Dawnnews Television Logo
—ہیڈر: اے آئی

ہائیکورٹ ججز کا خط: ’ذمہ داران کو عوام کے سامنے لایا جانا چاہیے‘

عدالتی معاملات میں مداخلت، انصاف، آزادی اور جمہوریت کی موت ہے، اس حوالے سے تحقیقات ہونی چاہئیں اور ذمہ داران کو عوام کے سامنے لایا جانا چاہیے۔
اپ ڈیٹ 02 اپريل 2024 12:15pm

پاکستان اور بے یقینی لفظ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔

اب سیکیورٹی اداروں کی جانب سے مبینہ مداخلت اور ہیر پھیر کے الزامات کو ہی لے لیجیے جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے جاری کیے گئے حالیہ خط میں سامنے آئی۔ ان میں سے کچھ بھی حیران کن نہیں تھا کیونکہ ہم سب جانتے ہیں ایسا ہوتا آیا ہے اور ہم اسے عدلیہ، بیوروکریسی، پارلیمنٹ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں، میڈیا اور احتساب کے اداروں میں ایسا ہوتے دیکھتے رہتے ہیں۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بعض دفعہ تو استعمال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی کیونکہ ادارے اور مخصوص گروہ خود استعمال ہونے کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح اسکول کے چھوٹے بچے اُچھل اُچھل کر ہوا میں ہاتھ بلند کرتے ہیں تاکہ اسکول ٹیچر کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا سکیں۔

اس کے باوجود معاملے کا اس طرح کُھل کر سامنے آنا دلچسپ ہے جس طرح سینیٹ کے پولنگ بوتھوں میں جاسوس کیمرے نصب کیے گئے تھے (اگر یاد ہو تو ایسا 2021ء میں ہوا تھا) جبکہ اس خط کے بعد سامنے آنے والا ردعمل اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔

حمایتی اور مخالفین

سب سے پہلے تو وہ لوگ ہیں جو سچ پر یقین رکھنے والے ہیں اور دیکھا جائے تو وہ حقیقی طور پر چاہتے ہیں کہ ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے ادارے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کریں۔

اور پھر اپوزیشن ہے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کے سپورٹرز جوکہ آج کل نشانے پر ہیں، نے اس ’چارج شیٹ‘ کا خیرمقدم کیا ہے کیونکہ ایک طرح سے ان کے اس مؤقف کی توثیق ہوئی کہ ان کی جماعت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یقینی طور پر وہ انصاف اور ججز کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور ممکنہ طور پر معاملے کو سڑکوں پر لے جائیں گے اور آوازیں بلند کریں گے جس کی موجودہ اپوزیشن سے توقع کی جاسکتی ہے۔

اس طرح کی مداخلت، انصاف، آزادی اور جمہوریت کی موت ہے جس کے لیے وہ لڑ رہے ہیں۔ اس حوالے سے تحقیقات ہونی چاہئیں اور ذمہ داران کو عوام کے سامنے لایا جانا چاہیے۔

مختصراً ذکر کرتے چلیں کہ یہ خط جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس سے شروع ہوتا ہے جنہیں 2018ء میں سپریم جوڈیشل کونسل نے برطرف کردیا تھا اور حال ہی میں اس فیصلے کو ’کالعدم‘ قرار دیا گیا اور خط کے مطابق، ’(جسٹس شوکت عزیز صدیقی) کی جانب سے عوامی سطح پر میجر جنرل فیض حمید کی سربراہی میں آئی ایس آئی (نام میں نے شامل کیا ہے) پر الزام لگانے کے بعد کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بینچز کی تشکیل کا تعین اور احتساب عدالت اسلام آباد کی کارروائیوں میں مداخلت کررہے تھے‘۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز کی جانب سے عائد الزامات کی تحقیقات کے مطالبے کو نظرانداز کردیا گیا۔

بات اب حکمران جماعتوں پر آجاتی ہے جوکہ حیران ہیں، جی ہاں وہ حیران ہیں کہ اس طرح کیسے ہوسکتا ہے اور وہ اس بےمثال اور ناقابلِ برداشت امر کی تہہ تک جانے کے لیے کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں اور اجلاس منعقد کررہے ہیں۔

