؤ کی وجہ سے میرے بال سفید ہو گئے ہیں۔'' وہ اپنے گھرانے (جن میں دو چھوٹے بیٹے، بیوی اور بوڑھے والدین شامل ہیں) کے واحد کفیل ہیں۔ انہوں نے پاکستان سے ایران، ترکی اور پھر ربر کی کشتیوں کی مدد سے یونانی جزائر جیسے لیسبوس تک پہنچنے کے پرخطر سفر کے اخراجات کے لیے اپنا خاندانی گھر بیچ دیا ہے۔

انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپا اور پھر میری طرف ناامیدی سے دیکھنے لگے۔ دیگر کی طرح وہ بھی امید کھو بیٹھے ہیں۔ انہیں ترکی ملک بدر ہو جانے کا ڈر ہے جو نہ صرف ایک غیر محفوظ ملک ہے بلکہ وہاں بہتر ملازمت کی جگہ تلاش کرنا بھی مشکل ہوگا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے حسن نے حراستی مرکز کے اندر سے ٹیلیفون کے ذریعے بات چیت کرتے ہوئے اپنی کہانی سنائی کہ کس طرح انہیں استنبول میں اغوا کر لیا گیا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک افغان آدمی نے رہائشی جگہ کی تلاش میں مدد کی پیش کش کی۔ رہائش کے لیے انہیں اپارٹمنٹ کے تہہ خانے میں ٹھہرایا گیا جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور رہائی کے لیے تاوان طلب کیا گیا، جس کے ایک ماہ سے زائد عرصے کے بعد ان کے گھر والوں کو 3 ہزار یوروز کا تاوان بھرنا پڑا۔

دیگر پاکستانیوں نے بھی مجھے اسی طرح کی داستانیں سنائیں۔

یونان میں موجود ان مہاجرین کے ساتھ انسانی اقدار کے منافی برتاؤ کیا جاتا ہے، جہاں وہ چھپروں کے نیچے قیام پذیر ہیں اور ایسا کھانا کھاتے ہیں جسے شاید اس ملک میں بسنے والے لوگ ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کریں گے، مگر پھر بھی یہ صورتحال دو دیگر ہولناک انتخاب سے کم بدتر ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ، ''ہم شاید مر بھی جائیں مگر ترکی واپس نہیں جائیں گے۔ وہ ایک محفوظ ملک نہیں ہے۔''

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔

انگلش میں پڑھیں


جوڈی ہلٹن ایک امریکی فوٹو جرنلسٹ ہیں جو مشرقِ وسطیٰ اور یورپ میں 2010 سے ہجرت کی کوریج کر رہی ہیں۔ وہ مسوری اسکول آف جرنلزم سے فارغ التحصیل ہیں۔

2008 میں انہوں نے پاکستان کا سفر کیا اور اپنی تصویری کہانیاں امریکا اور یورپ میں شائع کروائیں۔