• KHI: Partly Cloudy 23°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.1°C
  • KHI: Partly Cloudy 23°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.1°C

خونی فتح

شائع July 4, 2014

ایک گندے تالاب کو اسپرے کرکے، آپ تھوڑے عرصے کیلئے تو مچھروں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں لیکن اگر گندے پانی کو باہر نہیں نکالا گیا تو یہ کیڑے دوبارہ پیدا ہوجائیں گے-

اور بالکل ایسا ہی دہشت گردوں کے معاملے میں بھی ہے جن سے شمالی وزیرستان میں اس وقت فوج نبرد آزما ہے- جہاں ہمیں روزانہ جنگ میں کامیابی کی خوش خبری دی جارہی ہے، لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اس علاقے کو تشدد پسندوں سے خالی کرانے کے بعد کیا ہوگا-

مجھے اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ ہماری فوج تشدد پسندوں کے گروہوں کو نکال باہر کریگی یا ان کا خاتمہ کردیگی جنہوں نے ہمارے قبائلی علاقوں کو اپنے اثر میں رکھا ہوا ہے، لیکن علاقوں پرقبضہ کو برقرار رکھنا بالکل دوسری بات ہے- اس کیلئے ایک انتظامی ڈھانچہ کی ضرورت ہوگی جو سینکڑوں ہزاروں آئی ڈی پیز کو واپس اپنے گھروں میں آباد ہونے میں ان کی مدد کرے گا-

یہاں مسئلہ یہ ہے کہ قبائلی علاقے زیادہ تر خودمختار ہیں، جہاں ریاست کی عملداری یا تو ہے ہی نہیں یا اگر ہے تو بہت کم ہے اور اس بات کی یقین دہانی کیلئے کہ تشدد پسند دوبارہ واپس نہ آجائیں مستقل بنیاد پر سیکیورٹی فورسز کا عملہ وہاں موجود ہونا ضروری ہے، خصوصاً جب کہ مقامی قبائلی لیڈروں کے اختیارات حالیہ دنوں میں بہت زیادہ کم ہوگئے ہیں-

اس کے بعد سوال اس موجودہ جنگ میں فوج کی قومی یک جہتی کے ساتھ حمایت کا ہے- میں نے آج تک کسی ملک میں یہ نہں سنا ہے کہ سیاستدان ایسے وقت میں حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کریں جب سپاہی ملک کی بقا کی جنگ میںاپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہوں- اس لئے قادری صاحب کیلئے اس وقت یہ ڈرامہ کرنا کبھی ایک محب وطن کا کام نہیں ہو سکتا-

ہمیں اس وقت توجہ ہٹانے والی سیاسی افراتفری بالکل نہیں چاہئے- یہ صحیح ہے کہ پنجاب پولیس نے انہیں شور مچانے کا ایک بہانہ فراہم کردیا ہے، لیکن ان کی پاکستان عوامی تحریک صاف لگتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کو، جو بے شک افسوس ناک تھا، ماحول کو گرم کرنے اورسیاسی موقع پرستی کیلئے استعمال کررہی ہے-

دوسرا مسئلہ انتہا پسندوں کے اس کردار سے جڑا ہوا ہے جو انہوں نے فوج کی صفوں کے اندرکئی سالوں سے اختیار کیا ہوا ہے، ہمارے جنرلوں اور جاسوس اداروں نے ان کو ہمشہ ایک متبادل طاقت سمجھا ہے جس کو وہ اپنے فوجی اورسیاسی عزائم کیلئے استعمال کرتے ہیں اوریہ آسانی ہوتی ہے کہ آرام سے انکار بھی کردیتے ہیں-

کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ جو اس پر انحصارکرتی ہے اس سے چھٹکارہ پاسکتی ہے؟ پہلے ہی سے اس قسم کی افواہیں گردش میں ہیں کہ حقانی نیٹ ورک جیسے تشدد پسند گروہ کو اس ہونے والےآ پریشن سے پہلے خبردار کردیا گیا تھا اور وہ افغان سرحد کے قریب کسی دوسرے علاقے میں منتقل ہوگئے تھے- نیٹو اورایساف کی فوجوں کے افغانستان چھوڑنے کی صورت میں، یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ہماری فوج انہیں ختم کرسکتی ہے جنہیں وہ اپنے اثاثے سمجھتی ہے-

ایک پرامید اوررجائی سوچ تو یہ ہے کہ فوج اس پورے علاقے کو انتہا پسند جہادیوں سے نجات دلادے گی جسے انہوں نے برسوں سے پاکستانی ریاست کی ملی بھگت سے اپنے قبضے میں لیا ہوا تھا، اب اس کے بعد آگے کیا ہوگا؟ آخر کار، عسکریت ایک دم سے تو کہیں سے نہیں آگئی-