وہ واضح طور پر تو نہیں کہہ رہے کہ یہ ان کے خلاف سازش ہے لیکن ان کے سپورٹرز مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر کہہ رہے ہیں کہ ’دیکھو کون سی جماعت ججز کی حمایت کررہی ہے اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس کی ایما پر یہ خط لکھا گیا‘، ’یہ خط اب اس وقت ہی کیوں جاری ہوا کہ جب نئی حکومت اقتدار سنبھال رہی ہے؟‘، ’مبینہ ویڈیوز صرف دیگر ججز کو ہی کیوں دکھائی گئیں اور ہم کیسے مان لیں کہ یہ اے آئی کی مدد سے نہیں بنائی گئیں؟‘، ’وہ اس بارے میں بھی بات کیوں نہیں کرتے کہ عدلیہ ایگزیکٹو معاملات میں کتنی مداخلت کرتی ہے؟‘، ’جب ٹائمز نیو رومن اچھا فونٹ ہے تو خط میں ہیلویٹیکا فونٹ کیوں استعمال کیا گیا؟‘

ٹھیک ہے میں مانتا ہوں آخری سوال میرے ذہن کی پیداوار ہے لیکن الفاظ میں ردوبدل کرکے باقی تمام سوالات بالکل درست ہیں۔

کھیل وہی، کردار تبدیل

سب سے دلچسپ یہ ہے کہ 2019ء میں صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی۔ اسی سال جولائی میں مریم نواز نے پریس کانفرنس منعقد کی جس میں انہوں نے احتساب عدالت کے جج جسٹس محمد ارشد ملک (جو اب انتقال کرچکے ہیں) کی ویڈیو چلائی۔ یہ وہی جج ہیں جنہوں نے ان کے والد میاں نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں 7 سال کی قید سنائی تھی۔ اس ویڈیو میں بظاہر جسٹس ارشد ملک نے مسلم لیگ (ن) کے ایک وفادار کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ دینے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا اور انہیں بلیک میل’ کیا گیا۔

بعدازاں جسٹس ارشد ملک کو برطرف کردیا گیا اور مسلم لیگ (ن) نے ثبوت کے طور پر اس ویڈیو کو استعمال کیا اور کہا کہ ان کے قائد کے خلاف مقدمات میں مداخلت کی گئی۔ اس ویڈیو نے ان کے اس مؤقف کی توثیق کی کہ ایک سیاسی جماعت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی اور ان کے سپورٹرز نے اس وقت ویڈیو کے مواد اور مضمرات پر توجہ نہیں دی بلکہ اس بات پر زور دیا کہ یہ ویڈیو کیسے ریکارڈ اور جاری ہوئی۔ ’یہ غیرقانونی ہے!‘، ’یہ بلیک میلنگ ہے‘، ’یہ ویڈیو فور-کے ریزولیوشن میں کیوں نہیں؟‘ میں ایک بار پھر اعتراف کرتا ہوں کہ آخری والا جملہ میں نے خود شامل کیا ہے لیکن باقی سب درست ہیں۔

انصاف کی بات بھی وہی ہے جیسے حسن کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ مظلوم صحافی اسد طور کی ہی مثال لے لیں۔ وہ ہیرو ہیں اور جرات مندانہ صحافت کی مثال ہیں جنہیں ان لوگوں کی جانب سے مارا پیٹا گیا جو انہیں پسند نہیں کرتے اور ان کے مفادات کے مخالفت کرنے پر انہیں مجرم اور جھوٹ کا پرچار کرنے والے کسی فرد کی طرح جیل میں ڈال دیا گیا۔ انہیں ان لوگوں کے خلاف جانے کے لیے جیل بھیج دیا گیا جو آپ کو پسند ہیں اور جن سے آپ کے مفادات وابستہ ہیں۔

اگر یہ اتنا افسوسناک اور بددیانت نہ ہوتا تو یہ معاملہ دلچسپ ضرور ہوتا لیکن شاید یہ ایک طرح سے ہمیں پاکستان کی سیاسی تقسیم میں ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ ہم ایک دوسرے کا ہی آئینہ ہیں۔ آخر کار یہ ہمارا ہی عکس ہے جس کے سامنے ہم کھڑے نہیں ہوسکتے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