ٹی ٹوئنٹی کا نیا شہنشاہ کون؟
چوکوں، چھکوں اور نئے ان گنت ریکارڈز کی برسات لیے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا آغاز بس ہونے کو ہے اور کیا خوب کہ ایونٹ کے مین راؤنڈ کا آغاز بھی کسی خواب سے کم نہیں جہاں پہلے ہی میچ میں روایتی حریف پاکستان اور ہندوستان کی ٹیمیں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوں گی۔
ایونٹ کی تمام ٹیموں پر ایک نظر دوڑائی جائے ایشین فاتحین کے ساتھ ساتھ دفاعی چیمپیئن ویسٹ انڈیز کو ٹورنامنٹ کے لیے فیورٹ قرار دیا جارہا ہے۔
آل راؤنڈرز کی دولت سے مالا مال ویسٹ انڈین ٹیم اعزاز کے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتی جس کے پاس کپتان ڈیرن سیمی، مارلن سیمیولز، ڈیوین براوو، کرس گیل اور آندرے رسل جیسے تباہ کن آل راؤنڈر موجود ہیں جو کسی بھی باؤلنگ لائن کے بخیے ادھیڑنے کے ساتھ ساتھ بیٹنگ لائن کو بھی گزند پہنچانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس کے ساتھ فاسٹ باؤلر روی رامپال کے ساتھ سنیل نارائن و سیمیول بدری جیسے اسپنرز کی موجودگی اسے ایک مکمل ٹیم کی شکل دے دیتی ہے خصوصاً بنگلہ دیش کی وکٹوں پر ان اسپنرز کی موجودگی میں ویسٹ انڈین ٹیم کسی بھی ٹیم کو ہرانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔
آسٹریلین ٹیم کا مضبوط پہلو اس کی جاندار بیٹنگ لائن ہے جہاں جارج بیلی، آرون فنچ، ڈیوڈ وارنر، شین واٹسن، کیمرون وائٹ، گلین میکس ویل اور جیمز فالکنر جیسے نام نظر آتے ہیں اور ان تمام ہی کھلاڑیوں کو جارحانہ بلے بازی میں ملکہ حاصل ہے۔
لیکن اس ٹیم کے لیے پریشان کن پہلو باؤلنگ لائن ہے جو مچل جانسن کے ایونٹ سے باہر ہونے کے باعث شدید شکلات سے دوچار ہے اور ٹورنامنٹ میں اس کا تمام تر دارومدار مچل اسٹارک اور 43 سالہ اسپنر بریڈ ہوگ پر ہو گا۔
جنوبی افریقہ کی ٹیم کو بھی کچھ ایسی ہی صورتحال درپیش ہے جسے فاف ڈیو پلیسی، ہاشم آملا، اے بی ڈی ویلیئرز، کوئنٹن ڈی کوک، جے پی ڈومینی اور ڈیوڈ ملر کی صورت میں ایک مضبوط بیٹنگ لائن کا ساتھ حاصل ہے لیکن اسکواڈ میں کسی اہم اسپنرز کی عدم موجودگی اسے بنگلہ دیشی سرزمین پر مشکلات سے دوچار کر سکتی ہے۔
باؤلنگ میں پروٹیز ایک بار پھر اسپیڈ اسٹار ڈیل اسٹین پر انحصار کریں گے لیکن اس کے لیے ان کا فٹ ہونا انتہائی ضروری ہے، اس کے علاوہ باؤلنگ ڈپارٹمنٹ میں لونوابے سوٹسوبے، مورنے مورکل، وین پارنیل، ایلبی مورکل جبکہ اوسط درجے کے اسپنرز عمران طاہر اور ایرون فنگیسو موجود ہوں گے لیکن ان دونوں اسپنرز کے لیے خود کو منوانا کسی چیلنج سے کم نہ ہو گا۔
اس کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقی ٹیم کے لیے چوکرز کے لیبل سے جان چھڑانا بھی ایک بہت بڑا معرکہ ہو گا۔
نوجوان کھلاڑیوں سے بھرپور نیوزی لینڈ کی ٹیم کو اس ٹورنامنٹ میں سرپرائز پیکج قرار دیا جا رہا ہے جسے بلاشبہ بڑے نام نہ صحیح لیکن بڑی کارکردگی کے حامل کھلاڑیوں کا ساتھ حاصل ہے۔
کپتان برینڈن میک کولم، روس ٹیلر، کین ولیمسن، کوری اینڈرسن، کولن منرو، مارٹن گپٹل، مچل میک کلنگن اور ناتھن میک کولم جیسے باصلاحیت کھلاڑیوں پر مشتمل یہ ٹیم ایونٹ میں کسی کو بھی اپ سیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ تاریخ رقم کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
ء2010 کے ایونٹ کی چیمپیئن انگلش ٹیم سے ماہرین کو کسی خاص کارکردگی کی امید نہیں، حالیہ شکستوں، انجریز اور تنازعات سے دوچار انگلش ٹیم کو اسٹورٹ براڈ، آئن مورگن، آئن بیل اور لیوک رائٹ جیسے کھلاڑیوں کا ساتھ حاصل ہو گا لیکن کھلاڑیوں کی حالیہ کارکردگی اور اسکواڈ میں کسی اچھے اسپنر کی عدم موجودگی میں سابقہ چیمپیئن ٹیم کی ایونٹ میں کامیابی کسی معجزے سے کم نہ ہو گی۔
اب کچھ بات ایشین ٹیموں کی جہاں سری لنکن ٹیم حریفوں کے لیے کسی خطرے سے کم نہ ہو گی، دنیش چندیمل کی زیر قیادت یہ ٹیم تجربہ کار اور نوجوان کھلاڑیوں کا حسین امتزاج ہے۔
گزشتہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی رنر اپ ٹیم کی بیٹنگ لائن تلکارتنے دلشان، مہیلا جے وردنے، کمار سنگاکارا، انجلو میتھیوز، کشال پریرا اور تھسارا پریرا جیسے مضبوط ہاتھوں میں ہے تو باؤلنگ لائن میں اسے لاستھ ملنگا، سورنگا لکمل اور اجنتھا مینڈس و رنگنا ہیراتھ جیسے اسپنرز کی صورت میں مہلک ہتھیار میسر ہیں جو ماضی میں بڑی بڑی ٹیموں کی بیٹنگ لائن کو تہس نہس کر چکے ہیں۔
