• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C

ملے جو دیں سیاست سے - 6

شائع March 17, 2014 اپ ڈیٹ July 13, 2016

روایت ہے کہ ’سیاست کے خیمے میں مذہب کا اونٹ داخل ہوتا ہے تو انسانیت منہ لپیٹ کر باہر نکل آتی ہے‘۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہب اور سیاست کے امتزاج کا بہترین نمونہ جماعت اسلامی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہبی جماعتوں کے کردار کو سمجھنے کے لیے جماعت کی تاریخ پر نظر ڈالنا وقت کا تقاضا ہے۔ موجودہ حالات یہ ہیں کہ ارض پاک مذہبی تنازعات میں گھری ہوئی ہے اور مذہبی جماعتیں، جنہیں عوام نے کبھی ووٹ ڈالنا مناسب نہیں سمجھا، اس ملک کی نظریاتی ٹھیکے دار بنی بیٹھی ہیں۔**

'سیاست ایک گٹر ہے'، یہ فقرہ ہم سب بہت بار سن چکے ہیں، لیکن مذہب اور سیاست کے تعلق پر بات کرنا کبھی گوارہ نہیں کرتے. اگر سیاست گٹر ہے تو ظاہر ہے اس میں گرنے والی ہر چیز غلیظ اور ذلیل ہی ہوگی. تاریخ گواہ ہے مذہب کے نام پر سیاست کی اجازت ہونے کا واحد ایک ہی مطلب اور نتیجہ نکلتا ہے، ذاتی اور سیاسی مفاد کیلئے مذہب جیسے عظیم اور مقدّس آئیڈیل کا ناجائز استعمال اور استحصال.

گو علامہ اقبال نے مذہب اور سیاست کے تعلق سے فرمایا تھا؛

"جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"

لیکن پاکستانی تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے، ہمیں یقین ہے کہ علامہ اگر آج حیات ہوتے تو ضرور کرّاہ اٹھتے کہ؛

"ملے جو دیں سیاست سے تو آجاتی ہے چنگیزی!"

پاکستان کی تاریخ میں مذہبی سیاست کے داغدار کردار کو قارئین تک پہنچانے کے لیے ہم نے اس سلسلہ مضامین کا آغاز کیا ہے، جماعت اسلامی کو بطور مثال پیش کر کے ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ مذہب اور سیاست کو اکٹھا کرنا مہلک ترین غلطی ہے جس کی سزا نسلوں کو بھگتنی پڑتی ہے۔


’نظریہ  پاکستان‘  ایک  ایسا  مہمل  نظریہ  ہے  جس  کی  کوئی  مستند  تعریف  کسی  تاریخی  دستاویز  میں  نہیں  ملتی۔  آل  انڈیا  مسلم  لیگ،  محمد  علی  جناح،  علامہ  اقبال  یا  لیاقت  علی  خان  نے  کبھی  ایسے  کسی  نظریے  کا  ذکر  اپنی  کسی  تقریر  یا  تحریر  میں  نہیں  کیا۔  پاکستان  کو  نیشن  سٹیٹ  یا  قومی  ریاست  کی  بجائے  ’نظریاتی‘  ریاست  بنانے  کی  کوششیں  علامہ  اسد  جیسے  مشکوک  اور مولانا مودودی  جیسے  بد ترین پاکستان  مخالفوں نے  شروع  کیں۔
’نظریہ پاکستان‘ ایک ایسا مہمل نظریہ ہے جس کی کوئی مستند تعریف کسی تاریخی دستاویز میں نہیں ملتی۔ آل انڈیا مسلم لیگ، محمد علی جناح، علامہ اقبال یا لیاقت علی خان نے کبھی ایسے کسی نظریے کا ذکر اپنی کسی تقریر یا تحریر میں نہیں کیا۔ پاکستان کو نیشن سٹیٹ یا قومی ریاست کی بجائے ’نظریاتی‘ ریاست بنانے کی کوششیں علامہ اسد جیسے مشکوک اور مولانا مودودی جیسے بد ترین پاکستان مخالفوں نے شروع کیں۔

