لیکن وقت کبھی رکتا نہیں، نئے زمانے کی جانب بڑھتا چلا جاتا ہے اور جلد ہی ہم گوشت گائے سے حاصل کرنے یا پھر سبزیوں میں اس کا متبادل ڈھونڈنے کے بجائے اسے لیب میں پیدا ہوتا دیکھیں گے۔ جدید سائنسی طریقہ کار کی مدد سے تیار کیے جانے والا گوشت 2013ء کے اگست میں پہلی بار اس وقت دیکھنے اور سننے کو ملا جب ماسٹریکٹ یونیورسٹی کے ڈاکٹر مارک پوسٹ نے دنیا میں پہلی بار لیب کے اندر تیار کیے جانے والے گوشت کو پریس کانفرنس کے دوران پکایا اور کھایا۔
اب تو خیر سے اس پراڈکٹ کو مارکیٹ میں لانے کی دوڑ کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ کاروبار کے میدان میں قدم رکھنے والی ایک ڈچ کمپنی ’میٹ ایبل‘ لیب میں سور کے گوشت کی تیاری کے لیے کئی لاکھ ڈالر خرچ کرچکی ہے جبکہ اسرائیلی کمپنی ’فیوچر میٹ ٹیکنالوجیز‘ جلد ہی اپنا پہلا پلانٹ قائم کرنے والی ہے۔
اگر آپ کے خیال میں مذکورہ باتیں کافی دلچسپ ہیں تو ذرا امریکی کمپنی ’ایئر پروٹین’ کے بارے میں بھی سن لیجیے جو 60 کی دہائی میں ناسا کی جانب سے کیے گئے تحقیقی کام کی بنیاد پر ’ہوا‘ سے، جی ہاں آپ بالکل ٹھیک سمجھے، ہوا سے گوشت بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یہ مضمون 9 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