مکھی فاریسٹ: فطرت کے میوزیم کا تکلیف دہ انجام

میں جب حد نگاہ تک پھیلی ہریالی کو دیکھتے اور خستہ حال سڑک پر سفر کرتے ہوئے سانگھڑ کی طرف جا رہا تھا تو میرے ہمراہ وہ حقیقتیں بھی ذہن پر نقوش بناتی گئیں جن کے متعلق میں نے کتابوں میں پڑھا تھا۔

یہ وہی سانگھڑ ہے جہاں میٹھے اور شوریدہ پانی کی دو سو سے زائد جھیلیں تھیں۔ جہاں آبپاشی کا انتہائی اہم اور پیچیدہ نظام موجود ہے، جس کی ابتدا 1719 میں میاں نور محمد کلہوڑو نے کی تھی اور اس کو عروج پر انگریزوں نے پہنچایا۔

یہ وہی شہر ہے جس کے شمال میں 'دُبی' کی وہ بستی ہے جہاں کسی زمانے میں پائیدار اور بے تحاشا اسلحہ بنا کرتا تھا۔ اس اسلحہ کے لیے لوہا ٹکڑوں کی صورت میں سکھر سے منگوایا جاتا تھا، جسے سلیمانی لوہے کے نام سے پکارتے تھے۔

پھر اسی شہر کے اطراف میں 'مکھی' فاریسٹ بھی تھا، اس جنگل پر فطرت نے اپنی عنایتوں کے دروازے کھول دیے تھے۔ کہتے ہیں کہ اس جنگل میں ایک سو سے زائد چھوٹی بڑی جھیلیں تھیں اور یہ جنگل پانچ سو کوس کی اراضی پر پھیلا ہوا تھا۔

اس کا نام یہاں شہد کی بہتات کی وجہ سے پڑا۔ سندھی میں شہد کو 'ماکھی' کہتے ہیں جو بعد میں تبدیل ہو کر 'مکھی بیلو' بن گیا۔ یہ وہی سانگھڑ ہے جہاں انگریزوں کے خلاف حُر تحریک برپا ہوئی اور 'وطن یا کفن' کی آواز اُٹھی۔

چوٹیاری ڈیم اور آس پاس سبزہ زاری — تصویر ابوبکر شیخ
چوٹیاری ڈیم اور آس پاس سبزہ زاری — تصویر ابوبکر شیخ

چوٹیاری ڈیم کے جزیرے — ابوبکر شیخ
چوٹیاری ڈیم کے جزیرے — ابوبکر شیخ

یہ وہی سانگھڑ ہے جو کپاس کی پیداوار میں مشہور ہے اور جہاں اندازاً ایک سو سے زائد جننگ فیکٹریاں ہیں، مگر پھر بھی راستے ٹوٹے ہوئے ہیں۔

سورج ڈوب چکا ہے، گرمی کا موسم ہے اور بجلی کی مرضی ہے کہ کب آئے اور کب جائے، اور اس وقت بجلی کی مرضی تھی کہ وہ سانگھڑ میں نہ ہو اس لیے شہر میں اکا دکا انرجی سیور جنریٹر کے شور میں روشن تھے۔

صبح کو جب میں ماضی کے مکھی فاریسٹ اور حال کے چوٹیاری ڈیم کو دیکھنے کے لیے سانگھڑ سے شمال کی طرف نکلا تو سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا البتہ گرمی کی وجہ سے میرا چہرہ پسینے میں شرابور تھا۔

آپ جیسے جیسے شہر سے باہر نکلتے ہیں ہریالی آپ کے ہمراہ ہوتی ہے۔ چاہے موسم کوئی بھی ہو، سبزہ ہمیشہ ہی آپ کو لبھاتا ہے۔ اگر کھیتوں کی ہریالی آپ کا ساتھ چھوڑ دے تو یہ سانگھڑ کی زرخیز مٹی اور ماحول کا کمال ہے کہ چھوٹی بڑی جھیلوں میں اُگی لمبی گھاس 'پن' (Reeds) آپ کا ساتھ دیتی ہے۔