یہ اس بلاگ کا چھٹا حصّہ ہے، پہلے، دوسرے، تیسرے, چوتھے اور پانچویں حصّے کے لئے کلک کریں


مارچ 1969ء میں ایوب خان کے زوال کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا اور ابتدا میں ہی اعلان کیا کہ اسکی حکومت ’نظریہ پاکستان‘ کی مخالفت کرنے والی کسی سیاسی جماعت کو برداشت نہیں کرے گی۔

نظریہ پاکستان‘ ایک ایسا مہمل نظریہ ہے جس کی کوئی مستند تعریف کسی تاریخی دستاویز میں نہیں ملتی۔ آل انڈیا مسلم لیگ، محمد علی جناح، علامہ اقبال یا لیاقت علی خان نے کبھی ایسے کسی نظریے کا ذکر اپنی کسی تقریر یا تحریر میں نہیں کیا۔ ہم اس امر کا تذکرہ کر چکے ہیں کہ پاکستان کو نیشن سٹیٹ یا قومی ریاست کی بجائے ’نظریاتی‘ ریاست بنانے کی کوششیں علامہ اسد جیسے مشکوک اور مودودی صاحب جیسے پاکستان کے مخالفوں نے شروع کیں۔

اس ضمن میں ایک اور ہستی صاحبزادہ شیر علی خان بھی گزرے ہیں۔ سنہ 1978ء میں انہوں نے اپنی آپ بیتی میں 1948ء کا ایک واقعہ بیان کیا:

’میں نے اپنے انگریز افسر کو بتایا کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے، اور اسلام نے اس ملک کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدیں اسکی جغرافیائی سرحدوں سے زیادہ ضروری ہیں۔ میری نظر میں پاک فوج کی بنیادی ذمہ داری ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے‘۔

بعد میں ان صاحب کو فوج میں مذہب اور نظریات کی تعلیم کے متعلق ایک کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا۔ اس کمیٹی میں ان کے علاوہ ایک لیفٹننٹ کرنل یحییٰ خان بھی موجود تھے۔ اس کمیٹی کی مرتب کردہ رپورٹ پر سنہ 1969ء تک عمل نہیں کیا گیا۔

یحییٰ خان نے عنان اقتدار سنبھالی تو شیر علی خان، جو فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد سفارتکاری میں مصروف تھے، کو پاکستان واپس بلا کر وزارت نشریات کا قلم دان عطا کیا گیا۔

نشریات کے وزیر کی حیثیت سے انہوں نے ملک بھر کے صحافیوں سے ملاقات کی اور لکھا؛

’ان تمام ملاقاتوں کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ لوگ معاشی مسائل کی وجہ سے پریشان ہیں اور اس صورت حال میں بائیں بازو کے لوگ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں اور بنیادوں پر تنقید کر رہے ہیں۔ سوشلزم باتوں کی حد تک ٹھیک ہے لیکن اسکو اسلام کے نعم البدل کے طور پر پیش کرنا بیوقوفی ہے۔ مجھے اس بات پر کامل یقین ہے کہ بہت زیادہ 'ترقی پسند' افراد صحافت کے میدان میں موجود ہیں‘۔

انہی صاحب نے حکم دیا تھا کہ جناح صاحب کی 11 اگست والی تقریر سرکاری ریکارڈ سے نکال کر جلا دی جائے۔

یکساں خیالات کے باعث جماعت اسلامی نے اس فوجی حکومت کی بھرپور تعریف کی۔ لاہور میں یحییٰ خان سے ملاقات کے بعد میاں طفیل اور مودودی صاحب نے فوجی آمر کو ’اسلام کا چیمپئن‘ قرار دیا اور اسکے تجویز کردہ قانونی مسودے کے ’اسلامی‘ ہونے کی نوید دی۔

آمریت سے الحاق کے بعد جماعت نے مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی معاشی پالیسی کو زد پر لیا اور اسلام کو تمام معاشی و معاشرتی مسائل کا حل قرار دیا۔

مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کو یہ سجھانے کی سعی کی گئی کہ انکی وفاداری اسلام اور پاکستان کے ساتھ ہونی چاہئے اور نسلی، لسانی، معاشرتی وجوہات کی بنا پر اختلاف کی کوئی ضرورت نہیں۔

دسمبر 1969ء میں جماعت نے انتخابات کے لیے اپنا منشور شائع کیا جس میں عوام سے تین سوالات پوچھے گئے تھے؛

1۔ کیا پاکستان کو اسکی اسلامی بنیادیں برقرار رکھنی چاہئیں؟

2۔ کیا پاکستان کو متحد رہنا چاہئے؟

3۔ کیا جماعت ہی انتخابات میں حصہ لینے والی واحد جماعت نہیں جو اسلام کے ذریعے ملک کی وحدانیت برقرار رکھنے کی اہلیت رکھتی ہے؟

اسی رو میں جماعت نے 30 مئی 1970ء کو ’یوم شوکت اسلام‘ منایا۔ مغربی پاکستان کے مختلف شہروں میں جلسے نکالے گئے اور مذہب کو سیاسی میدان کا حصہ بنانے کے حق میں تقاریر کی گئیں۔ قومی اسمبلی کے انتخابات میں جماعت نے 151 امیدوار کھڑے کئے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے لیے 331 امیدوار نامزد کئے۔

انتخابات سے قبل سرکاری اندازوں کے مطابق مذہبی جماعتوں کی کامیابی کی پیش گوئی کی جا رہی تھی البتہ نتائج نے ان امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

جماعت اسلامی قومی اسمبلی میں صرف چار اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی چار ہی نشستیں حاصل کر سکی۔ ناکامی کے بعد جماعت نے مغربی پاکستان میں فوجی حکومت سے ناتا توڑنے کا اعلان کیا لیکن مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم پرستوں کی بھرپور مخالفت جاری رکھی۔

اپریل 1971ء میں جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے امیر غلام اعظم نے جنرل ٹکا خان سے ملاقات کی اور ’اسلام دشمنوں‘ کے خلاف کاروائی کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی۔

جماعت کا ایک وفد یورپ بھیجا گیا تاکہ مشرقی پاکستان میں فوج کی بربریت کے حق میں صفائی پیش کی جائے. ایک اور وفد اسی مقصد کے لیے عرب ممالک بھیجا گیا۔

اسی دوران جمیعت کے کارکنان پر مشتمل گروہ البدر اور الشمس تشکیل دیے گئے جنہوں نے فوج کے ساتھ مل کر بنگالی دانش وروں کے قتل عام میں حصہ لیا۔

وجاہت مسعود صاحب نے اپنے مضمون ’روشنی سے ڈرتے ہو‘ میں جماعت کے مشرقی پاکستان میں کردار پر لکھا؛

”متحدہ پاکستان میں اردو، اسلام اور ہندوستان دشمنی کی تین پہیوں والی سائیکل چلانے والے ہمیشہ یہی کہتے اور سمجھتے رہے کہ مشرقی پاکستان کی بے گانگی کا اصل سبب معاشی ناہمواری اور سیاسی استحصال نہیں بلکہ وہاں کا دانشور طبقہ بالخصوص ہندو اساتذہ ہیں جو عوام میں الٹی سیدھی باتیں پھیلاتے ہیں۔"

حقیقت بھی یہی تھی کہ بنگالی عوام کے سیاسی شعور کی بیداری میں وہاں کے روشن خیال اور جمہوریت پسند دانشوروں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

پون صدی کی سیاسی کشمکش کے بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی نوشتہ دیوار نظر آنے لگی تو مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران نے خالص جاگیردارانہ انداز میں ’دشمنی‘ کو آخری دم تک نبھانے کا فیصلہ کیا۔

