اتاترک کون؟

اپ ڈیٹ 22 نومبر 2014
مصطفیٰ کمال پاشا (اتاترک) — فوٹو haber7.com
مصطفیٰ کمال پاشا (اتاترک) — فوٹو haber7.com

مصطفیٰ کمال پاشا (اتاترک) محض اس لیے عظیم نہیں تھے کہ ان میں بیک وقت اک سپہ سالار اور سیاسی مدبر کی اعلیٰ خوبیاں پائی جاتی تھیں، اور نہ ہی وہ اس لیے عظیم تھے کہ وہ جدید ترکی کے معمار تھے۔ وہ اس لیے عظیم تھے کہ انہوں نے ترکوں اور ترکی کو تعصب، شکست اور تنہائی کے گہرے گڑھے میں گرنے سے نہ صرف بچایا بلکہ خلافت، امامت و بادشاہت کو مسترد کر کے ترک وطنی ریاست (Turkish Republic) بنائی اور اقوام عالم میں ترکوں کو اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑا کر دیا۔

تعصب اور شکست کی کھائی میں گری قومیں اس نواب کی نسلوں کی مانند ہوتی ہیں جنہیں جانے کتنی نسلوں تک نواب کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ مگر اتاترک نے ترکوں پر 700 برس کی عالیشان سلطنت عثمانیہ (Ottoman Empire) ٹوٹنے کا اثر نہ ہونے دیا بلکہ اس شکست کو نئے سویرے میں بدل ڈالا۔ اگر ترکوں کو اتاترک نصیب نہ ہوتا تو وہ یا تو جرمنی کی طرح تعصب، شکست و تنہائی کا شکار ہو کر ’’ہٹلر‘‘ کو جنم دیتے یا پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غلام ابن غلام بن جاتے۔

پہلی جنگ عظیم (1914 تا 1918) نے جن چار بادشاہتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا تھا ان میں جرمنوں کی پروشیائی جرمن سلطنت، ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کے علاوہ زار روس اور آسٹرو ہنگرین سلطنت شامل تھیں۔ امریکہ ولسن کی غیرجانبداری کے تحت ان لڑائیوں سے الگ تھلگ رہا اور بجا طور پر اس کو ’’جنگ عظیم‘‘ کے بجائے محض ’’یورپی تنازع‘‘ کہتا رہا، جبکہ فرانس اور برطانیہ نے مل کر لیگ آف نیشنز کے تحت ان بادشاہتوں کی کاٹ چھانٹ شروع کی۔

1913 میں ہونے والی بلقان کی جنگ کے بعد ترک اپنی 700 سالہ سلطنت کو تیزی سے بکھرتا دیکھ رہے تھے۔ کہاں وہ زمانہ کہ جب سلطان سلیمان عالیشان کی زیرقیادت 16ویں صدی میں ترک تین براعظموں میں حکومتیں چلاتے تھے۔ یورپ والے سلیمان کو عالیشان (magnificent) اور مشرق والے ’’قانون ساز‘‘ یعنی law giver کہتے تھے۔ ہنگری، یونان، بلغاریہ، الجزائر، مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا اور شمالی افریقہ سبھی ترکوں کے قبضہ قدرت میں تھے۔ بحیر روم (Mediterranean) اور بحیر احمر یا قلزم (Red Sea) میں ترکوں کے بحری جہاز دندناتے پھرتے تھے۔

اب 20ویں صدی کی دوسری دہائی میں کہاں یہ تنزلی کہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی ترکوں کے سامنے اکڑ کر کھڑی تھیں۔ برطانیہ، جسے نپولین یورپ کا حصہ بھی نہیں مانتا تھا اور دکانداروں کی قوم کے طعنے دیتا تھا اب سلطنت عثمانیہ کو نئی نئی وطنی ریاستوں میں منقسم کر رہا تھا۔ ترکوں کو ’’یورپ کا مردِ بیمار‘‘ کا طعنہ دیا گیا تو خود بہت سے ترک یہ سمجھنے لگے کہ اب وہ زوال کی پاتال سے کبھی نہ نکل سکیں گے۔ بس یہی وہ موقع تھا جب زیرک مصطفیٰ کمال پاشا نے ترکوں کی ’’کمزوری‘‘ کو ’’طاقت‘‘ میں بدلنے کا عہد کیا۔