اس لمبی گھاس پر مقامی جنگلی چڑیوں کے جھںُڈ تھے جو اس ہری گھاس پر بیٹھتے، گاتے اور پھر اُڑ جاتے اور پھر ایک مختصر سی پرواز کے بعد پھر لوٹ آتے۔ اظہار کی تڑپ میں ایک توانائی ہوتی ہے جو انسان، چرند و پرند کو ایک جگہ بیٹھنے نہیں دیتی۔ ان چڑیوں کی یہ تڑپ ہوسکتا ہے سورج طلوع ہونے اور ہلکی گلابی صبح کی خوشی میں ہو، کہ اُگتا سورج کسے اچھا نہیں لگتا اور رات کے اختتام کی خوشی کسے نہیں ہوتی؟

پھر ایک چھوٹا سا بازار راستے میں آتا ہے اور ساتھ میں انگریزوں کا تعمیر کردہ قدیم آبپاشی نظام کا پل ہے جسے 'جمڑاؤ کینال' کہتے ہیں۔ اس پر 1894 میں کام شروع ہوا اور پانچ برس کے بعد جمڑاؤ ہیڈ کینال کا بمبئی کے گورنر نے 24 نومبر 1899 میں افتتاح کیا تھا۔

جمڑاؤ کینال کی افتتاحی تختی — ابوبکر شیخ
جمڑاؤ کینال کی افتتاحی تختی — ابوبکر شیخ

جمڑاؤ ہیڈ — ابوبکر شیخ
جمڑاؤ ہیڈ — ابوبکر شیخ

جمڑاؤ ہیڈ — ابوبکر شیخ
جمڑاؤ ہیڈ — ابوبکر شیخ

اب یہاں پتھر اور جمڑاؤ ہیڈ کے پرانے پُل اور کنارے رہ گئے ہیں۔ پانی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو یہ پرانا نظام پورا نہ کرسکا اس لیے نیا جمڑاؤ ہیڈ بنا دیا گیا ہے اور اس کو یوں اکیلا برباد ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔

اب پرانے بہاؤ میں پانی کھڑا ہے اور پن اُگتی ہے جبکہ ویرانی اور خاموشی چھائی رہتی ہے۔ ساتھ میں گزرے دنوں کے ساتھی، پیپل کے گھنے اور دراز پیڑ کھڑے ہیں۔ یہ درخت اگر بول سکتے تو اُن دنوں کے افسانے ضرور بیان کرتے کہ جب یہ کینال بہتا تھا تو اس کے کناروں پر کتنے خانہ بدوشوں کے خاندانوں نے یہاں آ کر پڑاؤ ڈالے اور فرنگیوں کی بندوقوں اور توپوں نے کتنا بارود اپنے منہ سے اُگلا۔

امر لغاری جو سانگھڑ میں ماحولیات اور تاریخ پر کافی تحقیقی کام کر چکے ہیں، وہ اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ، "اس میں تو شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ سانگھڑ سے بہنے والا بہاؤ 'نارو' جمنا، ہاکڑو اور ستلج کے سیلابی پانی کا قدرتی بہاؤ ہے۔ انگریزوں نے 1858 میں اس کو روہڑی کے پاس سے 12 میل لمبا چینل دے کر دریائے سندھ سے ملا دیا۔ اسی طرح یہ بہاؤ 320 میلوں کا لمبا سفر طے کر کے روہڑی سے علی بندر پہنچا، جمڑاؤ ہیڈ اس بدمست پانی کو نکیل ڈالنا جیسا تھا۔

"جمڑاؤ سے چوٹیاریوں تک نارو کا بایاں طرف چھوٹی اور بڑی جھیلوں میں تبدیل ہوا، یہاں سے ایک برانچ 'سائو' کے نام سے بہتی تھی۔ انگریزوں نے جب جمڑاؤ ریگیولیٹر بنوایا تو اس 'سائو برانچ' کو ایک اضافی اخراجی برانچ میں تبدیل کیا گیا اور 'رانٹو اخراجی برانچ' نام دے دیا گیا تھا۔

جمڑاؤ کینال سے رانٹو کینال — تصویر ابوبکر شیخ
جمڑاؤ کینال سے رانٹو کینال — تصویر ابوبکر شیخ

جزیرے پر موجود ماہی گیر — تصویر ابوبکر شیخ
جزیرے پر موجود ماہی گیر — تصویر ابوبکر شیخ

چوٹیاری ڈیم کے جزیروں پر طرز زندگی — تصویر ابوبکر شیخ
چوٹیاری ڈیم کے جزیروں پر طرز زندگی — تصویر ابوبکر شیخ

