Dawnnews Television Logo

اولڈ ٹریفورڈ میں اصل امتحان پاکستان کا منتظر

پاکستان نے پہلے ٹیسٹ میچ میں کامیابی حاصل کرکے ثابت کردیا کہ وہ درجہ بندی میں تیسری پوزیشن کے صحیح حق دار ہیں۔
اپ ڈیٹ 22 جولائ 2016 06:21pm

یہ ایک خواب کی مانند تھا کہ محمد عامر لارڈز میں خوشی سے سرشار پویلین کی طرف بڑھ رہے ہیں جبکہ پوری ٹیم اور پوری قوم ان کے پیچھے ہے لیکن یہ خواب نہیں رہا بلکہ پاکستان نے ٹیسٹ کرکٹ کی سب سے طویل تاریخ کے حامل لارڈز کے اسی میدان پر فتح حاصل کی جس کا آسیب چھ سال سے قومی ٹیم کا پیچھا کر رہا تھا۔

اس دفعہ وہ اس مشہور پویلین کے سامنے دائیں جانب جشن منارہے تھے اور تجربہ کار ساتھی کرکٹر یونس خان فوجی کارکردگی کے بعد پرجوش انداز میں پش اپس اور سیلوٹ میں ان کی قیادت کر رہے تھے۔ تاہم لارڈز میں فتح کے جذبات سے مغلوب کچھ نوجوان کھلاڑی فوجی قواعد کو جلد ہی بھول کر قطار سے نکل کر اچھل کود مچانے لگے۔

اس کے ساتھی ہی انھوں نے سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل کی۔

پاکستان ٹیم نے منفرد انداز میں جیت کا جشن منایا—فوٹو: رائٹرز
پاکستان ٹیم نے منفرد انداز میں جیت کا جشن منایا—فوٹو: رائٹرز

لارڈز میں ہندوستان کی فتح

دو سال قبل ایک اور ٹیم نے لارڈز پر انگلینڈ کے خلاف 0-1 سے برتری حاصل کی تھی، ہندوستان ٹھیک اسی وقت برطانیہ کے دورے پر آئی تھی، انگلینڈ انجریز، کھیل کی بہتات اور کرکٹ کے روایتی جوش کی عدم موجودگی کے باعث شکست سے دوچار ہوئی تھی.

تاہم اس کے بعد ایک تبدیلی آئی جس کے بعد وہ مچل جانسن اور پھر اینجلو میتھوز پر چڑھ دوڑے، ان کے پورے گیم کا منصوبہ تبدیل ہو گیا تھا۔ پھر آگے چل کرکٹ کے بارے میں ان کی سوچ میں بھی واضح تبدیلی آئی۔

ہندوستان نے انگلینڈ کو لارڈز میں زیر کرنے کے لیے ان کے تذبذب، خراب فارم اور بُرے وقت سے فائدہ اٹھایا۔

رویندرا جدیجا نے تیسری اننگز میں ان پر نشتر چلائے، جدیجا اور اینڈرسن ٹیسٹ سے قبل ٹرینٹ برج پر بھڑ چکے تھے اور اب جدیجا 50 رنز مکمل کر کے پاگلوں کی طرح بلے کو اچھال رہے تھے۔ ان کی 50 رنز کے جشن میں بلے کے استعمال کو تلوار سے تشبیہ دی گئی تھی۔

جدیجا کی کمار کے ساتھ شراکت ہی ان کی ٹیسٹ میں کامیابی کی وجہ تھی، ہدف کے تعاقب میں پریشانی سے دوچار انگلش ٹیم جدوجہد کرتی نظر آئی جب ایسا لگ رہا تھا کہ پوری ٹیم ایشانت شرما کو ہُک کرتے ہوئے آؤٹ ہو جائے گی۔

دوسرے ٹیسٹ میں شرما زخمی ہوئے اور جدیجا سلپ پر تھے اور انھوں نے کک کا کیچ چھوڑدیا جس کے بعد انگلینڈ نے اس دن صرف دو وکٹیں گنوائیں اور سیریز 1-3 سے جیت لی۔