ضیاء کے زمانے میں سپاہ صحابہ کو1980ء کی دہائی کےاوائل میں شیعہ فرقہ کے خلاف ترقی دیکر اسلام کے جہادی کے درجے پر فائز کرکے سوویت یونین سے لڑنے کیلئے افغانستان روانہ کیا گیا، اس کے بعد سے اسلامی عسکریت جائز سمجھی جانے لگی اور عوام میں اسے قبولیت ملنے لگی- اور ایک مرتبہ سوویت روس کی روانگی کے بعد، 1980ء کی دہائی کے اواخر میں ہماری فوج نے لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب عسکریت پسندوں کو بھیج کرکشمیریوں کی بغاوت کی حمایت کی جانب اپنا رخ موڑا-

اسی زمانے میں، مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے ایک جنرل سے پوچھا تھا کہ اب یہ عسکریت پسند کس کام آئینگے- اس نے جواب دیا کہ یہ ایک فوجی سوچ ہے کہ چند ہزار گوریلا کشمیر میں کئی ہندوستانی ڈویژن کو الجھائے رکھنے کے لئے کافی ہیں جو دوسری صورت میں انڈو پاک سرحد پر ہماری فوجوں کے آمنے سامنے ہوتے-

ان برسوں میں، انتہا پسند نظریات کو لوگوں میں قبولیت ملنے لگی اور یہ ہماری کلاسوں میں بھی عام ہوگئے، ٹی وی کے ٹاک شوز میں، ہماری عدالتوں اور انتظامیہ میں- در حقیقت، قومی سطح پر ہماری سوچ کا دھارا آہستہ آہستہ مذہبی دائیں بازو کی جانب جھکتا چلا گیا-

اس اخبار کے غیرملکی خبروں کے صفحہ پر ایک حالیہ کالم میں، مجھے ایک مناسب استعارہ نظر آیا جو مائیکل گو برطانوی سکریٹری برائے تعلیم نے اپنے ملک کی اسلامی دہشت گردی سے جنگ کے سلسلے میں استعمال کیا تھا- ایک کتاب میں جو 2005ء میں لندن حملے کے بعد لکھی گئی تھی، وہ کہتے ہیں کہ مگرمچھوں سے لڑائی ہی کافی نہیں ہے: اس پورے کیچڑ کو بھی صاف کرنا بےحد ضروری ہے

تو پھرہم اپنے انتہا پسندی کے زہریلے کیچڑ کو کیونکر صاف کرینگے جو کئی سالوں سے جمع ہورہا ہے؟ کون سعودی اور خلیجی مالی امداد کو روکے گا جو وہ ہزاروں مدرسوں کو بھیج رہے ہیں، اور کیونکر ہم ان مکتبوں میں جو کچھ بھی پڑھایا جارہا ہے اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرینگے؟ کون ان نجی ٹی وی چینلوں کو مجبور کریگا کہ اپنی آواز دھیمی رکھیں اور اس کے ساتھ اپنی انتہا پسندی کی حمایت کو بھی؟

جو کام بہت ضروری کرنے کے ہیں ان کی فہرست لمبی اورکافی مشکل ہے- ہمارے اسکولوں میں، مدرسوں اور فوج کے کیڈٹ کالجوں میں، عدم برداشت اور ہر اس شخص پرشک و شبہہ کا رویہ جو اکثریت کے خیالات سے اتفاق نہیں رکھتا ہے رچ بس گیا ہے- اور لگتا ہے کہ اس ذہنی کج روی کو بدلنا ہماری حکمران اشرافیہ کے لئے ایک کار محال ہے یا ان کے بس سے باہر ہے-

لیکن اس کے برخلاف، یہی اقدار ہمارے عوامی دھارے کی تمام سیاسی جماعتوں اور فوج کی مرکزی سوچ اور مخصوص مزاج بن گئی ہیں- اور یہی وہ زرخیز زمین ہے جس میں انتہا پسندی اور تشدد کی قوتیں پنپتی اور پھولتی ہیں

آپریشن کے بعد کے منظرنامے کو دیکھتے ہوئے، ہمارے سامنے خوشی منانے کیلئے بہت زیادہ تو نہیں ہے- اگرچہ کہ میں اپنی فوج کی اس جنگ میں حمایت کرتا ہوں، جس میں فتح کافی خون خرابے کے بعد ہوگی ایسی فتح جس میں شاید کوئی فاتح نہیں ہوتا ہے-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: علی مظفر جعفری

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Kala Ingrez Jul 06, 2014 01:22am
p Izzaman (comments from Same English Article) Jun 28, 2014 08:38pm I really do not understand the Pakistani mentality - instead of objectively looking at their problems and issues, the Pakistanis always draw lines based on their religion or religious sects. A good example is the author of this article, historically,targeting the Arabs and ignoring the Iranians, perhaps due to his own apparent beliefs or affiliations. The other aspect of failed journalism is how these comments are edited or censored here, I am sure there must be other comments disagreeing with the author of this article which are not published here due to what ever reasons.

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025