یا پھر دیگر لوگوں کے ساتھ ان کی تکلیف یا غم بانٹنے میں ہماری کمی کی وجہ ہمارا تقدیر پر یقین پرست رویہ ہے؟ اگر ہم یہ مانتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں کہ سب کچھ پہلے سے لکھا ہوا ہے پھر تو عبادتگزاروں کی موت بھی ان کے کرموں کا حصہ ہے۔ لہٰذا ان حملہ آوروں کے حملوں کی کیونکر مذمت کی جائے جو وہی کچھ کر رہے ہیں جس میں خدا کی مرضی شامل ہے؟
یہ ایک بہت ہی پریشان کن سوچ ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلم معاشروں میں حالات و معاملات ساکن رہتے ہیں۔ ہندوستان کے اندر بھی اچھوت (یا دلت) اس لیے نچلے سماجی درجے تک محدود رہتے ہیں کیونکہ لوگوں کے نزدیک ہندو عقائد کے مطابق ان کا مقدر ہی کچھ ایسا لکھا گیا ہے۔ کیتھولک چرچ کے زیر اختیار عیسائیوں کو ریفارمیشن اور اس کے بعد انلائٹمنٹ جیسی تحاریک کی صورت میں آزادی ملنے سے قبل اس قسم کی تقدیرپرستی نے انہیں کیتھولک چرچ کے غلبے میں رکھا۔
مغرب میں تقدیر پرستی کو مسترد کرنے اور انفرادیت پسندی کے ابھار سے ترقی کی راہ ہموار ہوئی۔ وہاں عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ ہم اپنے کاموں سے خود اپنی تقدیر خود لکھ سکتے ہیں، اس کے لیے ہمیں الہامی مداخلت کا انتظار نہیں کرنا۔ نہ ہی ہماری قسمت ستارے لکھتے ہیں، ہمارا مستقبل وہی ہے جو ہم نے خود تخلیق کیا ہے۔
زیادہ تر ترقی پذیر دنیا میں ہم اپنی غربت کا ذمہ دار یورپی کلونیلسٹون کو ٹھہراتے ہیں۔ مگر کلونیل دور کا خاتمہ ہوئے 70 برس بیت گئے۔ اس طویل عرصے کے دوران اپنے سابقہ حکمرانوں کے چھوڑے گئے قوانین کو تبدیل کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے ہم نے کیا کیا؟ ایک وقت پر آکر ہم سوچنے لگتے ہیں کہ ہماری پسماندگی ہماری قسمت کا ہی حصہ ہے۔ ضمیر فروش اور نااہل حکمران اس تقدیر پرستی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔
چین اپنی کئی ایجادات کے باوجود بھی صدیوں تک کمزور اور عالمی منظر نامے سے اوجھل رہا۔ مثلاً، بارود چین نے ایجاد کیا تھا مگر انہوں نے اس کا استعمال بندوق اور توپ بنانے کے لیے نہیں کیا۔ یہ کام مغرب نے کیا اور یوں اس کے لیے دنیا پر قابض ہونا آسان ہوگیا۔ چینیوں کے ایجاد کردہ قطب نما آلے (کمپاس) کی ہی مدد سے مغرب نے دنیا کا بڑا حصہ دریافت اور فتح کیا۔ یہ دراصل انفرادیت پسندی کی تقدیرپرستی پر فتوحات تھیں۔ جب تک ہم اپنی تقدیر خود لکھنے کا فیصلہ نہیں کرلیتے تب تک ہم جہاں ہیں وہیں رہیں گے۔
یہ مضمون 13 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