لاہور کی مصروف ترین شاہراہ ڈیوس روڈ پر ٹریفک جام میں پھنسے 68 سالہ سفید شلوار قمیض میں ملبوث منہ پر سفید داڑھی سجائے رکشہ ڈرائیور گل محمد رکشہ کو دھکیلے جا رہے تھے۔ ٹریفک جام کی وجہ سے میں نے بھی گاڑی کے گیئر کو نیوٹرل کیا اور محمد رفیع کے غمگین گانوں میں غم ہو گیا۔

جب میں نے بابا جی کو رکشہ دھکیلتے دیکھا تو انسانیت کا ثبوت دیتے ہوئے بابا جی سے پوچھا کہ کیا گیس ختم ہوگئی ہے تو بابا جی بولے، بیٹا گیس تو اب بس آلو والی روٹیاں کھانے کے بعد ہوتی ہے.

میں نے کہا کہ بابا میں رکشہ کی گیس کی بات کر رہا ہوں۔ تو بابا جی بولے۔ گیس تو پورے ملک سے ختم ہوگئی ہے۔ اب تو رکشہ مہنگے داموں ملنے والے پٹرول پر رینگتا ہے۔ پھر میں نے پوچھا تو کیا پٹرول ختم ہوگیا ہے تو بولے، نہیں بیٹا، پٹرول تو ہے۔ مگر ٹریفک جام میں پھنسنے میں ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ اتنی بچت نہیں ہوتی، جتنا پٹرول لگ جاتا ہے۔ اس لئے پٹرول کی بچت کرنے کی خاطر اپنے بوڑھے بازؤں پر ظلم کر رہا ہوں۔

ٹریفک جام کی وجہ سے سڑک بلکل بند تھی سو وقت گزارنے کے لئے یہی بہتر سمجھا کہ بابا جی سے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ سوال کیا کہ بابا۔ یہ بتاؤ، ووٹ کس کو دیا تھا؟

بابا جی: بیٹا ووٹ تو اس کو دیا تھا۔ جو 'تبدیلی' کے نعرے مارتا تھا۔ ہمیں کیا پتا تھا کہ وہ تو طالبان کا آدمی نکلے گا۔

قریب ہی کھڑا ایک نوجوان اپنی موٹر سائیکل فٹ پاتھ سے دوسری طرف منتقل کرتے ہوئے بولا، بابا، وہ تو طالبان نے اس کا نام تجویز کیا تھا۔ عمران خان نے تو انکار کیا نا۔

آگے سے بابا جی بولے، چل کمبخت۔ تم جیسے نوجوانوں نے ہی ِاس کا دماغ خراب کیا ہے۔ ہم تو سمجھے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عمران خان ملک میں تبدیلی لائیگا۔ اس کو دھرنا دینے اور جھوٹے دعوے کرنے کے علاوہ کام ہی کوئی نہیں۔ جب دیکھو، یہی کہتا رہتا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ جہاں وہ جیتا، وہاں انتخابات منصفانہ اور جہاں وہ ہارا، وہاں دھاندلی، صدقے جاؤں میں اِس کی معصومیت کے۔

اتنے میں ٹریفک میں کھڑی چمکتی کالی گاڑی کی اگلی سیٹ پر بریندڈ دھوپ کا چشمہ پہنے بیٹھی آنٹی انگریزی میں بولیں؛

"ایکسکیوز می! بابا جی آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے آج ملک کا یہ حال ہے۔ خود تو جوانی میں کچھ کیا نہیں، اور اب اگر کوئی کچھ کرنا چاہتا ہے تو اس کو ووٹ دیکر پچھتا رہے ہیں۔ دینا تھا اپنے گنجے کو ووٹ، پہلے بھی پورا ملک لوٹ کر کھا گئے۔ ابھی بھی پیٹ نہیں بھرا تو دوبارہ ملک لوٹنے آئے ہیں۔ لوٹیں گے اور اپنے چہیتوں کے پاس سعودیہ چلیں جائیں گے۔