مصطفیٰ کمال پاشا جب سپاہی تھا تو اس نے نہ صرف ترکوں کا حوصلہ بڑھایا بلکہ متحارب فوجوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتا رہا۔ جب اسے بطور سیاسی مدبر جدید ترکی کی بنیادیں رکھنا تھیں تو وہ یہ بات جان چکا تھا کہ اب بادشاہتوں اور خلافتوں کا زمانہ گزر چکا ہے اور دنیا وطنی ریاستوں (nation states) کے وسیلہ سے نئے راستے تلاش کر رہی ہیں۔ اس سوچ کے پیچھے لالہ دوری، تنظیمات اصلاحات اور مادری زبان ترکی کی تحریکوں کا اثر بھی تھا اور ینگ ٹرکس (Young Turks) کی طاقت بھی۔ بس اتاترک نے خلافت، امامت اور بادشاہت کو چھوڑ کر وطنی ریاست کی بنیاد پر جدید ترکی کی بنیادیں استوار کیں۔

’’اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیرنو‘‘ میں اقبال نے بھی اتاترک کے اس عمل کو بروقت اجتہاد قرار دے کر سراہا ہے۔ بقول اقبال، ’’مصر اور انڈیا کے علما تو اس بارے میں تاحال اپنا نقطہ نظر نہیں بنا سکے مگر میں ترکی کے اس فیصلے کی مکمل تائید کرتا ہوں۔‘‘

اپنی مشہور نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں اقبال اتاترک اور ترکوں کے حوصلے کے بارے میں یوں بتاتے ہیں:

اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے

کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ 18ویں، 19ویں اور 20ویں صدیاں بادشاہتوں کے ٹوٹنے اور آئینی بادشاہتوں کے راستے وطنی ریاستوں میں ڈھلنے کی صدیاں ہیں۔ ایسے میں کچھ دانشور اور رہنما یہ سمجھتے تھے کہ بادشاہتوں کو بچانا چاہیے تو کچھ یہ سمجھ بیٹھے کہ بادشاہتیں اس لیے زوال کا شکار ہیں کیونکہ بادشاہ نے مذہبی روایات کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ یہ وہی لوگ تھے جو نئے وطنی بندوبست کو پہلے سے سمجھنے سے قاصر رہے۔ ترکی میں بھی اس دور میں ایک گروہ سلطنت عثمانیہ کے زوال کی وجہ اسلام سے دُوری قرا دیتا تھا مگر علی رضا کے بیٹے مصطفیٰ نے رازِ زندگی پا لیا اور ترکی کو جمہوریہ بنانے پر کمر کس لی۔

’’طلوع اسلام‘‘ نظم کے اشعار پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ 1923 تک اقبال بھی اسی نتیجہ پر پہنچ چکے تھے۔ اسی نظم میں اقبال نے یہ بھی لکھ دیا کہ ان حالات میں بھی ترک، جرمنوں پر بازی لے گئے ہیں۔ یہ پہلی جنگ کے بعد کے حالات کی طرف اشارہ تھا جب ترکی اصلاحات کر رہا تھا۔

ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں

کہ المانے سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تورانی

المانے، جرمنوں کا پرانا نام ہے اور تاحال ہسپانوی، عربی اور مشرقی یورپ والے اپنی اپنی زبانوں میں جرمنی کو المانے ہی کہتے ہیں۔ اسی طرح ترکوں کو تورانی دراصل ترکمانستان سے ترکی تک پھیلے علاقے کی وجہ سے کہا جاتا تھا کہ ان سب کو اپنے ترک ہونے پر بڑا ناز تھا۔

اقبال کی یہ نظم اقبال کی کتاب ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل ہے جو 1924 میں چھپی تھی۔ یاد رہے 1920 سے 1924 کے درمیان مصطفیٰ نے جو کامیابیاں حاصل کی تھیں وہ فقید المثال تھیں۔ 24 اپریل 1920 کو مصطفیٰ نے گرینڈ نیشنل اسمبلی کے پہلے سپیکر کا حلف اٹھایا تھا۔ 3 مئی 1920 کو وہ پہلا وزیراعظم بنا اور پھر 29 اکتوبر 1923 میں ترکی کی صدارت سنبھالی۔ ترکی نے آزاد وطن کے لیے جو جدوجہد کی اس کی حمایت میں امریکی صدر ولسن نے اپنا بھرپور کردار اداکیا تھا کیونکہ ولسن کے 14 نکات میں وطنی ریاستوں کی آزادی کے احترام کی بات کی گئی تھی۔