"ایسے دوسرے بہاؤ بھی تھے جو نارو کی بائیں طرف کی اراضی میں بہتے تھے اور وہاں موجود جھیلوں کو پانی دیتے، اور اگر پانی زیادہ ہو جاتا تو نئی جھیلیں بن جاتیں۔ سردیوں کی موسم میں یہ جھیلیں وہاں پانی کی کمی کو پورا کرتیں۔

"نارو کی اس پانی کی آمد اور جھیلوں سے یہاں ایک منفرد ایکولاجی نے جنم لیا۔ یہاں زراعت شروع ہوئی، جنگلی و آبی حیات نے آب و تاب سے اپنی خوبصورتی بکھیری، ہزاروں ماہی گیر خاندان یہاں آباد ہوئے اور یہ جھیلیں آخرکار وقت کے ساتھ اپنا سفر کرتے کرتے چوٹیاریوں ڈیم میں تبدیل ہوگئیں۔ "

چوٹیاریوں ڈیم کا کام شروع ہونے سے پہلے ماحولیات پر ہونے والے ممکنہ اثرات کے بارے میں تحقیق کی گئی جو 1993ء میں سندھ حکومت کو واپڈا نے پیش کی تھی۔ اس میں یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ، 'ڈیم بننے سے زرخیز زمین، چراگاہوں، جنگلی حیات، سیم و تھور بڑھنے سے مقامی درختوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔'

مگر اس رپورٹ میں عوام کے رد عمل کے طور پر لکھا گیا کہ، 'لوگ ڈیم کے بننے سے بہت خوش ہیں کیونکہ انہیں اس کے بدلے میں آٹھ ایکڑ زمین اور گھر ملیں گے، پینے کے لیے میٹھا پانی فراہم ہوگا، ماہی گیر بھی خوش ہیں کیونکہ مچھلی کی تعداد بڑھے گی تو ان کا روزگار بھی بڑھے گا۔'

مگر یہ ساری خوش فہمی کے سبز باغ تھے جن کو وقت کی حقیقت نے بے رنگ کردیا۔

جزیروں کا کٹاؤ — تصویر ابوبکر شیخ
جزیروں کا کٹاؤ — تصویر ابوبکر شیخ

ماہی گیر مچھلی پکڑنے میں مصروف ہیں — تصویر ابوبکر شیخ
ماہی گیر مچھلی پکڑنے میں مصروف ہیں — تصویر ابوبکر شیخ

اس ڈیم کی تکمیل 1997 میں ہونی تھی جو نہ ہو سکی۔ آخر پانچ برس کے بعد 45 ہزار ایکڑ پر پھیلا یہ ڈیم 12 دسمبر 2002 میں چھے ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہوا، جس کا افتتاح اُس وقت کے وزیراعظم ظفراللہ جمالی صاحب نے کیا۔ اس ڈیم میں 0.71 ملین ایکڑ فٹ پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔

میں جب ڈیم کے آؤٹ لیٹ پر پہنچا تو ریت کے ٹیلوں کی سفیدی، سورج کی تمازت کی وجہ سے آنکھوں میں چُبھتی اور ان ٹیلوں کے بیچ میں نیلگوں پانی پر نظر پڑتی تو ایک انجانی فرحت کے احساس میں جسم بھیگ سا جاتا۔

میں اپنے ساتھیوں رمضان ملاح اور میر حسن مری کے ساتھ ایک چھوٹی سی کشتی پر سوار ہو کر ڈیم دیکھنے کے لیے نکل پڑا۔ وہاں ریت کے سفید چھوٹے بڑے سفید ٹیلے ہیں اور ان میں سے کچھ ٹیلوں پر ماہی گیروں کے گاؤں آباد ہیں۔

چوٹیاری ڈیم آؤٹ لیٹ — ابوبکر شیخ
چوٹیاری ڈیم آؤٹ لیٹ — ابوبکر شیخ

ان لیٹ رانٹو کینال — ابوبکر شیخ
ان لیٹ رانٹو کینال — ابوبکر شیخ

رمضان ملاح کے مطابق اس ڈیم کے اندر بیس سے زائد ماہی گیروں کے گاؤں آباد ہیں اور جب میں نے پوچھا کہ یہاں کتنے خاندان ہوں گے؟ تو جواب آیا، 'بارہ سو سے تو زائد خاندان ہوں گے، ہم تو پیدا بھی یہاں پر ہی ہوئے ہیں۔'