سڑک کی سائیڈ پر لگے بریانی کے ٹھیلے والے سے ماڈرن آنٹی کی بات سن کر رہا نہیں گیا اور وہ بھی کسی نیوز چینل کے مباحثے کی طرح اس ٹریفک جام مباحثہ میں کود پڑا اور بولا۔ میں نے تو ووٹ شیر کو ہی دیا تھا۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ جس شیر کو ووٹ دیا تھا، وہی شیر ووٹ دینے والوں کو کھا رہا ہے۔ اتنی مہنگائی ہوگئی ہے کہ اب لوگ ٹھیلے پر بریانی کا نام پڑھ کر ہی دور سے گزر جاتے ہیں۔ صرف اور صرف مہینے کے شروع کے دنوں میں کچھ زیادہ بِکری ہوتی ہے۔ آگے پیچھے تو بریانی محلے کے مولوّی صاحب یا قریبی ہمسایوں کا ہی نوالہ بنتی ہے۔

بریانی والی کی باتیں سن کر بابا جی بولے، خسمانو کھائے تیری بریانیِ۔ اے دسّو کہ اگے ہویا کی اے۔ ٹریفک کیوں بند اے۔ جس پر قریب کھڑی گاڑی میں لال ٹائی پہنے بیٹھے شخص نے جواب دیا کہ پریس کلب کے باہر مظاہرے کی وجہ سے ٹریفک بند ہے۔

یہ سن کر بریانی بیچنے والے نے کہا، ٹریفک تو پتہ نہیں کب کھلے گی، تب تک بریانی ہی کھا لو۔ حمزہ شہباز کی ہدایات کے بعد مرغی کا گوشت سستا ہوگیا ہے۔ لہزٰا بریانی کی پلیٹ اب صرف اسّی روپے میں بیچ رہا ہوں۔ شامی کباب اور رائتہ بھی لوگے تو صرف سو روپے میں۔ بابا جی، سو روپے میں تو اب ایک لٹر پٹرول بھی نہیں آتا۔ مگر میں آپ کو پوری بریانی کی پلیٹ دے رہا ہوں اور وہ بھی شامی کبابوں اور رائتہ کے ساتھ۔

بابا جی نے تو بریانی والے کی بات سنی ان سنی کردی مگر رکشے میں بیٹھی سواریوں نے بریانی والے سے کہا کہ بھائی بابا جی کھاتے ہیں یا نہیں، ہمیں دو پلیٹیں دے دو۔ مگر کبابوں اور رائتہ کے بغیر۔ کیونکہ ہمارے پاس بابا جی کے کرائے کے علاوہ صرف ڈیڑھ سو روپے ہیں۔ بریانی والا فورا بولا، تسی ڈیڈھ سو ای دے دینا، اے دسّو کہ بوٹی کیڑی لوگے، ٹنگ دی یا سینے دی؟

اتنے میں ٹریفک کے اندر کچھ ہل چل ہوئی اور جاتے جاتے بابا جی بولے، تو انہیں سوال کرنا پیاں ایں، تو کرنا کی ایں؟ جب میں نے کہا کہ میرا تعلق میڈیا سے !ہے تو باباجی فورا بولے ۔۔۔ سارا خانہ خراب کیتا تے توّاڈا اے

تبصرے (3) بند ہیں

Naila Raza Feb 14, 2014 04:42pm
I am a regular reader of dawn.com and also dawn urdu website. But one thing I want to mention is that your urdu website font is just unbearable. There are somr very good articles I wanted to read but after reading few lines I just change it due to its bad or worst font. There are other urdu websites which have a nice fonts that can read easily. I think if you guys pay attention on this issue your site will be more poplar and responsive. Thank you
Shanzay Feb 15, 2014 03:10am
I still like PTI but I must say this is a very balanced article.
Furqan Ahmed Feb 17, 2014 02:52pm
Kitni payment mili hay PML N ki taraf say yeah column publish krny ki.... lolz