یہی نہیں بلکہ 1924 ہی وہ سال ہے جب اپنے مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے ساتھی، ظفر حسن ایبک وغیرہ ترکی ہی میں موجود تھے۔ خود مولانا بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ہر خطے یا وطن کے مسلمانوں کے اپنے اپنے مخصوص مفادات ہیں اور سیاست میں انہی مخصوص وطنی یا قومیتی مفادات کو اولیت دینی چاہیے۔ ستمبر 1924 میں مولانا نے آزادی ہند کے لیے جو تاریخی منشور جاری کیا اس پر واضح طور پر مصطفیٰ کمال پاشا کی اصلاحات کا اثر تھا۔ یہی نہیں، جب اقبال نے نہرو رپورٹ مرتب کرنے والوں کے روبرو 1929 میں اپنی سفارشات رکھیں تو شمال مغربی علاقوں یعنی پنجاب، سرحد، سندھ و بلوچستان کے لیے حق خود اختیاری کی بات کی۔ اس مطالبہ میں بھی وطنی حقائق کو تسلیم کرنے کی بصیرت موجود تھی۔ نہرو کمیٹی نے تو حسبِ معمول اقبال کا مذاق بنایا کہ وہ سب ’’یک قومی نظریہ‘‘ (One Nation Theory) کے امین تھے مگر اقبال نے انہی تجاویز کو الہٰ آباد جا کر جب خطبے کی شکل دی تو اس نے ہماری سیاست کو نئے افق دکھا دیے۔ یہ سب ایک ہی سوچ کے مختلف اظہار تھے جن میں وطنی مسائل کو ترجیح دی گئی تھی۔

1923 سے 1938 تک اتاترک نے ترکی کو جدید وطنی ریاست بنانے کے لیے اہم ترین فیصلے کیے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم ان کے اصلاحاتی ایجنڈے کے تمام نکات سے اتفاق کرتے ہوں۔ ان میں یقینا کچھ فیصلے ایسے بھی تھے جن کو بعد میں ترکوں نے بدل ڈالا۔ مگر اس سے اتاترک کی عظمت اور ترکوں کی شان میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ وہ جدید ترکی کو جس راستے پر پچھلی صدی کی تیسری دہائی میں ڈال گئے تھے اس پر تاحال سعودی عرب، ایران، مصر، قطر، متحدہ عرب امارات جیسے لاتعداد مسلم ممالک آج بھی چلنے کا سوچ ہی رہے ہیں۔ البتہ پاکستان کی مثال منفرد ہے کہ ہمیں اقبال و جناح جیسے لیڈر ملے جو پارلیمانی روایات اور جمہوریت پر یقین رکھتے تھے۔

مصطفیٰ نے خلافت، امامت اور بادشاہت کے بجائے جو راستہ دیا آج بھی ترکی اس پر گامزن ہے۔ تاریخ کا حسین اتفاق بھی ملاحظہ کریں کہ جس سال ہم سے اقبال جدا ہوئے اسی سال یعنی 10 نومبر 1938 کو اتاترک بھی راہی ملک عدم ہوئے۔

پچھلے سال بادشاہی مسجد کے عقب میں موجود فوڈ سٹریٹ میں دو ترک پروفیسروں سے ملاقات ہوئی تو ان سے پوچھا، آپ پاکستان کے متعلق کیا جانتے ہیں تو دونوں نے بیک وقت جواب دیا ’’اقبال‘‘۔ میں نے پوچھا کیسے تو انہوں نے بتایا کہ اقبال کے کلام کا نہ صرف ترکی زبان میں مکمل ترجمہ عرصہ دراز پہلے ہو چکا ہے بلکہ ہمارے نصاب میں بھی اقبال کی نظمیں شامل ہیں۔ ذرا سوچیں ہمارے نصاب میں اتاترک اور ترکی بارے کیا ہے؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں