گل مینہ میں اس انتہائی اہم موضوع کو اس کی جزئیات کے ساتھ تحریر میں لایا گیا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں جس آگ اور خون کے سلسلے کا راج رہا ہے اور اس کے اثرات نے جس بے رحمی کے ساتھ لوگوں کی زندگیاں تباہ کی ہیں، یہ ناول اسی فضا، اس کی سفاکی اور بے حسی کی مختلف پرتیں کھولتا ہے۔ تاریخ، حال، وقت اور مقام کے بدلتے موسموں میں بھی اس سفاکی کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔
اگر ناولوں کے موضوعات ہمارے ملک کی کہانی کو کسی حد تک آشکار کرتے ہیں، تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو ناول ’آگ کا دریا' اور 'اداس نسلیں' سے ہوتا ہوا ایک ایسی فضا میں آن پہنچا ہے جہاں ہواوٴں میں لہو کی بُو رچ بس گئی ہے اور یہی ہماری کہانی ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے چلی آرہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کہانی کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتی ہے، لکھاری بس اسے دریافت کرتا ہے۔ یہ کہانی بھی یہیں ہر سو موجود تھی اور لکھنے والے نے اسے دریافت کرلیا۔
ہم بہت سی متوازی زندگیوں میں جی رہے ہوتے ہیں اور صرف اسی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں جس کی تفہیم ہمارے لیے سہل ہوتی ہے۔ مثلاً ہر دوسرے اشارے پر ہم بھیک مانگتے ہوئے بچوں کو دیکھتے ہیں اور کچھ عرصے بعد ہم اس سارے منظر کے اس قدر عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ یہ پورا ماحول ہمارے لیے کسی تجسس یا دلچسپی کا باعث نہیں رہتا۔
اسی طرح خودکش بمبار بچے ایک عرصے تک ہماری گلیوں میں شعلے اگلتے رہے اور ہم اپنے مخصوص بیانیے کے ساتھ ان کا ذکر ایسے کرتے رہے جیسے یہ کسی اور دنیا کا حصہ ہوں۔ واقعی یہ کسی اور دنیا کا ہی حصہ ہیں اور اگر ایسے کردار اور موضوعات کسی ناول کا حصہ بنیں، تو یہ کوئی آسان انتخاب نہیں ہے۔
ناول نہ ہی تاریخ ہے، نہ ہی سماجیات اور نہ ہی سائنس، بلکہ یہ سب اس مشاہدے اور تصور سازی کے لیے مواد فراہم کرتے ہیں جو کسی خاص ماحول میں انسانی وجود کے مخفی گوشوں کو آشکار کرتا ہے۔ یہاں تاریخ خود ایک کردار بن سکتی ہے۔ ایسے تمام مواد کے ماخذ کھنگالنا اور انہیں انسانی قالب میں یوں ڈھالنا کہ وہ خود ایک آزادانہ وجود رکھنے لگیں، ایک کٹھن مرحلہ ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی اور خود کش بمباروں کا ذکر کچھ دوسرے ناولوں میں بھی جزوی طور پر کیا گیا ہے، مگر اس ناول کی خصوصیت یہ ہے جیسے پوری صورتحال کو اس کے بلیک ہول میں بیٹھ کر سنایا گیا ہو۔
اس میں بہت سے ایسے موضوعات ہیں، ایسے معاملات ہیں جن پر یہاں بہت کھل کر بات نہیں ہوسکتی لیکن ان کو بھی اس کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس میں عقیدے کے مسائل ہیں، یعنی کس طرح لوگوں کے عقیدے کو استعمال کیا جاتا رہا ہے اور کس طرح ایک وسیع پیمانے پر تباہی لانے کے لیے اس کو برتا گیا ہے اور قریب اور دُور کی جو قوتیں اس میں ملوث رہی ہیں، ناول میں اس جانب بھی بہت محتاط اشارے کیے گئے ہیں۔
ناول میں شمال مغربی سرحد اور اس سے ملحقہ افغانستان میں بسنے والوں کی زندگی کو اس کی جزئیات سمیت بیان کیا گیا ہے اور صدیوں سے چلی آرہی روایات اور قوت کے مختلف مراکز نے یہاں کے بسنے والوں کی نفسیات اور معاشرتی بنت پر جو اثر ڈالا، اس کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
ایک پیچیدہ صورتحال کو بیان کرنے کے لیے کہانی میں بھی ایک منفرد تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔
ناول میں کہانی کے 4 مرکزی دھارے ہیں۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے بپا پاکستان میں مسلح شورش، 20ویں صدی کے آغاز میں انگریز اور مقامی لوگوں کے باہمی پیچیدہ تعلقات، احمد شاہ ابدالی کی مہمات اور حسن بن صباح کی فرضی جنت اور خود کش حملوں کی روایت کے تال میل سے کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کے انجام تک لایا گیا ہے۔