انگلش کنڈیشنز کیلئے انتہائی موزوں باؤلنگ اٹیک

انگلینڈ کی جدید کنڈیشن پر بڑے عرصے تک شاید ہی کسی ٹیم نے مضبوط باؤلنگ اٹیک کے ساتھ دورہ کیا ہو، ایک وقت تھا جب آپ معیاری فاسٹ باؤلر اور اسپنرز کے ساتھ میدان میں اترتے تھے لیکن انگلینڈ کی وکٹیں روایتی انگلش پچز کی طرح نہیں ہیں بلکہ مٹی کی ان پچز پر جان نہیں ہوتی جس میں بلے بازوں یا باؤلرز کے لیے کچھ نہیں۔ لارڈز کی اس خراب وکٹ میں گیند صحیح معنوں میں سیم بالکل نہیں ہوئی، اس میچ کے چوتھے روز تک گیند اسپن بھی نہیں ہوئی جبکہ میچ کے دوران گیند باؤنس بھی نہیں ہوئی۔ پچ میں مثبت چیز یہ تھی کہ بس تھوڑی سی سوئنگ موجود تھی۔

محمد عامر نے 6 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کی—فوٹو: اے ایف پی
محمد عامر نے 6 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کی—فوٹو: اے ایف پی

یہ صرف لارڈ زکی کہانی نہیں، انگلینڈ میں ٹیسٹ کے پہلے روز کے برعکس اکثر ایسا ہی ہوتا ہے جہاں تمام گیندیں صحیح جگہ نہیں پہنچ پاتیں، جہاں گیند سیم نہیں ہوتی اور جہاں بلے باز گیند ٹائم کرنے میں جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔

یاسر شاہ نے لارڈز نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا—فوٹو: اے ایف پی
یاسر شاہ نے لارڈز نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا—فوٹو: اے ایف پی

اس طرح کی پچز میں آپ کو سوئنگ، ریورس سوئنگ اور معیاری باؤلرز کی ضرورت ہوتی ہے اور پاکستان کے پاس یہ سب کچھ ہے۔ بس ایک آل راؤنڈر کی کمی ہے(باؤلنگ ایکشن قانونی قرار پانے پر محمد حفیظ وہ آل راؤنڈر ثابت ہوں گے)۔

ایسا لگتا ہے کہ ایڈباسٹن میں عامر اور راحت علی خطرناک ثابت ہوں گے، اگر اولڈ ٹریفورڈ میں تیز اور باؤنسی وکٹ ہوئی تو وہاب ریاض باؤلنگ کرنا پسند کریں گے اور اگر اوول میں اسپن ہوئی تو یاسر شاہ تباہی مچا دیں گے۔

وہاب ریاض اولڈ ٹریفورڈ میں خطرناک ثآبت ہوسکتے ہیں—فوٹو: رائٹرز
وہاب ریاض اولڈ ٹریفورڈ میں خطرناک ثآبت ہوسکتے ہیں—فوٹو: رائٹرز

انگلینڈ کی گھر میں برتری کو خطرہ

بعض اوقات مہمان ٹیم کی تیاری میزبان کے مقابلے میں بہتر ہوسکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جلد میدان مار سکتے ہیں۔

فوجی کیمپ، دو وارم اپ میچز، جمی اینڈرسن کی عدم موجودگی اور لارڈز میں اچھی کارکردگی دکھانے کے جذبے سمیت تمام چیزیں کارگر ثابت ہوئیں اور پاکستانی ٹیم نے پویلین کے سامنے فتح کا جشن منایا۔

انگلینڈ نے تنزلی سے دوچار سری لنکن ٹیم سے کھیلا جہاں حقیقی معنوں میں ان کا امتحان نہیں ہوا اور جوز بٹلر کو ٹیسٹ کرکٹ میں کم تجربے کے باعث منتخب نہیں کیا گیا۔

لیکن یہ وہ قوم ہے جو 8 سالوں کے دوران دو سیریز میں ناکامی سے دوچار ہوئی، یہ دو شکستیں 15 سیریز کے دوران ہوئیں، ان میں سے ایک اس دور کی بہترین ٹیسٹ ٹیم جنوبی افریقہ سے ہوئی اور دوسری دو میچوں کی سیریز سری لنکا کے خلاف تھی۔

