عمران بمقابلہ نواز : 2نومبر کیلئے بہت کچھ داؤ پر
خیبر پختونخوا اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اپنے ہزاروں حامیوں، بھاری مشینری جن میں لوڈرز اور لفٹرز شامل ہیں، کے ساتھ اسلام آباد پشاور موٹر وے پر موجود ہیں، وہ بنی گالہ سے اپنے لیڈر کے احکامات کے منتظر ہیں کہ کب وہ انہیں اسلام آباد کی جانب مارچ کا کہتے ہیں تاکہ وہ 2 نومبر کو وفاقی دارالحکومت کو بند کرنے کے اعلان کو عملی شکل دیں سکیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی انجینئر حامد الحق بھی اسپیکر اسد قیصر کے ہمراہ موجود ہیں، حامد الحق نے ڈان سے گفتگو میں بتایا کہ ہزاروں افراد موٹر وے پر عارضی قیام گاہ میں اس وقت موجود ہیں، صوابی کے قریب اس مقام پر کارکن اپنے رہنما عمران خان کے ’حکم‘ کے منتظر ہیں۔
رکن قومی اسمبلی نے مزید بتایا کہ ہمارے پاس لوڈرز اور لفٹرز بھی ہیں، ان کی مدد وہ تمام روکاوٹیں ہٹا دی جائیں گی جو وفاقی حکومت کی جانب سے راستوں میں لگائی گئی ہیں، ہم اسلام آباد ضرور جائیں گے اور ہم یہ آسانی سے کر بھی لیں گے۔
تحریک انصاف کے 2 نومبر کے دھرنے کے قریب آنے کے ساتھ ساتھ کشیدگی بھی بڑھتی جا رہی ہے، جبکہ جڑواں شہروں میں مظاہرین اور پولیس میں پہلے ہی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
اسلام آباد کے ایک پولیس افسر اندیشہ ظاہر کیا کہ 2 نومبر کو پولیس اور سیاسی کارکنوں میں طاقت کا مظاہرہ ہونے جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کارکنوں کی بہت بڑی تعداد کی توقع کے باعث اسلام آباد پولیس کے افسران موجودہ 11 ہزار اہلکاروں کی نفری کو حالات کنٹرول کرنے اور بڑے ہجوم کی جانب سے احتجاج کے دوران جھڑپوں کو روکنے کے لیے ناکافی قرار دیتے ہیں۔
چونکہ پی ٹی آئی کے دھرنے میں ہزاروں افراد کی آمد کی توقع ہے، پولیس فورس نے اضافی 25 ہزار اہلکاروں کی تعیناتی کی درخواست کی ہے، اس حوالے سے سمری وزارت داخلہ کو ارسال کی جاچکی ہے۔
اگر اس کی منظوری ملی تو 2 نومبر کو پولیس 36 ہزار اہلکاروں کو تعینات کرنے کے قابل ہوگی جس کو فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کی سپورٹ بھی حاصل ہوگی، اضافی نفری کے لیے پنجاب، سندھ اور آزاد کشمیر سے بھی درخواستیں کی گئی ہیں۔

بڑے مظاہرے کی تیاریاں
میڈیا سے کئی انٹرویوز کے دوران پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ انہیں 2 نومبر کو کم از کم 10 لاکھ افراد کی آمد کی توقع ہے، ایسا نظر بھی آتا ہے کہ پی ٹی آئی کا ایک دھرنا برداشت کرنے والی حکومت ان دعوؤں کو غیرسنجیدہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں تعینات پولیس افسران کے مطابق دارالحکومت کی پولیس نے اہلکاروں کو اضافی انسداد فسادات کی تربیت دلائی ہے، جس میں پولیس ٹریننگ اسکول کے اندر فسادات کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈھالوں، ڈنڈوں اور غیر مہلک ہتھیاروں کا استعمال سکھانے پر توجہ دی گئی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی پی ٹی آئی کے اہم رہنماﺅں اور پارٹی کے جانثار کارکنوں کی گرفتاری کے منصوبے پر بھی غور شروع کردیا ہے۔
پی ٹی آئی ورکرز کی نقل و حمل میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے سیکڑوں کنٹینرز اسلام آباد تک پہنچنے والے تمام راستوں پر لگائے جائیں گے، جس کا مقصد دھرنے کے شرکاءکی رفتار کو سست کرنا اور ان افراد کے ارادوں کو کمزور کرنا ہے جو مجوزہ دھرنے میں شریک ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔
ایک اور عہدیدار نے بتایا ' پولیس کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کو دارالحکومت بند کرنے سے روکنے کے لیے بڑی تعداد میں شپنگ کنٹینرز اور بھاری مشینری کی ضرورت ہوگی'۔