ہم یہاں بسنے والوں کے متعلق باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں دور پانی کے بیچ میں ایک ننھا مُنا سا جزیرہ اچانک سے نمودار ہوا، پھر کچھ درخت نظر آئے اور جزیرے کی وسعت بڑھتی گئی۔ اس کے بعد گھر نظر آئے۔

کنارے پر گھروں کے ساتھ نیم، کنڈی اور کیکر کے درخت بھی نظر آئے۔ کنارے پر برتن دھوتی ایک بچی نظر آئی اور اُس کا چھوٹا بھائی۔ وہ کسی بات پر ہنس رہے تھے۔

ہم کنارے پر اُترے جہاں ماہی گیروں کی ایک بہت بڑی بستی تھی۔ میر حسن مری نے کہا، ''یہاں دو سو کے قریب خاندان رہتے ہیں، اسے 'پھُلیل' کے نام سے پکارا جاتا ہے، یہاں کوئی ہسپتال نہیں ہے البتہ چائے کے دو ہوٹل ضرور ہیں۔" میں ایک ہوٹل میں گیا، وہاں لوگ موجود تھے اور کرینہ کپور کے رقص میں اتنے منہمک تھے کہ نہ باہر چلتی لُو اَثر کرتی اور نہ ہمارے آنے کا کسی نے نوٹس لیا۔

چونکہ یہ جزیرہ پانی کے بیچ میں تھا اور نیم کے درخت کی چھاؤں گھںی تھی اس لیے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ساتھ لاتی۔

جزیرے کے کنارے پر ایک بچی برتن دھو رہی ہے جبکہ اس کا بھائی بھی ہمراہ ہے — تصویر ابوبکر شیخ
جزیرے کے کنارے پر ایک بچی برتن دھو رہی ہے جبکہ اس کا بھائی بھی ہمراہ ہے — تصویر ابوبکر شیخ

— ابوبکر شیخ
— ابوبکر شیخ

الہڈنو ملاح، جس کی آنکھوں سے وقت نے بہت سارا نُور چرا لیا ہے اور بدلے میں ایک لاٹھی دے دی ہے کہ چلے تو اس کے سہارے سے چلے، چلتا ہوا آیا اور نیم کی ٹھنڈی چھاؤں میں ہمارا ساتھی بنا۔

میں نے جب اس سے گزرے شب و روز، گرمیوں اور سردیوں کے موسموں کے متعلق پوچھا تو کچھ پلوں کے لیے اُس کی آنکھوں کو جیسے جوانی کے دنوں کا وہ نور مل گیا جب چودھویں کی رات میں بھی زمین پر گری ہوئی سوئی نظر آ جاتی ہے۔

الہڈنو بولا تو ساتھ میں ایک زمانہ بول پڑا، "یہ ستر اکہتر کا زمانہ تھا، میں بھی جوان تھا تب اس پھلیل کی بلے بلے تھی، جہاں جال پھینکو نصیب ہی نصیب (مطلب مچھلی ہی مچھلی)، 40 سے زائد اقسام کی مچھلیاں تھی یہاں، کیا دن تھے سردیاں آتیں تو اپنے ساتھ پردیسی پرندے ہی نہیں لاتی بلکہ سنگتیوں ساتھیوں کی محفلیں بھی ساتھ لاتی۔

"تب چھوٹی چھوٹی جھیلیں تھیں، پرندوں کی نہ جانے کتنی قسمیں تھیں جو ان جھیلوں کی پن میں رہتی تھیں۔ اب تو کچھ نہیں بچا، اب سب ویران ہو گیا ہے۔ جھیلوں میں اتنا بڑا پانی ہے کہ نہ مچھلی ہے نہ گھاس۔

"کہتے ہیں کہ ڈیم کے پانی سے زمینیں آباد ہوں گی۔ اب سرکار کو کون بولے گا، مرضی والی ہے بابل پر یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک جگہ کو آباد کرنے کے لیے دوسری جگہ کو برباد کر دو؟ بس جو سرکار کی مرضی۔۔" بات ختم کر کے وہ ایسے خاموش ہو گیا جیسے اب اُس کے پاس بولنے کے لیے الفاظ ہی نہ ہوں۔