انگلینڈ ہوم گراؤنڈ میں ٹیسٹ میچوں میں کامیابی حاصل کر کے اس وقت دنیا کی بہتر ٹیم ہے۔

انگلینڈ ہوم گراؤنڈ پرگزشتہ 8 سالوں میں صرف 2 سیریز ہار چکا ہے—فوٹو: رائٹرز
انگلینڈ ہوم گراؤنڈ پرگزشتہ 8 سالوں میں صرف 2 سیریز ہار چکا ہے—فوٹو: رائٹرز

مخالف بلے باز کو گیند کا سامنا کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے اور وہ سلپ میں شکار بنتا ہے، جب گیند سوئنگ یا سیم ہورہی ہو تو مخالف باؤلر کو بھی اکثر محنت کرنا پڑتی ہے اسی لیے دونوں کپتان پریس کانفرنس میں گھاس کے رنگ سے پریشان نظر آئے۔

اسٹورٹ براڈ انگلینڈ کے لیے متاثر کن کارکردگی نہ دکھا پائے—فوٹو: اے ایف پی
اسٹورٹ براڈ انگلینڈ کے لیے متاثر کن کارکردگی نہ دکھا پائے—فوٹو: اے ایف پی

اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت نہیں کہ یہ اب بھی کرکٹ کا سب سے بڑا دورہ ہے، یہ پرانی بادشاہت ہے، یہ وہی ملک ہے جس نے کرکٹ کو ایجاد کیا، یہ وہ ملک ہے جس نے دیگر ممالک کو کرکٹ سکھائی۔ یہاں کھیلنا نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز میں کھیلنے کی طرح نہیں۔ یہ آپ کی میراث اور کیریئر کے لیے ایک مختلف تجربہ ہے۔

تجربہ کار مڈل آرڈر

پاکستان کا مڈل آرڈر بلاشبہ تھوڑا زائد العمر لیکن یہ اسی قدر مضبوط ہے۔ یونس خان کی اوسط 50 سے زیادہ ہے، مصباح کی بییٹنگ اوسط بھی 50 کے قریب ہے، اسد شفیق کی گزشتہ سال ٹیسٹ میں 50 سے زیادہ کی اوسط تھی اور سرفراز احمد ساتویں نمبر پر بیٹنگ کے باوجود 45 کی اوسط رکھتے ہیں جو معیار کا ثبوت ہے۔

سرفراز احمد نے نمبر سات پر بیٹنگ کرتے ہوئے 45 رنز کی اننگز کھیلی—فوٹو: اے ایف پی
سرفراز احمد نے نمبر سات پر بیٹنگ کرتے ہوئے 45 رنز کی اننگز کھیلی—فوٹو: اے ایف پی

سرفراز کو اس میچ میں دو نصف سنچریاں بنانی چاہیے تھیں مگر مصباح نے سنچری کی بدولت میچ کو بنایا۔ پھر اسد شقیق نے دو معیاری اننگز کھیلیں، یہاں تک کہ یونس خان نے اپنے روایتی اسٹائل کے ساتھ دونوں اننگز میں قیمتی رنز جوڑے، اب اس مڈل آرڈر پر کوئی بھی سوال نہیں اٹھا رہا۔

ان کے ٹاپ آرڈر کے حوالے سے کچھ سوالات ہیں، اظہر علی معیاری کھلاڑی ہیں لیکن اب بھی متحدہ عرب امارات سے باہر مشکل میں نظر آتے ہیں لیکن تکنیکی اور ذہنی اعتبار سے انہیں انگلینڈ میں نئی گیند پر عبور حاصل کرنا چاہیے، وہ دونوں دفعہ بدقسمت تھے جب محض لیگ اسٹم کو چھو کر گزرتی ہوئی گیندوں پر انہیں ایل بی ڈبلیو قرار دیا گیا۔

صرف اوپنر ہی پریشان کن پہلو ہیں۔ دونوں اوپنرز کے سامنے جمی اینڈرسن کی جگہ ڈیبو کرنے والے باؤلر تھے، انھوں نے کیچز گرائے، اسٹورٹ براڈ اپنی مکمل فارم میں نہیں اور انھوں نے اس پر تاحال توجہ نہیں دی۔