منتخب یونیورسٹی اساتذہ کے قتل کا سلسلہ 1969ء ہی سے شروع ہو چکا تھا جب راجشاہی یونیورسٹی کے استاد شمس الضحی کو دن دہاڑے قتل کیا گیا تھا۔ 25 مارچ 1971 ء کی قیامت خیز رات (المشہور آپریشن سرچ لائٹ) کے مقتولوں میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے متعدد اساتذہ بھی شامل تھے۔

عوامی لیگ کی منتخب قیادت کے ہندوستان جانے کے بعد منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں جماعت اسلامی فوجی قیادت کے بہت قریب آ گئی تھی۔ یوں بھی جماعت اسلامی کے لیے عوامی لیگ کی غیر مذہبی سیاست نظریاتی اعتبار سے ناقابل برداشت تھی۔

مکتی باہنی کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی انتظامیہ نے جماعت اسلامی کو اپنا مسلح بازو تشکیل دینے کی ترغیب دی جسے ابتدائی طور پر ’البدر‘ کا نام دیا گیا (20 برس بعد کشمیر جہاد میں بھی جماعت اسلامی نے اپنی پروردہ جہادی تنظیم کے لیے ’البدر‘ ہی کا نام چنا)

صدیق سالک ’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘ میں لکھتے ہیں کہ؛

"بعدازاں اسی تنظیم کو ’الشمس‘ بھی کہا جانے لگا تاکہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی وسیع مخالفت کا تاثر پیدا کیا جا سکے۔

جماعت اسلامی کے رضا کار مکتی باہنی جیسی مسلح تنظیم کا تو کیا مقابلہ کرتے جس کے ارکان ہندوستان سے باقاعدہ فوجی تربیت حاصل کر چکے تھے، البتہ البدر اور الشمس کے ارکان کو غیر مسلح مگر روشن خیال دانشوروں پر دل کے ارمان نکالنے کا اچھا موقع ہاتھ آیا۔

البدر کے رہنماؤں میں مولوی غلام اعظم، مولوی عبدالمنان اور اشرف الزماں کے نام نمایاں ہیں۔ البدر کو فوجی تربیت کے لیے باقاعدہ سرکاری تعلیمی ادارے مہیا کیے گئے۔ سیکولر دانشوروں کو جسمانی طور پر ختم کرنے کے اس سلسلے کا ہولناک ترین واقعہ پاکستان فوج کے ہتھیار ڈالنے سے دو روز قبل 14 دسمبر 1971ء کو پیش آیا۔

واقعات کے مطابق البدر کے ارکان نے ایک باقاعدہ فہرست کے مطابق آدھی رات کو ڈھاکہ کے دو درجن سے زائد چیدہ چیدہ دانشوروں کو اغوا کیا۔ ان میں سے بیشتر اساتذہ یا تو اپنے شعبوں کے سربراہ تھے یا علمی اور ادبی حلقوں میں نہایت نمایاں مقام رکھتے تھے۔ انہیں مختلف مقامات پر رکھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر ریئر بازار اور میر پور میں بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

17 دسمبر کو انکی مسخ شدہ لاشیں کچے بند کے قریب پایاب پانی سے برآمد ہوئیں۔ ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے اور سر میں گولی کا نشان تھا".

اسلامی جمیعت طلبہ کے ایک سرگرم رکن سلیم منصور خالد نے اپنی کتاب ’طلبہ تحریکیں، جلد اول‘ میں لکھا؛

"غیر بنگالی اپنے پر کئے گئے مظالم کا بدلہ لینے میں مصروف رہے۔ اب وہ بنگلہ بولنے والوں کا قتل عام کر رہے تھے اور اس عرصے میں بنگالیوں کی ایک بڑی تعداد کو قتل کر چکے تھے۔ میر پور اور محمد پور میں بنگالیوں کا داخلہ قریب ناممکن تھا۔ اس طرح جہاں بھی پاک فوج کا قبضہ ہوا اور غیر بنگالیوں کو موقعہ ملا، بنگلہ بولنے والوں کا اسی طرح قتل عام ہوا جس طرح ان کے ساتھ ہوا تھا۔ جئے بنگلہ سے انتقام کے نام پر غیر بنگالیوں کی طرف سے غریب کمزور بنگالیوں کا یہ قتل عام انسانیت کی تاریخ میں ایک خونی باب کی حیثیت رکھتا ہے"۔

