لیکن مودی اقتدار کے نشے میں چُور ہے۔ وہ اور ان کے حلقے آر ایس ایس (امت شاہ، اجیت ڈوول و دیگر) کو اس بات پر یقین ہوچلا ہے کہ کشمیریوں کا استحصال اور پاکستان کی جانب جارحیت ہی بھارت کے اندر کامیابی کا نسخہ ہے۔ ممکن ہے کہ یہ لوگ اشتعال انگیزی سے باز آنے اور مذاکرات کی میز پر آنے کے مطالبات کو ٹھکرا دیں گے۔
جس کے بعد عالمی برادری کی توجہ شاید ’آسان‘ راستہ لینے کی جانب یعنی پاکستان کو کشمیری جدوجہدِ آزادی میں مدد سے باز رکھنے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی مسلط کردہ ’حقیقتوں‘ کو تسلیم کرنے پر دباؤ ڈالنے پر مبذول ہوجائے۔
تاہم، پاکستان کی گزشتہ حکومتوں کے برعکس موجودہ پاکستانی قیادت اس قسم کے دباؤ کے آگے شکست نہیں مانے گی۔
اسلام آباد میں اس خیال کو تقویت مل رہی ہے کہ بی جے پی کی جابرانہ حکمت عملی کا الٹا انہیں ہی نقصان اٹھانا ہوگا کیونکہ مقامی کشمیریوں کی بغاوت میں ایک بار پھر جان آچکی ہے کہ جسے زیر کرنا بہت ہی کٹھن ثابت ہوگا۔
اگر بھارت دھمکیوں تک محدود رہتا ہے یا پھر طاقت کا استعمال کرتا ہے تو پاکستان میں یہ تازہ دم اعتماد موجود ہے کہ یہ دہلی کو، اگر ضرورت پڑی تو قابلِ اعتماد ایٹمی مزاحمت سے بھی، بے اثر بنا سکتا ہے۔
بھارت کا ایک عرصے سے جاری کشمیر پر قبضہ ممکن ہے کہ جلد افغان جنگ جیسی دلدل میں بدل جائے گا، جو بھارت کی مسلح افواج کا اعتماد توڑ کر رکھ دے گا، سیاسی تقسیم جنم دے گی اور معیشت کو ڈبو دے گی۔ ماضی کی کلونیل طاقتوں کی ہی طرح بھارت پُرعزم عوامی بغاوت کے خلاف اپنی کمزور ہوتی جنگ بالآخر ہار جائے گا۔
اس شکست میں 10 سے 20 برس لگ سکتے ہیں لیکن مشہور ہندو کش کے پہاڑوں جیسے سخت عوام بالآخر ہندو بھارت کے سامراجی سپنوں کو نیست و نابوت کردیں گے۔
یہ مضمون 18 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع یوا۔