مصباح نے پہلی اننگز میں سنچری بنا کر جیت کی بنیاد رکھی—فوٹو: اے ایف پی
مصباح نے پہلی اننگز میں سنچری بنا کر جیت کی بنیاد رکھی—فوٹو: اے ایف پی

شان مسعود سیکنڈ ڈویژن کاؤنٹی اوپنرز کی طرح مشکلات سے دوار نظر آئے اور اپنی خامیوں پر اب تک قابو نہیں پا سکے، ان کا فرسٹ کلاس اور ٹیسٹ ریکارڈ اب تک کسی کے لیے متاثر کن نہیں، ان کے خاندانی روابط اور انگلینڈ کی تعلیم کے ساتھ ایسا لگتا ہے کہ وہ انگلینڈ میں کارگر ثابت ہوں گے لیکن ایسا لگتا نہیں۔

محمد حفیظ کی متحدہ عرب امارات میں 52 کی اوسط ہے جبکہ باہر کھیلے گئے ٹیسٹ میچوں میں 33 کی اوسط ہے اور اگر وہ اس سیریز میں 33 کی اوسط کو برقرار رکھ پاتے ہیں ہیں تو وہ کامیاب ہوں گے، اس وقت صرف یہی امید کی جا سکتی ہے کہ انگلینڈ کے سلپ فیلڈر یا کیپر کیچ گرادیں یا کیچ کرنے ہی نہ جائیں، اس وقت محمد حفیظ اور میچ سے قبل سلپ میں کیچ کی پریکٹس کرانے والے کوچ کے درمیان فرق کرنا مشکل ہے۔

انگلینڈ میں اوپنرز کا کردار اہم ہوتا ہے کیونکہ یہاں نئی گیند دیر تک نئی رہتی ہے۔ یہ ایک ارتقائی وجہ ہے کہ کیوں ہوبز، بائیکاٹ، ایتھرٹن اور کک انگلینڈ کے اوپنر ہیں اور دنیا کی دیگر ٹیموں میں ٹرمپر، سری کانت، ہیڈن، سہواگ اور گیل جیسے اوپنر پیدا کیے۔ یہاں ان دونوں اوپنرز نے پہلے میچ میں ملنے والے مواقعوں کی برکت سے 38 رنز کی اچھی شراکت تھی لیکن شان مسعود 13 ویں اوور میں ہی آؤٹ ہو گئے اور یہ وقت تھا جب میزبان باؤلرز نے سوئنگ شروع کی۔ ابتدائی تینوں بلے بازوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ 30 سے زیادہ اوور کھیلیں تاکہ مڈل آرڈر کے پاس بڑا مجموعہ ترتیب دینے کا موقع ہو، ہو سکتا ہے یہ تینوں ابتدائی بلے باز ایسا کر سکیں لیکن یہ آسان نہیں ہوگا۔

یونس خان لارڈز ٹیسٹ میں بڑا اسکور تو نہ بنا سکے لیکن دونوں اننگز میں قیمتی رنز جوڑدیے—فوٹو: رائٹرز
یونس خان لارڈز ٹیسٹ میں بڑا اسکور تو نہ بنا سکے لیکن دونوں اننگز میں قیمتی رنز جوڑدیے—فوٹو: رائٹرز

اور جیمز اینڈرسن کی جیک بال یا فن کی جگہ واپسی سے یہ سفر مزید کٹھن ہو جائے گا اور بین اسٹوکس بھی واپس آسکتے ہیں، اینڈرسن سری لنکا کے خلاف اچھی فارم میں تھے اور لگتا یوں تھا کہ ان کے کردار کے باعث سری لنکا ناکام ہوئی۔

انگلینڈ کی بیٹنگ موجودہ کمزوریوں کی وجہ سے مکمل نہیں ہے۔ سرما کے اختتام پر ہیلز، ونس، بیلنس اور معین علی نہیں کھیل پائے اور ہوسکتا ہے ان میں کچھ اگلے میچ میں بھی نہیں ہوں اور بیئراسٹو ممکنہ طورپر کیپنگ نہ کریں۔