اپنی کتاب ’البدر‘ میں انہوں نے مشرقی پاکستان سے جمیعت کے وفد کی مولانا مودودی سے ملاقات کا ذکر کیا۔ مودودی صاحب نے لڑکوں کو بتایا؛

"اب ملک کے دونوں حصوں میں سوشلزم اور نیشنلزم کی علمبردار دو جماعتوں نے جھوٹے وعدوں کے بل بوتے پر انتخابات میں اکثریت حاصل کی ہے۔ انتخابات کے ان نتائج نے پاکستان کو متحدہ مضبوط رکھنے والے رشتے (اسلام) پر کاری ضرب لگائی ہے"۔

مزید فرمایا؛

"مشرقی پاکستان میں اس عرصے میں اس قدر نقصان ہو چکا ہے کہ اگر یہ حصہ علیحدگی سے بچ بھی گیا تو آئندہ پچاس برس تک نہ سنبھل سکے گا۔ باہمی اعتماد کی فضا بحال کرنے کیلئے ایک طویل عرصہ درکار ہو گا۔ بشرطیکہ ملک کی باگ ڈور محب وطن اور سیاسی بصیرت رکھنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں آ جائے"۔

البدر کے قیام پر مولانا نے تشویش ظاہر کی اور کہا کہ ’جس وقت بھی وہاں حکومت آپ سے ہتھیار واپس مانگے تو ایک لمحہ کی تاخیر کئے بغیر واپس کر دیجیئے گا‘۔

ستمبر 1971ء میں جماعت اسلامی کو فوجی کابینہ میں چار وزارتیں دی گئیں۔ اکتوبر-نومبر 1971ء میں مشرقی پاکستان کی منتخب نشستوں پر ضمنی انتخابات کا ڈرامہ رچایا گیا۔ اس کا احوال صدیق سالک کی زبانی سنئے؛

"نئے سیاسی سمجھوتے کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کی ان 78 نشستوں کے لیے ضمنی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا جو عوامی لیگ کے مفرور ہونے سے خالی ہوئی تھیں۔ ضمنی انتخابات کرانے کی ذمہ داری میجر جنرل راؤ فرمان علی کو سونپی گئی۔ انہوں نے اسے دائیں بازو کی ان سیاسی جماعتوں کو نوازنے کا ذریعہ سمجھا جو گزشتہ چند مہینوں سے فوج سے تعاون کر رہی تھیں، چنانچہ انہوں نے ان جماعتوں کو اپنے امیدواروں کی فہرستیں پیش کرنے کو کہا۔ انہوں نے درج ذیل بولی دی: پاکستان جمہوری پارٹی 46، جماعت اسلامی 44، کونسل مسلم لیگ 26، کنونشن مسلم لیگ 21، نظام اسلام پارٹی 17‘۔

اس بندر بانٹ میں جماعت نے اپنی اوقات سے بڑھ کر حصہ حاصل کیا، البتہ 16 دسمبر 1971ء کو سب تدبیریں دھری کی دھری رہ گئیں اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ ’محب وطن اور سیاسی بصیرت رکھنے والے‘ وزراء اور البدر کے قصائی، بنگالی عوام کو انکے جائز حقوق سے دور رکھنے میں ناکام ٹھہرے۔

(...جاری ہے)


ریفرنس:

محاصرے کا روزنامچہ، وجاہت مسعود

طلبہ تحریکیں، جلد اول، سلیم منصور خالد

میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، صدیق سالک

The Vanguard of Islamic Revolution,Vali Nasr

Story of Soldiering and Politics in India and Pakistan,Sher Ali Khan

عبدالمجید عابد

لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں پڑھیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025