چوٹیاری ڈیم پر جزیرے اور ان پر ہریالی — ابوبکر شیخ
چوٹیاری ڈیم پر جزیرے اور ان پر ہریالی — ابوبکر شیخ

بچے ٹھنڈے پانی سے محظوظ ہو رہے ہیں — تصویر ابوبکر شیخ
بچے ٹھنڈے پانی سے محظوظ ہو رہے ہیں — تصویر ابوبکر شیخ

کچھ لمحوں کے لیے خاموشی سی چھائی رہی پھر میں نے پیر بخش ملاح سے سوال کیا، سوال کے جواب میں وہ بولا، "جب گرمیاں اور بارشیں ہوجائیں تو سانپ اور بچھو کے ڈسنے کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں، مقامی ٹوٹکے کرتے ہیں اگر ان سے فائدہ نہ ملے تو پھر سانگھڑ جانا پڑتا ہے جو یہاں سے چالیس کلومیٹر دور ہے۔"

باتیں ہوتی رہیں، گزرے وقت کی خوبصورت یادیں تھیں جو باتوں میں کورے سکوں کی طرح کھنکتیں۔ آنے والے وقت کا خوف تھا جس کی وجہ سے مسکراتے چہروں سے مسکان خوشبو کی طرح اُڑ سی جاتی اور چہروں پر مایوسی کی ریت سی اُڑنے لگتی۔ شام کے چار بجے تو کچھ بچے دوڑتے جزیرے کے پانی میں نہانے کے لیے کود پڑے کہ ٹھنڈا پانی گرمی کا دشمن جو ہوا۔

ہر جگہ کی اپنی خوبصورتی اور اپنے غم ہیں، بس کچھ فطری ہوتے ہیں کچھ انسان کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ میں پھر دیگر جزیروں پر بھی گیا۔ کتابیں اور لوگوں کی باتیں بتاتی ہیں کہ ماحولیاتی رنگارنگی سے یہ علائقہ بھرپور تھا۔

'نارو' کے قدیم بہاؤ نے فطرت کے اس میوزیم کو تخلیق کیا اور اسے پروان چڑھاتا رہا۔ مکھی فاریسٹ کو برباد کرنے میں انگریزوں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی، یہاں تک کہ فاسفورس کے بم بھی برسائے۔

مگر نارو کے بہاؤ نے منہ نہیں موڑا۔ وقت گزرا تو اس علاقے میں چھوٹی بڑی جھیلوں کی ایک رنگارنگ دنیا بس گئی اور جنگلی حیات کی دین کا خزانہ کھل گیا۔

چوٹیاری ڈیم کے جزیروں پر زندگی — تصویر ابوبکر شیخ
چوٹیاری ڈیم کے جزیروں پر زندگی — تصویر ابوبکر شیخ

چوٹیاری ڈیم کے جزیروں پر موجود مکانات — تصویر ابوبکر شیخ
چوٹیاری ڈیم کے جزیروں پر موجود مکانات — تصویر ابوبکر شیخ

مگر پھر 'چوٹیاریوں ڈیم' بن گیا، جو دھیرے دھیرے یہاں کی ماحولیاتی زرخیزی کو برباد کرتا جا رہا ہے۔ ریت کے جزیرے مسلسل پانی کے کٹاؤ کی وجہ سے کم ہو رہے ہیں جبکہ ماہی گیر نقل مکانی کرنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ نارو کے قدیم بہاؤ کا ایک زرخیز پانی کا کلچر مسلسل برباد ہو رہا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈیم تو چونکہ اب ختم نہیں ہوسکتا، لہٰذا یہاں کی بچی کھچی جنگلی حیات کو تحفظ دینے کے لیے 'چوٹیاری وائلڈ لائف نیشنل پارک'، 'چوٹیاری فیلڈ اسٹڈی سینٹر' اور 'ٹائڈل لنک برڈ سینکچری' قائم کی جائے تاکہ یہاں کی دم توڑتی ماحولیات کو سہارا دیا جا سکے۔

اب بھی وقت ہے، آئی یو سی این، ڈبلیو ڈبلیو ایف، اور حکومتِ سندھ کو اس حوالے سے انتہائی سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