Dawn News Television

اپ ڈیٹ 02 جولائ 2019 04:04pm

ایران کے بعد اگلا نمبر کس کا ہوگا؟

لکھاری اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر ہیں.

گزشتہ چند ہفتوں سے فارس/عرب خلیج میں طبلِ جنگ گونج رہا ہے۔ تیل کے ٹینکروں کو پُراسرار انداز میں نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب امریکی نگران ڈرون ہوا میں تباہ کرچکے ہیں۔ سعودی تنصیبات اور بصرہ کے مختلف مقامات پر میزائل حملے ہوئے ہیں۔ امریکا اپنا ایک بحری بیڑا اور ڈھائی ہزار اضافی فوجیوں کو خلیج روانہ کرچکا ہے، اقتصادی دباؤ کو مزید بڑھا دیا گیا ہے اور ایران کے خلاف فوجی آپریشن کا قانونی جواز پیدا کیا جاچکا ہے۔

بظاہر طور پر ایران اور امریکا کے درمیان ناخوشگوار اور بے رحمانہ ممکنہ جنگ کی طرف بڑھتی صورتحال سے خطے اور دنیا پر مرتب ہونے والے ممکنہ تباہ کن نتائج اب دنیا کو زیادہ دُور دکھائی نہیں دیتے۔

ابتدائی طور پر تو تنازع ’محدود‘ ہوسکتا ہے مگر اس میں تیزی سے شدت بھی آسکتی ہے، یعنی، ہرمز میں تیل ٹینکروں پر مزید حملے ہوسکتے ہیں، پاسدارانِ انقلاب کے بیڑوں اور دیگر بحری بیڑوں کے خلاف ’جوابی حملہ‘ ہوسکتا ہے، ایرانی اور شیعہ ملیشیا کی جانب سے عراق، شام، افغانستان اور دیگر جگہوں پر موجود امریکی تنصیبات پر حملوں کے ساتھ امریکی اور جی سی اہداف پر ایران میزائل حملے کرسکتا ہے، اور حزب اللہ اور دیگر ایران کے اتحادی گروہوں کی جانب سے اسرائیل اور اس کے زیرِ قبضہ زمینوں پر حملے کیے جاسکتے ہیں۔ ان متوقع حملوں سے بچنے کے لیے امریکا اور ممکنہ طور پر اسرائیل ایران کی میزائل اور بحری صلاحیتوں کو ختم کرنے کے لیے پیش بند فضائی حملے بھی کرسکتا ہے۔

تاہم، اگر یہ حملے کامیاب ہوجاتے ہیں تو بھی ایران آسانی سے گھٹنے والا نہیں ہے (ایران اور عراق کے درمیان جنگ کے دوران ان کی دوبارہ قوت اکھٹا کرنے کی صلاحیت کو مدِنظر رکھ کر دیکھیں تو)۔ بیرونی حملے کے نتیجے میں ایران میں ایسی کوئی مقبول تحریک نہیں جو حکومت کو گرا دے (ہاں البتہ صدر روحانی اور ’متعدل‘ افراد کی جگہ سخت گیر افراد اور پاسدارانِ انقلاب ضرور لے سکتے ہیں۔) اسے ہٹانے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ایران پر بھرپور حملہ کرنا پڑجائے گا۔ مگر عراق اور افغانستان کے تجربے کے پیش نظر نہ واشنگٹن اور نہ ہی خطے کی کوئی طاقت ایسا اقدام اٹھانے کا دل گردہ رکھتی ہے۔۔

روس اور چین، جنہیں امریکا نے اپنا ’حریف’ قرار دیا ہوا ہے، حتیٰ کہ اگر یہ دونوں ملک تہران کا ساتھ دیتے ہوئے بلواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت نہیں کرتے تو ایران کے ساتھ جنگ کے حتمی نتائج کچھ یہ ہوں گے:

یوں وہ تمام قوتیں جو اس تنازع کا حصہ بنیں گی بلکہ وہ قوتیں بھی جو حصہ نہیں بنیں گے، ان سب کے لیے اس تنازع میں ہر طرح سے ہار کے سوا اور کچھ نہیں رکھا ہے۔ جن بے رحمانہ کارروائیوں کی وجہ سے خطہ جنگ کی نہج تک آ پہنچا ہے، انہیں انجام دینے والے خطاکاروں سے قطع نظر عام فہم اور خود سلامتی کا فہم یہی بتاتا ہے کہ اعلیٰ فریقین کھڑی چٹان دیکھ کر لوٹ جایا کرتے ہیں۔

تنازع کی شدت میں کمی لانے کے لیے کسی قسم کے اقدام سے قبل تنازع کی وجہ بننے والے مسائل کو حل اور تمام فریقین کے خدشات کو دُور کرنا ہوگا۔

ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاؤ، علاقائی تنازعات، اقتصادی پابندیاں، ٹینکر اور میزائل حملے جیسے موجودہ کشیدگی کے تمام عناصر کو اب تک جتنا نمٹایا گیا ہے بھی تو بہت ہی بکھرے انداز میں۔ یہ تمام عناصر ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور انہیں جامع اور ایک ہی وقت میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔

مئی اور جون میں ہونے والے ٹینکر حملوں کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے مطالبے کو مان کر جنگ سے دُوری کی جانب پہلا قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔ اور تمام فریقین کو اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ تحقیقات کے دوران کوئی بھی طاقت کا استعمال نہیں کرے گا۔

ساتھ ہی ساتھ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کو یہ مطالبات کرنے چاہئیں:

  • پہلا، سعودی اور امارتی اہداف پر حوثی میزائل حملے روکے جائیں۔
  • دوسرا، یمن میں عام جنگ بندی کا نفاذ کیا جائے،
  • تیسرا، یمنی عوام کی جانب انسانی فلاح کی خاطر فراہم کی جانے والی امداد تک رسائی دینے کے تمام دروازے کھول دیے جائیں۔
  • چوتھا، تنازع کا سیاسی حل نکالنے کے لیے سمٹ کی سطح کے مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔

سب سے ضروری یہ ہے کہ یورپی یونین، ایرانی جوہری معاہدے میں شامل تین یورپی فریقین کے ساتھ ساتھ روس اور چین، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور جنرل اسمبلی کی مدد کے ساتھ ایک اعلیٰ سطح کا سفارتی اقدام اٹھائیں۔ تاکہ:

1 تہران کو قائل کیا جاسکے کہ وہ معاہدے میں شامل یورینیم افزودگی کی سطحوں اور اسٹاکس سمیت دیگر حدود کو عبور نہ کرے۔

2: ایک بین الاقوامی میکینزم بنایا جائے (انسٹیکس Instex کے ساتھ جوڑتے ہوئے) تاکہ ایران معاہدے میں موجود شرائط کے مطابق تجارت کرسکے۔

3: امریکا پر زور دیا جائے کہ کم از کم ایران کی جانب سے اعتماد سازی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے جواب میں ایک قدم بڑھاتے ہوئے وہ ایران پر سے اپنی نافذ کردہ یکطرفہ پابندیاں اٹھادے۔

4: ایران کو لاحق شام، لبنان، عراق، یمن اور افغانستان سمیت پورے خطے پر امریکی پالیسی کے حوالے سے وسیع خدشات پر گفتگو اور اس کے حل کے لیے ایران کے معاہدے کا تحفظ کیا جائے۔

5: ایک ایسا میکینزم بنایا جائے جس کے تحت خطے میں میزائل اور اسلحہ سازی کو قابو کرنے سے متعلق بات چیت کی جاسکے۔

جاپانی وزیرِاعظم کے تہران کے حالیہ دورے کے موقعے پر آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے امریکا کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے اعلان کے باوجود بھی ایسا ممکن نہیں کہ ایران مذاکرات کے سارے دروازے بند رکھے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ جاوید ظریف کے حالیہ چند بیانات میں یہ تذکرہ ملتا ہے کہ وہ تمام مسائل پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ (انہوں نے مجھے ایک بار بتایا تھا کہ ایران نے 02ء-2001ء میں امریکا کو گرینڈ بارگین کی تجویز دی تھی، تاہم انہیں ستمبر 2002ء میں جارج ڈبلیو بش کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی صورت یہ جواب ملا تھا کہ ایران کو 'Axis of evil' میں شامل کردیا گیا تھا۔)

ٹرمپ انتظامیہ ایران کے حوالے سے اپنی پالیسی پر اندرونی اختلافات کا شکار نظر آتی ہے۔ ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ سخت گیر افراد، جیسے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن اور سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو، ٹرمپ کو ایران جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ تاہم ممکن ہے کہ ٹرمپ، شعوری یا لاشعوری طور پر، انہیں اپنی ‘آرٹ آف دی ڈیل‘ مذاکراتی حکمت عملی کے حصے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا سب سے اہم مقصد 2020ء میں ہونے والے انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کرنا ہے۔ ایران کے ساتھ معاملات طے کرنے میں 'کامیابی' سے ان کے انتخابی امکانات روشن ہوجائیں گے۔

مگر غیر یقینی نتائج کی وجہ بننے والی جنگ کی طرف جانا ایک رسک سے بھرپور حکمت عملی ہے۔ ڈرون مار گرانے پر ان کا ردِعمل کافی حد تک نپا تلا رہا ہے۔ ٹرمپ کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی ہی ایک ترجیحی آپشن ہوگا۔

اگرچہ ایران ہمیشہ سہل پڑوسی ثابت نہیں ہوتا، لیکن پاکستان کے پاس ایران کے خلاف جنگ روکنے کی کئی وجوہات ہیں۔ گزشتہ 40 برسوں کے دوران کئی 'آزاد' مسلم ریاستوں کو تدریجی طور پر حملے کا نشانہ بنایا جاچکا ہے، مثلاً عراق، شام، لیبیا، سوڈان۔ اگر ایران فوجی اور اقتصادی لحاظ سے تباہ و برباد کردیا جاتا ہے تو پھر اگلا نمبر کس کا ہوگا؟


یہ مضمون 23 جون 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

Read Comments