Dawnnews Television Logo

’نوکری ہے نہیں تو دیواریں رنگ دیتا ہوں‘

نواب شاہ کا رہائشی اپنے ہنر کو استعمال کرتے ہوئے دیواروں کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے میں مصروف ہے۔
اپ ڈیٹ 29 جولائ 2016 01:02pm

دنیا بھر میں اشتہارات کے لیے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے اور آج کے جدید دور میں سوشل میڈیا بھی تشہیری مہمات میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، لیکن ہمارے ملک میں تشہیر کے لیے ایک اور طریقہ بھی رائج ہے اور وہ ہے ’وال چاکنگ‘۔

آپ ملک کے مختلف شہروں، علاقوں اور گلی محلوں میں نظر اٹھا کر دیکھیے، آپ کو وال چاکنگ کے ذریعے چھوٹے کاروبار کرنے والوں کی جانب سے تشہیر نظر آئے گی، جبکہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے پیغامات بھی یہی دیواریں عوام تک پہنچا رہی ہوتی ہیں، اسی طرح حکیم اور عامل بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور وہ بھی دیواروں کے ذریعے شہریوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی تگ و دو میں بلند بانگ دعوے وال چاکنگ کی صورت میں کر رہے ہوتے ہیں۔

غرض کہ ان دیواروں کو نہ صاف ستھرا رہنے دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی مثبت استعمال کیا جاتا ہے، بلکہ الٹا ان پر وال چاکنگ کے ذریعے معاشرے و ملک کی خوبصورتی ہی تباہ کی جاتی ہے۔

— فوٹو: بشکریہ سارنگ سندھو
— فوٹو: بشکریہ سارنگ سندھو

لیکن سندھ کے شہر نواب شاہ کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے کہیں نہ کہیں آپ کو ایک آرٹسٹ نظر آئے گا جو انہی دیواروں کو شہر کی بہتر تصویر کشی کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہوگا جبکہ ملکی ثقافت و شاعری پر مبنی تصاویر بنا رہا ہوگا۔

شروعات میں تو حیرت ہوتی ہے کہ اب تک تو وال چاکنگ کے ذریعے دیواروں کی خوبصورتی خراب ہوتے ہی دیکھی تھی، لیکن یہ کون شخص ہے جو اتنی خوبصورتی سے ان دیواروں پر پینٹنگ کے ذریعے ان کو چار چاند لگا رہا ہے۔

— فوٹو: بشکریہ سارنگ سندھو
— فوٹو: بشکریہ سارنگ سندھو

جب اس آرٹسٹ سے اس کا تعارف معلوم کریں گے تو وہ اپنا نام سارنگ سندھو بتائے گا، انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے فائن آرٹس میں گریجویشن کیا ہے جبکہ انہوں نے رنگوں سے کھیلنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیم بھی دی ہے اور کئی تعلیمی اداروں میں بطور استاد خدمات انجام دے چکے ہیں۔

— فوٹو: بشکریہ سارنگ سندھو
— فوٹو: بشکریہ سارنگ سندھو

شہروں کی اہم شاہراہوں پر دیواروں کو تو سب ہی تشہیر کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ان کی خوبصورتی خراب کرنے میں ہمہ تن گوش رہتے ہے، ایسے میں ان کو یہ خیال کیوں آیا اور اس کے پیچھے ان کا مقصد کیا تھا؟، اس پر سارنگ سندھو کا کہنا تھا کہ وہ سرکاری ملازمت کے خواہش مند ہیں، لیکن لاکھ کوشش کے باوجود انہیں ملازمت نہیں ملی، تاہم ایسے وقت میں ڈپٹی کمشنر نواب شاہ گُھنور خان لغاری نے ان کی رہنمائی اور مدد کی، جس کے بعد وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ملازمت کی خواہش میں شہر کی اہم دیواروں پر پینٹنگ کرکے اپنا ہنر سامنے لانے کی کوشش میں محو ہوگئے۔

— فوٹو: بشکریہ سارنگ سندھو
— فوٹو: بشکریہ سارنگ سندھو

نواب شاہ کے اس آرٹسٹ سارنگ سندھو کا کہنا تھا کہ دیواروں پر مختلف رنگوں کا استعمال کرتے ہوئے پینٹگ کے دوران کہیں انہوں نے اپنے ملک، بالخصوص صوبے کی ثقافت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تو کہیں شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی شاعری کو رنگوں کے ذریعے دیواروں کی زینت بنایا۔

— فوٹو: بشکریہ سارنگ سندھو
— فوٹو: بشکریہ سارنگ سندھو

شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کے کلام کے انتخاب پر سندھ دھرتی کے اس ہنر مند بیٹے نے کہا کہ انہوں نے یہ کلام اس لیے منتخب کیا کیونکہ ان کے کلام میں امن و آتشی، رواداری اور باہمی محبت کا درس دیا گیا ہے جبکہ ان کے خیال میں آج ہمارے معاشرے میں انہیں صفات و خوبیوں کی سب سے زیادہ کمی ہے۔

— فوٹو: بشکریہ سارنگ سندھو
— فوٹو: بشکریہ سارنگ سندھو

سارنگ سندھو نے یہ بھی بتایا کہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ دیواروں کو تعصباتی اور نفرت آمیز پیغامات پر مبنی ’وال چاکنگ‘ کرکے ان کی خوبصورتی کو ماند کردیا جاتا ہے، اس لیے دیواروں پر رنگ برنگی تصاویر بنانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی ان کی خوبصورتی میں کمی کے بجائے اضافہ کیا جائے اور صحت مند معاشرے کا تصور پیش کرنے کی کوشش کی جائے۔

نواب شاہ کے اس شہری نے بھلے ملازمت کے حصول کی کوشش کے تحت ہی سہی لیکن دیواروں پر خوبصورت تصاویر و پینٹنگ کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر دیواروں کا مثبت استعمال کیا جائے، تو کیسے ان پر تصاویر کے ذریعے معاشرے کی خوبصورتی کو بڑھایا جاسکتا ہے اور جب یہ کام ایک چھوٹے سے شہر کا باسی کر سکتا ہے تو بڑے شہروں کی خوبصورتی کو اس طرح چار چاند لگائے جاسکتے ہیں۔