اس صورتحال میں سری لنکن ٹیم ایک بار پھر ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلنے یا پہلی مرتبہ چیمپیئن بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ مضبوط ترین بیٹنگ لائن اور خطرناک اسپنرز کی حامل ہندوستانی ٹیم کو ایونٹ کے لیے فیورٹ تصور کیا جا رہا ہے۔
مہندرا سنگھ دھونی کی زیر قیادت ٹورنامنٹ کا اولین ایڈیشن جیتنے والی ٹیم کا انحصار ایک بار پھر اس کی روایتی تگڑی بیٹنگ لائن ہو گی جسے شیکھر دھون، ویرات کوہلی، سریش رائنا، روہت شرما، یوراج سنگھ اور دھونی جیسے باصلاحیت بلے بازوں کا ساتھ حاصل ہے۔
ہندوستانی ٹیم کا ایک اور مضبوط پہلو مضبوط اسپن ڈپارٹمنٹ جسے روی چندرہ ایشون، رویندرا جدیجا اور امیت مشرا جیسے مضبوط کاندھوں کا ساتھ حاصل ہے تاہم کمزور فاسٹ باؤلنگ یونٹ اس عالمی ایونٹ میں ہندوستان کے لیے بڑی مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔
اب آخر میں ذکر ایونٹ کی تاریخ کی سب سے کامیاب ٹیم پاکستان کا جسے ایک بار پھر ٹورنامنٹ جیتنے کے لیے سب سے بڑا فیورٹ تصور کیا جارہا ہے۔
ایک بار پھر پاکستان کا انحصار اپنی باؤلنگ لائن پر ہو گا جسے عمر گل، جنید خان اور بلاول بھٹی کے ساتھ ساتھ سعید اجمل، شاہد آفریدی، ذوالفقار بابر اور محمد حفیظ جیسے باؤلرز کا ساتھ حاصل ہے۔
دوسری جانب بیٹنگ میں کامران اکمل، احمد شہزاد، شرجیل خان، شعیب ملک، حفیظ، صہیب مقصود اور عمر اکمل ساتھ نبھانے کو تیار بیٹھے ہیں لیکن جنوبی افریقہ کے خلاف وارم اپ میچ میں گرین شرٹس کی بیٹنگ پرفارمنس نے ٹیم کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے جہاں پوری ٹیم محض 71 رنز پر پویلین پہنچ گئی اور ایک بار پھر شائقین کے ذہنوں میں یہ سوال کوند رہا ہے کہ کیا واقعی یہی ٹیم ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں جیت کی امید لیے میدان میں اترے گی۔
کارکردگی کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں سب سے اہم مسئلہ فائنل الیون کا چناؤ ہے۔
اگر باؤلنگ کی بات کی جائے تو عمر گل، اجمل، آفریدی اور حفیظ کی شمولیت تو یقینی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر بقیہ دو باؤلرز کون ہوں گے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کو شعیب ملک کا ساتھ بھی حاصل ہو گا جو ضرورت پڑنے پر ایک آدھ اوور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس لیے ذوالفقار بابر کی شمولیت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، اب سوال یہ کہ آخر فاسٹ باؤلرز میں جنید، بلاول، سہیل تنویر اور محمد طلحہ میں سے کن دو پر انحصار کیا جائے گا؟۔
کچھ ایسی صورتحال بیٹنگ میں بھی درپیش ہے جہاں وارم اپ میچ میں کامران اکمل کی جانب سے بحیثیت اوپنر کارکردگی دکھانے کے بعد سب سے اہم مسئلہ اوپنرز کا سلیکشن ہے۔
اگر شرجیل اور شہزاد کو بطور اوپنر برقرار رکھا جاتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کامران اکمل کس نمبر پر کھیلیں گے؟، کیا حفیظ ان کے لیے اپنے نمبر تین کی قربانی دیں گے یا پھر ابتدائی نمبروں پر تیز بیٹنگ کی بنیاد پر اسکواڈ میں جگہ پانے والے وکٹ کیپر بلے باز کو پہلے سے کمزور مڈل آرڈر کا حصہ بنایا جائے گا۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو صورتحال مزید گمبھیر ہو جائے اور پھر ٹیم مینجمنٹ کو شعیب ملک یا صہیب مقصود میں سے کسی ایک کو مڈل آرڈر سے ڈراپ کرنے کا رسک لینا ہو گا اور ٹیم کی بیٹنگ کی موجودہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا کسی جوئے سے کم نہ ہو گا۔
بہرحال ٹیم جو بھی ہو لیکن مینجمنٹ کو ایونٹ میں فتح کے لیے ہر میچ میں ایک متوازن ٹیم میدان میں اتارنا ہو گی کیونکہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر بیٹنگ نےاپنا کام کر دیا توگرین شرٹس ایک بار پھر چیمپیئن بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں لیکن آخر ایسا ہو گا بھی یا نہیں، اس کا فیصلہ چھ اپریل کو شیر بنگلہ اسٹیڈیم میں ہو گا یا پھر شاید اس سے پہلے ہی۔۔۔۔











لائیو ٹی وی