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کو شاہراؤں کو بلاک کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی روکاوٹیں یا کنٹینر نہ رکھنے کے احکامات دیئے ہیں۔

کس قیمت پر؟
اتنی بڑی تعداد میں سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی اور پی ٹی آئی کے منصوبوں کی روک تھام کے لیے دیگر اقدامات پر اخراجات کے حوالے سے بھی اسلام آباد پولیس نے وزارت خزانہ کو 46 کروڑ 82 لاکھ 40 ہزار روپے جاری کرنے کی سمری ارسال کی ہے۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ محکمے کے تخمینے کے مطابق 9 کروڑ 30 لاکھ روپے کھانے کے لیے درکار ہوں گے، ایک کروڑ 85 لاکھ روپے گاڑیوں کے ایندھن، 17 لاکھ روپے رہائش، 10 لاکھ روپے اسٹیشنری اور کاغذ، 6 کروڑ 42 لاکھ روپے گاڑیوں اور بھاری مشینری جبکہ 27 کروڑ 33 لاکھ روپے ملین روپے دیگر اخراجات کے لیے درکار ہوں گے۔
اس سے ہٹ کر بھی آنسو گیس کے گولوں، ربڑ کی گولیوں، ڈنڈوں اور دیگر فسادات کنٹرول کرنے والے آلات خریدنے کے لیے بھی فنڈز کی درخواست کی گئی ہے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی قیادت اور حامی بھی کچھ کر دکھانے کے لیے پرعزم ہیں، اسی لیے پارٹی نے دھرنے کے حوالے سے 2 منصوبوں کو تیار کیا ہے۔
زیرو پوائنٹ پر مرکزی دھرنے تک پہنچنے کے لیے پی ٹی آئی ورکرز اسلام آباد میں متعدد راستوں سے داخل ہوں گے اور ان تمام راستوں میں انہیں رکاوٹوں اور سیکیورٹی فورسز کا سامنا ہونے کی توقع ہے۔
پی ٹی آئی کا منصوبہ ہے کہ وہ خیبر پختونخوا سے ورکرز کو جی ٹی روڈ پر واقع علاقے ترنول تک لائے گی اور پھر وہ گولڑہ موڑ تک مارچ کرکے اسلام آباد تک جانے والی کشمیر ہائی وے کو بلاک کردے گی۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے کارکن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ روات پر اکھٹے ہوکر حال ہی میں تعمیر کردہ اسلام آباد ایکسپریس وے کو بند کردیں جو کہ اسلام آباد کو پنجاب سے ملاتا ہے۔
پی ٹی آئی کی کشمیر شاخ کو بارہ کہو اور اتل چوک میں دھرنے دے کر ٹریفک روکنے کا ٹاسک دیا گیا ہے جبکہ فیض آباد انٹرچینج کو پارٹی کے مقامی کارکن بلاک کریں گے۔
تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان نعیم الحق نے بتایا ' ان انتظامات کے ذریعے اسلام آباد کو ملک کے باقی حصے سے کاٹ دیا جائے گا، ہم سرکاری عمارات پر قبضہ نہیں کریں گے اور نہ ہی ہمارے ورکرز ایمبولینسوں ، پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی گاڑیوں کو روکیں گے'۔
انہوں نے وضاحت کی کہ کارکن اسلام آباد کے ان اہم راستوں پر قبضہ کریں گے اور عوامی طاقت سے اقتدار کی راہداریوں کا راستہ بند کردیں گے۔
پی ٹی آئی رہنماءنے کہا ' سرکاری ادارے جیسے ایف بی آر، ای سی پی، ایس ای سی پی، ایف آئی اے اور دیگر محکمے پانامہ پیپر کے لیکس میں بچوں کی آف شور کمپنیاں سامنے آنے کے باوجود وزیراعظم نواز شریف کے خلاف ایکشن لینے بری طرح ناکام ہوچکے ہیں، ہم وزیراعظم اور ان کی کرپشن کو تحفظ دینے والے اداروں سے نجات چاہتے ہیں'۔
پی ٹی آئی نے پلان بی بھی تیار کررکھا ہے جو کہ اس وقت بروئے کار لایا جائے گا جب حکومت طاقت کا استعمال کرے گی۔
اگر پولیس نے پی ٹی آئی کارکنوں کو گرفتار کیا تو دیگر کارکن ان پولیس تھانوں کے باہر دھرنے دیں گے جہاں حراست میں لیے جانے والے افراد کو رکھا جائے گا۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے انتظامیہ کو براہ راست انتباہ جاری کیا ' ہم ایک پی ٹی آئی ورکر کی گرفتار پر 200 کارکنوں کو پولیس اسٹیشن بھیجیں گے، پنجاب حکومت کو ہمارے کارکنوں کی گرفتاری سے گریز کرنا چاہئے'۔
اب کوئی بھی فریق آنکھیں بند کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ کافی کچھ داﺅ پر لگا ہوا ہے۔
