• KHI: Partly Cloudy 27°C
  • LHR: Partly Cloudy 20.1°C
  • ISB: Rain 15.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 27°C
  • LHR: Partly Cloudy 20.1°C
  • ISB: Rain 15.2°C

دنیا سے الگ

شائع March 13, 2014

جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، اسپتال میں علیحدہ وارڈ اس لئے ہوتے ہیں کہ متعدی امراض کو پھیلنے سے روکا جائے- مریضوں کو ملاقاتیوں سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی، اور بہتر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسپتال کا اپنا ہوا کی نکاسی کا انتظام ہو تاکہ جراثیم نہ پھیل سکیں-

ملکوں کو بھی علیحدہ کیا جاسکتا ہے اگر ان کے بارے میں بین الاقوامی برادری کا تاثر یہ ہو کہ وہ تشدد، اور نفرت انگیز آئیڈیالوجی جیسے متعدی خیالات کو پھیلا سکتے ہیں- متعصب لوگ اور دہشت گرد ان ہولناک جراثیم کو دوسری سرزمینوں تک پھیلانے کا ذریعہ ہیں، چنانچہ اپنی حفاظت کی غرض سے دوسرے ممالک ان بیماریوں کے مرکز کو اپنے سے دور، تنہا کر دیتے ہیں-

دن بہ دن، کئی اسلامی ممالک، جنھیں اسلامی انتہا پسند ی کی افزائش کا مرکز سمجھا جارہا ہے، بلیک لسٹ کئے جارہے ہیں- ان ممالک کے شہریوں کے لئے کئی ایک غیر ممالک کا ویزا حاصل کرنا دشوار ہوتا جارہا ہے، نیز غیر ممالک کے شہریوں کو اکثر و بیشتر خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ ان علاقوں میں نہ جائیں-

جیسے جیسے دیواریں بلند ہوتی جارہی ہیں، ان دونوں دنیاؤں کے لوگوں کے لئے ایک دوسرے کو سمجھنا مشکل ہوتا جارہا ہے- میں ان لوگوں میں سے خاصا خوش قسمت رہا ہوں کہ مجھے سیر و سیاحت کرنے کا اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور ان کے کلچر سے واقف ہونے کا موقعہ ملا-

گزشتہ چند برسوں میں، میں نے بہت سی سرحدیں پار کیں، شہروں شہروں کی سیر کی، خوبصورت عمارتیں دیکھکر مسحور ہوا، اور درجنوں تاریخی مقامات کی سیر کی- سفر کے دوران میں نے مزے مزے کے کھانے کھائے جن کی لذ ت مجھے ہمیشہ یاد رہیگی، آرٹ گیلیریوں میں میلوں گھوما اور بہت سے چرچ اور مندر دیکھے- انجانی جگہوں میں مجھے دوست ملے اور اجنبیوں نے مجھے پیار دیا-

پاکستان میں بھی، میری ملاقات بہت سے غیرملکیوں سے ہوئی اور ان میں سے کئی ایک آج بھی میرے دوست ہیں- ان سے میں نے بہت کچھ سوچنے اور کرنے کے ڈھنگ سیکھے-

ساری زندگی ایسے لوگوں سے مل کر میں نے یہ جانا ہے کہ دنیا کس طرح چلتی ہے-

ماضی کی طرف پلٹ کر دیکھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ ملک ملک کی سیر اور دنیا کے مختلف حصوں کے لوگوں سے میری جان پہچان نے کس طرح میری زندگی کو مالا مال کردیا ہے- مجھے یہ سوچ کر بیحد افسوس ہوتا ہے کہ آج کے پاکستانی نوجوانوں کو اس قسم کے مواقع حاصل نہیں ہیں- پاکستان کے خوفناک امیج کی وجہ سے ویزا حاصل کرنا ان کے لئے دشوار ہوتا جارہا ہے-

اور یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے- دوسرے مسلمان ملکوں، مثلاً افغانستان، صومالیہ، یمن، نائیجیریا، عراق اور شام کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے- غیر ملکی تو شائد ہی ان خطرناک علاقوں میں جاتے ہوں، جب تک کہ ان کے لئے وہاں جانا بہت ضروری نہ ہو-

اس علیحدگی، سوچ اور حقیقی طور پر راستے الگ ہونے کے نتیجے میں دنیا ہمیں کٹر انتہا پسند سمجھنے لگی ہے جو باقی ساری دنیا پر ایک ایسا مذہبی نظام تھوپنا چاہتے ہیں جو انھیں قبول نہیں-

دوسری طرف ہم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ مغرب کو اسلام سے ڈرنے کا مرض لاحق ہوگیا ہے، اور وہ یہ سمجھ نہیں پا رہا ہے کہ مسلمانوں کی صرف ایک معمولی سی اقلیت ہے جو جہاد میں مصروف ہے-

لیکن سچ تو یہ ہے کہ صرف مغرب نے ہی ہمیں ایک علیحدہ وارڈ میں نہیں رکھ دیا ہے:

مشرق وسطیٰ جانے والے ہر پاکستانی کو یہ تجربہ ہوا ہوگا کہ عرب ممالک میں نسل پرستی ہے اور تارکین وطن سے تعصب برتا جاتا ہے- لیکن اگر وہ ہمارے سبز پاسپورٹ پر داخلے کی مہر لگانے میں ہچکچاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ خاصے پاکستانی، صومالیہ سے لیکر شام تک جہادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں-

لیکن کیا ہمیں اس کی فکر ہے؟

کیا واقعی پیرس کے لوور میوزیم میں داخل ہونا، لندن کے ٹیٹ ماڈرن کی پینٹنگز دیکھنا، یا دنیا بھر کے ذائقہ دار کھانوں کا لطف اٹھانا واقعی کوئی اتنی اہم بات ہے؟ اگر ہم باسفورس کے سمندر پر غروب آفتاب اور ایجین سی پر طلوع آفتاب کا منظر نہ دیکھ سکیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

ہم سے اکثر اپنے اپنے گھروں میں، دوستوں اور گھر والوں کے درمیان خوش ہیں- ان کے لئے ملک سے باہر جانا ناخوشگوار باتوں کو دعوت دینا ہے- ایک مرتبہ میں سول سرونٹس کے ایک گروپ اور ان کی بیویوں کے ساتھ پیرس میں تھا، اور مجھے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ جب کھانے کا وقت آیا تو سب نے پاکستانی ریسٹورنٹ کا رخ کیا-

ایک طرف تو ہم اپنے خول میں بند ہوتے جارہے ہیں اور دوسری طرف دنیا آگے کی جانب بڑھ رہی ہے، ہم سے لا تعلق، البتہ اسے فکر ہے تو اس بات کی کہ ہم اپنی مریضانہ آیئڈیالوجی دوسرے ملکوں کو برآمد کر رہے ہیں-

حقیقت یہ ہے کہ ہم اس علیحدگی کے نتائج کو سمجھ نہیں پارہے ہیں: اگر ہم باہر کی دنیا کے مفید اثرات سے فیض یاب نہیں ہونگے تو اپنی جگہ جامد ہو جائنگے اور جہالت اور عدم برداشت کی گہری دلدل میں پھنس جائنگے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: سیدہ صالحہ

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025