لیکن گزشتہ سرما میں آسٹریلیا کے خلاف باؤلنگ ہی تھی جس نے ٹیسٹ جتوایا تھا۔ ایک ٹیسٹ میں آسٹریلیا کھانے کے وقفے سے پہلے آؤٹ ہو چکے تھے جبکہ دوسرے میچ میں چائے کے وقفے تک پویلین لوٹ گئے تھے اسی طرح پوری سیریز ہار گئے، اسی لیے یہاں نئی گیند کا خطرہ حقیقی ہے۔

لارڈ میں ساکھ بحال ہوئی

لارڈز ٹیسٹ ایک جھٹکا ہے اور مخالف ٹیم کو اس کا احساس صدیوں تک ہو، جب آپ لارڈز میں پہنچتے ہیں تو آپ کرکٹ کی مقدس جگہ میں داخل ہوتے ہیں، یہ وہ سب کچھ ہے جس کے بارے میں آپ سوچتے اور خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اب آپ اس جگہ موجود ہیں جہاں دنیا اور انگلینڈ کو دکھانا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں۔

انگلینڈ میں مقامی تماشائیوں کی اکثریت ہوتی ہیں، تماشائی نشے میں دھت ہوسکتے ہیں لیکن وہ اکثر چیختے نہیں یا بدتمیزی نہیں کرتے۔ وہ انگلینڈ کے کٹر تماشائیوں کے بجائے بزرگ، قدامت پرست اورکرکٹ روایتی مداح ہوتے ہیں، وہ مخالف ٹیم کو داد دیتے ہیں، وہ اچھی کرکٹ کے متوالے ہیں اور ان میں سے کچھ دوپہر کو سوتے ہیں۔ یہ انگلینڈ کے لیے گھر کا کھیل ہے لیکن جب آپ انگلینڈ میں کھیلتے ہیں تو یہ آپ کے لیے غیرجانبدار مقام جیسا ہوتا ہے۔

پاکستان نے 20 سال بعد لارڈزٹیسٹ میں کامیابی حاصل کی—فوٹو: اے ایف پی
پاکستان نے 20 سال بعد لارڈزٹیسٹ میں کامیابی حاصل کی—فوٹو: اے ایف پی

جب پاکستان یہاں پہنچا تو گزشتہ دورے میں پیش آنے والے واقعے کی وجہ سے دباؤ میں تھا، انھوں نے چند سال قبل یہاں پر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتا اور بعد میں ٹیسٹ میں بدنام ہوئے اس لیے انھیں کچھ ثابت کرنا تھا۔

انھوں نے ایک دفعہ پھر ثابت کردیا اور سیریز میں 0-1 سے برتری حاصل کی اور اب وہ جیت کے لیے بہت کم مواقع رکھنے والی ٹیم نہیں رہی اور درجہ بندی میں اپنی تیسری پوزیشن کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں کامیاب ہوئے اور اب انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز میں برتری لیے ہوئے ہیں۔

اولڈ ٹریفورڈ اور ایجبسٹن انگلینڈ کے باقاعدہ ٹیسٹ میچز کے گراؤنڈ ہیں جہاں روایتی انگلش تماشائی اور وکٹیں ہوتی ہیں جبکہ جمی اینڈرسن بھی وہاں پر ہوں گے۔ پاکستان نے سیریز کا آغاز انتہائی بہترین انداز میں کیا ہے لیکن اب اصل کام کا آغاز ہوتا ہے جہاں انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ بقیہ دورہ کوئی ڈراؤنا خواب ثابت نہ ہو۔

پاکستان دورے کے آغازسے قبل دباؤ میں تھے لیکن پہلا میچ جیت کر سرخرو ہوئے—فوٹو: اے ایف پی
پاکستان دورے کے آغازسے قبل دباؤ میں تھے لیکن پہلا میچ جیت کر سرخرو ہوئے—فوٹو: اے ایف پی


جیرڈ کِمبر آسٹریلیا سے تعلق رکھتے ہیں اور کرکٹ تجزیہ نگار ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